یوم آزادی مبارک
پیارے بچو!
پاکستان کا یوم آزادی مبارک ہو۔ پورے ملک میں یوم آزادی کی خوشیاں منائی جارہی ہیں۔ آپ بھی گلی اور گھروں میں جھنڈیاں لگا رہے ہوں گے، اسکولوں میں تقاریب ہورہی ہوں گی۔ لیکن بچو، یہ ملک ہم نے بیش بہا قربانیوں کے بعد حاصل کیا ہے، ہمیں اس کی تعمیر و ترقی کے لیے کام کرنا چاہئے۔ اس مقصد کے لیےآپ کو زیادہ سے زیادہ علم و ہنر حاصل کرنا ہے ۔ بانی پاکستان کے زریں اصول ’’کام کام اور صرف کام‘‘ پر عمل کرکے ملکی استحکام میں حصہ لینا ہے۔
بچوں کا بھائی جان
تابش لطیف
دو سالہ گڈو اپنے گھر میں سب سے چھوٹا تھا، اس وجہ سے سبھی کا لاڈلا بھی، اس کی ہر خواہش پوری کی جاتی تھی ۔ایسا بہت کم ہوتاکہ اس کی کسی با ت سے انکارکیا جائے۔وہ ہر سال 14اگست کے لیے اپنے جیب خرچ میں سے پیسے جمع کرتاجب کہ جشن آزادی کی تیاری کے لیے گھر کا ہر فرد اسے الگ سے بھی پیسے دیتا ۔ اگست کا مہینہ شروع ہوتے ہی وہ اپنی امی ، ابو کے ساتھ بازار جاتا اور ڈھیر ساری جھنڈیا ں اور جھنڈے خریدتا جن سے وہ اپنا گھراور گلی سجانے کے علاوہ محلے کے بچوں میں بھی تقسیم کرتا۔ اس کی خوشی کی خاطرگھر والے لان میں تقریب کا اہتمام کرتے جس میں محلے کے تمام بچوں کو بلایا جاتا۔ تقریب میں مختلف کھیل، تقریری مقابلے،ملی نغمے وغیرہ گائے جاتے۔
اس کے نانا اور دادا سمیت محلے کے معمر افراد بچوں کوپاکستان کی آزادی کی داستانیں سناتے ، قیامِ پاکستان کا مقصد بتاتے اور قائداعظم سیمت تمام ملی اکابرین کی جدوجہد کا احوال بیان کرتے ہوئے بچوں کو ان کے نقوش پر چلنے کا درس دیا کرتے۔اس سال بھی وہ یوم آزادی روایتی دھوم دھام سے منانا چاہتا تھا۔ 14اگست قریب آچکی تھی اور وہ اسکول جانے سےپہلے امی سے کہہ کر گیا تھا کہ آج ان کے ساتھ خریداری کرنے جائے گا۔ وہ اسکول سے جلدی گھر آگیا، کچن میں گیا جہاں اس کی امی کھانا بنا رہی تھیں۔"السلام علیکم، امی۔کیا آپ ابھی تک فارغ نہیں ہوئیں؟" "وعلیکم السلام،بیٹا فارغ ہی ہوں ۔ بس سب کو کھانا دے دوں، جاؤ آپ بھی جلدی سے منہ ہاتھ دھوکے آجائیں، دوپہر کا کھانا کھا کر چلیں گے" ’’جی امی بس ابھی آیا"۔گڈو کی والدہ نے جلدی سے کھانا لگایا۔گڈو نے بھی سب کے ساتھ بیٹھ کر کھانا کھایا۔
کھانے کے بعد دونوں ماں بیٹے بازار آکر اس دکان کی طرف چلے، جہاں جھنڈے اور جھنڈیاں ملتی تھیں۔ ابھی وہ دکان سے تھوڑی ہی دور تھے کہ اس نے ایک کھوکھے کے قریب چبوترے پر ایک بچےکو روتے ہوئے دیکھا، وہ دوڑ کر اس کے قریب گیا اور رونے کا سبب پوچھا۔ بچے نے بتایا کہ’’ اس کے ابو بہت بیمار ہیں ڈاکٹروں نے فوراً اسپتال میں داخل کرانے کو کہا ہے لیکن ہمارے گھر میں کھانے کے لیے پیسے نہیں ہیں تو ان کے علاج کے لیے روپے کہاں سے لائیں‘‘۔ اس دوران گڈو کی امی بھی اس کے قریب آگئیں۔
گڈو نے جیب میں ہاتھ ڈال کر روپے نکال کر گنے تو وہ دس ہزار تھے،15ہزار اس نے اپنی امی سے لیے اور 25ہزار روپے بچے کو دیتے ہوئے کہا کہ’’،ان پیسوں سے آپ اپنے ابو کو اسپتال میں داخل کرائیں اور اپنی امی اور بھائی بہنوں کے لیے راشن بھی لے جائیں، اور ضرورت پڑے تو میرے گھر آکر مزید رقم لے لینا‘‘۔ اس کی امی اپنے بیٹے کو خاموشی سے دیکھتی رہیں۔
پیسے دینے کے بعد اس نے امی سے کہا ، گھر واپس چلیں، ہمارے بزرگوں نے پاکستان جس مقصد کے لیے بنایا تھا، وہ صرف یوم آزادی منانے کے لیے گھروں کی سجاوٹ یا جھنڈے لہرانے اور تقریبات سے پورا نہیں ہوتا بلکہ ہمارے استاد نے آج کلاس میں بھی بتایا تھا کہ14 اگست کا دن حقوق العباد پورے کرنے ،ضروت مندوں کی مدد کرنے کا درس بھی دیتا ہے‘‘۔ ہم اب ہر سال سے آزادی کا جشن دوسروں کی مدد کرکے منایا کریں گے۔ اس کی امی یہ باتیں سن کر بہت خوش ہوئیں، اوراسے دعائیں دیتی ہوئی گھر واپس آگئیں۔ یوم آزادی مبارک