• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

بھارت کی ریاست، مملکت ِحیدرآباد تار یخی ثروت و وسعت، تہذیبی رنگارنگی اور عظمت کے اعتبار سے جس قدر مالامال ہے، اس کا تذکرہ ایک سرسری جائزے کا متقاضی نہیں، اس حوالے سے ہر عہد میں اور خصوصاً گزشتہ کئی صدیوں سے دفتر کے دفتر مجلدات کی صُورت لکھے جاتے اور شایع ہوتے رہے ہیں۔ بھارتی ریاستوں میں مملکتِ حیدرآباد جیسی شاید ہی کوئی ریاست نہیں گزری، جس کے ہر حکمراں نے( خاص طور پر چھٹے اور ساتویں حکمراں، میر محبوب علی خاں اور میر عثمان علی خان) علم و ادب اور تحقیق و مطالعے کو اپنے اپنے ادوار میں بھرپور فروغ دیا۔ میر عثمان علی خان ،ذاتی ذوق و شوق کے سبب تحریر و تخلیق سے خاص شغف رکھتے تھے اوران کی تحریریں، شاعری ان کے اس میلانِ علم و ادب کا بیّن ثبوت ہیں۔

نیز، اُن کا ایک بہت منفرد و ممتازکارنامہ سرکاری سرپرستی میں جامعہ عثمانیہ جیسی عالمِ اسلام کی منفرد و وقیع جامعہ کا قیام بھی ہے۔پھر ان کی دارالترجمہ اور شعبۂ تصنیف و تالیف کی مثالی و یادگار خدمات اور وقیع کتب خانۂ آصفیہ اورسرکاری شعبۂ محفوظات ایسے کارنامے ہیں، جن کی نظیر دیگر ریاستوں میں اس وسعت اور افادیت کے ساتھ نہیں ملتی ۔یاد رہے، وزیر اعظم، سالارِ جنگ کے قائم کردہ عجائب گھر یا میوزیم کو اگر عالمی شہرت و قدرو منزلت حاصل ہوئی، تو اُن کے بنائے گئے کتب خانوں کی افادیت میں اضافے لیے بھی دنیا بھر سے نادر و قیمتی کتابیں اور مخطوطات جمع کرکےعوام النّاس کے عام استفادے کے لیےرکھ دیئے گئے۔ 

ان کتب ومخطوطات کی جدید اور عالمانہ طریقوں سے وضاحتی فہرستوں کی تالیف و اشاعت جیسا کام بھی ایک عالمانہ اور روشن خیال ذہن و ذوق ہی کی علامت تھا، جس کا خاطر خواہ اہتمام حیدرآباد اور اس میں قائم اداروں میں عام تھا۔علاوہ ازیں،اسی ضمن میں محکمۂ آثارِ قدیمہ اور تعمیرات کو بھی حیدرآباد میں خاص توجّہ اور سرکاری سرپرستی حاصل رہی، جس نے آگے چل کر ’’آندھرا پردیش اسٹیٹ آرکائیوزاینڈ ریسرچ انسٹی ٹیوٹ‘‘ کی حیثیت اور شہرت حاصل کی اور اپنے میدان میںبے حد وقیع خدمات انجام دیں۔اس محکمے کے کتب خانے میں نہ صرف قیمتی کتب کا ذخیرہ تھا، بلکہ اہم دستاویزات اور نوادرات محفوظ رکھنے کا بھی بڑا معقول انتظام بھی تھا۔ 

