• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاکستان کے جمہوری نظام نے ملکی اداروں کی ترقی میں مثبت کردار ادا نہیں کیا۔ روس نے پاکستان کو دوستی کے باعث میں اسٹیل مل لگا کر دی مگر ہم شکر ادا کرنے والوں میؓں سے نہیں۔ اس طرح کچھ شخصیات نے ادارے بنا دیے اور ان کی ساکھ بھی بنا دی۔ ہماری اشرافیہ اور اعلیٰ ملکی نوکر شاہی نے ان اداروں میں بھی نقب لگائی۔ پاکستان ایئر لائن جو پاکستان کا جھنڈا ساری دنیا میں لہراتی تھی۔ ایک زمانہ میں ایئر مارشل اصغر خان مرحوم اُس کے بھی کمان دار تھے۔ وہ معیار کا بہت خیال رکھتے تھے۔ اُس زمانہ میں ابھی تارکینِ وطن کی اتنی اہمیت نہ تھی۔ فضائی سفر بھی محدود تھا مگر انہوں نے فضائی سفر کے لئے عملہ کی اعلیٰ ترین تربیت کا انتظام کیا اور لوگ پی آئی اے پر سفر کو محفوظ اور بہترین سمجھتے تھے۔ پھر ایئر مارشل نور خان کو پی آئی اے چلانے کا مشن ملا۔ جناب نور خان نے بھی نیک نامی کمائی اور فضائی بیڑے میں اضافہ کیا۔

اتنے برسوں میں مارشل لا بھی لگا اور جمہوریت کا نام جپنے والی سیاسی اشرافیہ کے لوگ بھی سرکار میں براجمان رہے اور ملکی اداروں کی زبوں حالی میں اضافہ ہی ہوا۔ اس وقت بھی سرکاری اداروں میں سے کسی ادارے پر آپ فخر نہیں کر سکتے اور عوام کے لئے مشکلات ہی مشکلات ہیں۔ اسٹیل مل بند ہو چکی ہے۔ گزشتہ کئی برس سے اس کے ملازموں کو تنِ آسانی کی تنخواہ دی جا رہی ہے اور یہ کام سیاسی اشرافیہ اپنے مفادات کے تناظر میں کرتی رہی ہے۔ پھر یہ معاملہ اعلیٰ عدالتی حلقوں میں زیر بحث رہا مگر کوئی بھی حتمی فیصلہ نہ ہو سکا۔ پاکستان کی فضائی کمپنی ایک زمانہ میں ایشیا کی پہلی ایئر لائن تھی جو اپنے وقت کے جدید جہاز بوئنگ استعمال کرتی تھی۔ بوئنگ کمپنی امریکہ کے دفاعی معاملات میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔ امریکہ نے بوئنگ جہاز دیے جو پاکستان سے یورپ، مشرقِ وسطیٰ، شمالی امریکہ اور جاپان تک پرواز کرتے تھے اور پی آئی اے نے دوسری فضائی کمپنیوں کو پاؤں جمانے میں بھی مدد فراہم کی۔

ہمارے دوست امریکہ نے پاکستان کو اکثر اپنے مفادات کیلئے استعمال بھی کیا۔ چین کے ساتھ دوستی کے سفر کیلئے براستہ پاکستان راستہ ہموار کیا گیا۔ چین کا اپنا نظام ہے اور جس پر اس کو فخر ہے اور چین نے دنیا کو باور کرایا کہ اچھا نظام محنت اور دیانت کے کارن ہی کامیاب و کامران ہوتا ہے اور کم وقت میں اتنی ترقی امریکہ کے لئے باعث حیرت اور باعث تشویش ہے۔ امریکہ نے پاکستان کو ہمیشہ استعمال ہی کیا ہے۔ جب افغانستان میں روس کا غلبہ ہوا تو امریکہ کو خطرہ محسوس ہوا کہ وہ دنیا میں اپنی حیثیت کھو سکتا ہے اور اس نے ایک ایسی جنگ کا آغاز کیا جو بھارتی اور اسرائیلی مفادات کے تناظر میں اہم تھی اس نے عربوں کو خوب استعمال کیا اور امریکہ پر اس کے اپنے ہی دوستوں نے حملہ بھی کیا اور الزام پاکستان پر لگا دیا۔

