• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

صفیہ سلطانہ صدیقی

بڑی بڑی عالی شان کوٹھیوں والی اس کشادہ گلی میں عالی کا گھر ’’سفید کوٹھی‘‘ کے نام سے مشہور تھا۔ وہ اس گلی کا سب سے بڑا اور اونچا گھر تھا۔ اس کے برابر میں رازی کا گھر تھا، یہ بھی وسیع و عریض لان والی تین منزلہ کوٹھی تھی مگر سفید کوٹھی جیسی بڑی نہ تھی۔ عالی حسب معمول تیزی سے کار کا پچھلا دروازہ کھول کر اترا، ڈرائیور کو کچھ ہدایت دے کر واپس جانے کا کہہ کر گھر میں داخل ہو ہی رہا تھا کہ اسے رازی نے دیکھ لیا اور اس کے پاس آکر مسکرا کر مخاطب ہوا، ’’میں آپ کے برابر والے گھر میں رہتا ہوں۔‘‘

’’اوہ اچھا! میں نے آپ کو پہلی مرتبہ دیکھا ہے......‘‘ عالی نے خوش دلی سے کہا۔ پھر بولا ’’آپ سے تعارف تو ہو ہی گیا ہے، ہمارے یہاں پرسوں یوم آزادی کے سلسلے میں تقریب ہے، اس میں آپ کو بھی مدعو کررہا ہوں...... کیا نام ہے آپ کا؟‘‘ عالی نے اس سے پوچھا۔ ’’رازی کہتے ہیں مجھے!‘‘ ۔’’او کے رازی صاحب ،میرا نام عالی ہے۔‘‘ ہمارے یہاں14 اگست کو شام سے رات تک جشن ہوتا ہے،مجھے امید ہے کہ آپ ضرور آئیں گے، میرے سب دوست آتے ہیں، اب آپ بھی میرے دوستوں کی فہرست میں ہیں، اس لیے آپ بھی آئیں۔‘‘ یہ کہہ کر وہ جلدی سے گھر میں داخل ہوگیا۔

دو دن بعد 14 اگست تھا۔ لوگ اپنے اپنے طور پر ملک بھر میں یوم آزادی منا رہے تھے کوئی گلی کو جھنڈیوں سے سجارہا تھا، کوئی گھر کی چھت پر جھنڈے لہرا رہا تھا جب کہ کچھ لوگ شکرانے کے نوافل بھی ادا کر رہے تھے ۔شام ہوئی تو سفید کوٹھی کے لان سےانگریزی میوزک کی آوازیں آنے لگیں، جو کم از کم رازی کے گھر تک ضرور سنائی دے رہی تھیں۔ لگتا تھا، مہمان آچکے ہیں، رازی سوچ رہا تھا کہ وہ بارہ بجے واپس آجائے گا کیوں کہ اس کے بابا اسے رات دیر تک گھر سے باہر رہنے کی اجازت نہیں دیتے تھے۔ 

اس کا ماحول عالی کے گھر سے بالکل مختلف تھا۔وہ نو بجے عالی کے گھر پہنچا تو ایک طوفانِ بدتمیزی مچا ہوا تھا۔ ایک طرف باربی کیو کا دھواں اٹھ رہا تھا، دوسری طرف رقص و سرودکی محفل سجی ہوئی تھی۔ رازی بھونچکا رہ گیا!’’یہ...... یہ ’’یوم آزادی‘‘ ہے یا ’’یومِ غلامی‘‘ ؟؟‘‘ وہ بڑ بڑایا۔ اسی وقت عالی کا بڑا بھائی اس کے قریب آیا۔ رازی نے تعارف کرایا ’’او......کے..... مجھے عالی نے تو نہیں بتایا ، خیر اب آپ ہمارے ساتھ انجوائے کیجیے۔

رازی کا موڈ خراب ہوگیاتھا۔ ’’عالی یہ یوم آزادی ہےیا یوم غلامی ؟ ہمارے بزرگوں نے انگریزوں اور ہندوؤں کے جبر و استبداد، سماجی و معاشی نانصافی سے نجات اور اپنے مذہب کی جداگانہ شناخت کے لیے پاکستان بنایا تھا۔اگر یہی سب کرنا تھا تو پاکستان بنانے کی ضرورت کیا تھی،ہمارے آباو اجداد کو لاکھوں جانوں کی قربانی دے کر آگ و خون کا دریا پار کرکے نئے ملک میں آنے کی کیا ضرورت تھی ہم انہی کے غلام بن کر رہ سکتے تھے‘‘؟

رازی کی آنکھوں میں آنسو آگئے تھے، وہ دکھی ہوکر واپس چلا گیا۔ عالی اور اس کا بھائی حیرت سے اسے جاتے دیکھتے رہے۔عالی کے حواس بحال ہوئے تو اس نے شرکائے تقریب سے کہا،’’اب ہم آزادی کے نغمے گائیں گے، گانے نہیں‘‘۔مہمان اسے ہکا بکا ہوکر دیکھ رہے تھے۔ مگر عالی کا بھائی سمجھ گیا تھا کہ عالی کو یاد آچکا ہے کہ وہ ’’شاہین‘‘ ہے اقبال کا شاہین، جس نے اپنے پروں سے غلامی کی زنجیروں کا بوجھ اتار کر پھینک دیا ہے۔

تازہ ترین