ان دستاویزات اور نوادرات کی فہرستیں بھی اس محکمے کی جانب سے مرتّب کرکے شایع کیے جانے کا اہتمام مستقلاً جاری رہا۔غلام یزدانی یہاں بے حد سرگرم اور مطالعہ و تحقیق میں حد درجہ سرگرم رہے کہ ان کی خدمات پورے بھارت میں قدر کی نگاہ سے دیکھی جاتی تھیں اور ان کے علم و عمل کی شہرت یورپ تک تھی۔ بعض نوابینِ مملکت، جیسے زین یار جنگ بھی، جو غلام یزدانی صاحب کی طرح یورپ سے اعلیٰ تعلیم حاصل کرکے آئے تھے ، اس محکمے کے ذمّے دار رہے۔ بہرحال، اس شان داردورِ ماضی کے بعدعہدِ جدید میں اس محکمے کے ذخائر اور نادرونایاب مواد کو مرتّب کرنے اوراسے بطور مآخذ استعمال کرنے میں جو کمال ڈاکٹر سیّد داؤد اشرف نے حاصل کیا، وہ بھی ایک مثال ہے۔

ڈاکٹر سیّد داؤد اشرف بہ اعتبارِ ملازمت و منصب اس محکمے سے دستاویز ات اور نوادرات کی دیکھ بھال اور حفاظت و فہرست سازی سے متعلق امور انجام دیتے رہے، لیکن اس ذمّے داری سے بڑھ کر انھوں نے اپنے بے پناہ علمی و ادبی ذوق کے تحت ایسے متعدّد کام کیے، جو تاریخی اعتبار سے اپنی نظیر آپ ہیں۔ مثال کے طور پر انھوں نے دستاویزات کی نگرانی اور دیکھ بھال سے بڑھ کر خود کو ایک مؤرخ و مصنّف کے طور پر مصروفِ عمل رکھا اور ساری زندگی محکمانہ دستاویزات و نوادرات کے ساتھ تصنیف و تالیف میں گزاردی۔ انہوں نے ایسے ایسے موضوعات پر مضامین و مقالات لکھے، جن کی طرف شاید ہی کسی اور کی توجّہ گئی ہو۔ 

اپنی اسی دل چسپی کے تحت انھوں نے خود کو بطور مؤرخ ایسے عنوانات اور موضوعات کا مواد تلاش کرنے میں مصروف رکھا کہ جس سے مملکتِ حیدرآباد کی علمی و ادبی اور تعلیمی سرپرستی کے حقائق منظرِ عام پر آئے۔ ان کی کتب میں شامل سلسلہ مضامین سے یہ حقائق سامنے آتے ہیں کہ مملکتِ حیدرآباد نے دنیا بھر میں پھیلے علمی و تعلیمی اداروں کو مستقلاً کس کس طرح اور کس قدر مالی امداد دی یا جاری کی۔ اس عمل میں مذہب و ملّت یا علاقوں کی کوئی قید نہ تھی، یہ امداد ایک طویل عرصے تک سب ہی ضرورت مندوں کے لیے پابندی سے جاری رہی۔ 

یہاں تک کہ بھارت بھر میں پھیلے ہوئے ہندو اداروں، مدرسوں اور مندروں کو بھی امداد دی جاتی رہی۔ ڈاکٹرداؤد اشرف نے ممکنہ حد تک دست یاب دستاویزات کی مدد سے ایسے تمام اداروں کو حیدرآباد کی جانب سے دی جانے والی امداد کی تفصیلات، مضامین کی شکل میں اپنی کتابوں میں پیش کی ہیں۔ جیسے بنارس ہندو یونی ورسٹی کو حیدرآباد سے مستقلاً امداد دی جاتی رہی، یہاں تک کہ مشہور ہندو عقائد پر مبنی تخلیق ’’مہا بھارت‘‘ کی اشاعت کے لیے بھی امداد دی گئی، جو یقیناً ایک مثال ہے۔علاوہ ازیں، داؤد اشرف کی تحقیقات کا ایک بے حد دل چسپ موضوع، وہ مُلکی و غیرمُلکی ادیب و شاعر بھی رہے ، جنھیں اُن کی علمی خدمات کے صلے میں امدادی رقوم دی جاتی یا ان کے شہروں اور گھروں تک بھیجی جاتی رہیں۔ 