ایک زمانے میں پی آئی اے پاکستان کے لئے باعث فخر تھی۔ پاکستان کے تارکینِ وطن سب سے زیادہ پی آئی اے استعمال کرتے تھے۔ پھر پابندیوں کا آغاز ہوا۔ بظاہر تو پی آئی اے کو اور اچھا بنانے کا بتایا گیا اور ضابطہ مارشل لا 52کے زیر سایہ پی آئی اے اچھے اور برے لوگوں سے پاک صاف کرنے کا آغاز ہوا مگر نتیجہ کیا نکلا؟ پی آئی اے کی بربادی شروع ہو گئی۔ ایک زمانہ میں پی آئی اے میں جماعت اسلامی کی متاثرہ یونین کا زور تھا پھر بھٹو کی مداخلت سے پیپلز پارٹی کی یونین بھی میدان میں آگئی۔ یونین کے نظام نے ریلوے، اسٹیل مل، نیشنل بینک اور نہ جانے کتنے اداروں کو برباد کیا۔ پی آئی اے کی بربادی میں بھی یونین کے لوگوں نے بڑا کردار ادا کیا جبکہ یہ یونین کا نظام عوامی مفادات کے لئے بنایا گیا تھا۔ خیر جو لوگ بھی پی آئی اے کو چلانے کے لئے مقرر کئے گئے وہ یونین کے سامنے بےبس ہی رہے۔ پھر وہ سیاسی اشرافیہ جو آج کل قابلِ گرفت ہو رہی ہے اُس نے نواز شریف اور آصف علی زرداری کے مفادات سے پی آئی اے کو مکمل طور پر مقروض ادارہ بنا دیا۔ کچھ سال پہلے عارف علی عباسی کو پی آئی اے کا اعلیٰ ترین افسر بنایا گیا۔ عارف علی عباسی ایک زمانہ میں پی آئی اے کی ملازمت بھی کر رہے ہیں پھر کرکٹ کنٹرول بورڈ میں اُن کی کارکردگی سامنے تھی اور کرکٹ کی دنیا میں عارف علی عباسی نے نام بنایا اور ٹیم کی پہچان ہوئی۔ عارف علی عباسی نے پی آئی اے کو درست کرنے کے لئے جدید جہازوں کو پی آئی اے میں شامل کرنے کے لئے خریدنے کا آغاز کیا۔ وہ یونین کی سرگرمیوں سے بہت ہی تنگ رہے مگر ان کی کوششوں کی وجہ سے نئے جہاز اور نئے روٹ پی آئی اے کی ترقی میں اہم کردار ادا کرتےنظر آنے لگے لیکن سیاسی اشرافیہ اُن کے اقدامات کو نظر انداز کرنے لگی تو انہوں نے خاموشی سے فراغت حاصل کرلی اور پھر میاں نواز شریف اور ان کے والد کے پسندیدہ نوجوان شاہد خاقان عباسی کو پی آئی اے کا چیئرمین بنا دیا گیا۔ شاہد خاقان عباسی کے والد جنرل ضیاء کے قریبی ترین رفقا میں سے تھے۔ شاہد خاقان عباسی نے پی آئی اے پر غیرملکی مسلط کر دیے اور پی آئی اے کی منزل مشکل کر دی اور اپنی منزل آسان کرلی۔

ہماری سیاسی اشرافیہ ایسے ڈراموں کے ذریعے اپنا روزگار بہتر بناتی رہی ہے، پاکستان کی اس وقت کی سرکار کو پی آئی اے کے قرضوں کی فکر تھی اور ہے اور وہ چاہتے ہیں کہ اس ادارے کو دوبارہ مضبوط بنایا جائے۔ سابقہ لوگوں نے کامیاب روٹوں کو بند کردیا۔ امریکہ کے روٹ کو بند کرنا ایک سازش سی لگتی ہے۔ خیر اب کی بار دوبارہ سوچا گیا کہ پی آئی اے کو کون بہتر دیکھ سکتا ہے؟ اس زمانہ میں ایئر فورس کے چیف کی حیثیت میں دو افراد بہت اہم تھے اور برابر کی قابلیت رکھتے تھے، ایئر مارشل مجاہد چیف بن گئے پھر سرکار نے ایئر مارشل ارشد سے پوچھا کہ وہ ان کی پی آئی اے کو چلانے میں مدد کریں۔ اُنہوں نے ایئر فورس میں رہتے ہوئے حامی بھر لی۔ پھر یونین اور کچھ لوگ اعلیٰ عدالت میں چلے گئے اور ایئر مارشل کو کام سے روکنے کی کوشش کرنے لگے۔ مقدمہ بازی میں بہت وقت ضائع ہوا مگر ایئر مارشل کے خلاف کچھ بھی نہ ملا۔ اب ایئر مارشل ارشد ملک پی آئی اے کے سی ای او ہیں۔ وبا کے زمانہ میں بھی پی آئی اے پرواز کرتی رہی ہے اور بہت کچھ تبدیل ہوتا نظر آ رہا ہے، ان کی نیت نیک اور ان کا تجربہ کامیاب جا رہا ہے، ان شاء اللہ اس ادارے کا نظام اور قسمت بدلنے جا رہی ہے۔ شرط ہے ان کو آزمایا نہ جائے۔

تازہ ترین