متعدّد ایسے ادیب و شاعر بھی ہیں، جنھیں ماہانہ وظیفے بطور امداد دیے جاتے۔ اس حوالے سے ’’بیرونی اربابِ کمال اور حیدرآباد‘‘ اور ’’بیرونی مشاہیرِ ادب اور حیدرآباد‘‘ ان کی معروف تصانیف ہیں۔ تاہم، ’’حیدرآباد کی علمی فیض رسانی‘‘ ان کی ایسی تصنیف ہے، جس میں نہایت محقّقانہ انداز سے صرف افراد ہی نہیں، دنیا بھر کے علمی و تعلیمی اداروں کو ریاستِ حیدرآباد کی طرف سے دی جانے والی امداد پر معلومات یک جا کردی گئی ہیں، جنھیں دیکھ کر حیرت اور ساتھ ہی خوشی ہوتی ہے کہ ہالینڈ اور لندن یونی ورسٹی کے علاوہ فلسطین یونی ورسٹی کو بھی یہ امداد جاتی رہی ہے۔ تعلیمی اداروں کے ساتھ علمی اداروں کو بالخصوص جو مالی امداد دی جاتی تھی، اُس پر بھی متعدّد مضامین اور کتابیں داؤد اشرف نے تحریرکی ہیں، جن میں سے ایک ’’قدرداں حیدرآباد‘‘کو نمائندہ کتاب کی حیثیت حاصل ہے،تاہم ان کی دیگر کتب میں بھی اس حوالے سے کئی مضامین شامل ہیں۔

اس ضمن میں ان کی تصانیف یا مضامین کے مجموعے’’گنجینۂ دکن‘‘ یا ’’حاصلِ تحقیق‘‘ کا ذکر بھی بے محل نہ ہوگا۔ جب کہ مذکورہ تصانیف کے علاوہ داؤد اشرف کی ایک اہم تصنیف ’’کتابوں کے قدر شناس‘‘میر عثمان علی خاں کی علمی وادبی سرپرستی اور حوصلہ افزائی کی تفصیلات پر مشتمل ہے۔جس میں ان کی علمی سرپرستی کے حوالے سے جاری کی جانے والی دستاویزات و احکامات بھی شایع کیے گئے ہیں۔

اس میں ذکر ہے کہ انہوں نے اپنی علمی سرپرستی میںکن کن لوگوں اور اداروں کو کتابوں کی تصنیف و اشاعت کے لیے کیا کچھ عطا کیا۔ان کی دو آخری تصانیف ’’نقوشِ تاباں‘‘اور ’’حرفِ اعتبار‘‘ مختلف شخصیات سے لیے ہوئے انٹرویوز اور تحقیقی مقالات پر مشتمل ہیں۔ داؤد اشرف نے اردو کے علاوہ انگریزی میں بھی کئی کتابیں تصنیف کیں، جن میں: (1) The Seventh Nizam of Hyderabad, an Archival Appraisal; (2) Archival Glimpses of the Deccan; (3) The Administration of the Deccan During Aurangzeb's Reign. شامل ہیں۔ 

اس کے علاوہ انگریزی میںچار جِلدوں پر مشتمل تاریخی نوادرات پر مبنی ایک جامع اور وضاحتی فہرست مرتّب کی، جس میں عہدِ اورنگ زیب کی پندرہ ہزار دستاویزات کا اندراج ہے، جب کہ تاریخی نوادرات ہی پر مشتمل ان کے انگریزی مقالات کا ایک مجموعہ ’’ Archival Rare Papers of Historic Importance‘‘ ہے، تو آندھرا پردیش اسٹیٹ آرکائیوز اینڈ ریسرچ انسٹی ٹیوٹ میں محفوظ فارسی اور اردو دستاویزات کی انگریزی میں وضاحتی فہرست بھی ان ہی کا کارنامہ ہے۔

زندگی بھر علمی و ادبی، تاریخی وتحقیقی امور سر انجام دینے والے یہ محقّق، ڈاکٹر سیّد داؤد اشرف 18اپریل 2021ء کو 85برس کی عُمر میں داعئ اجل کو لبیک کہہ گئے۔ اس دوران انہوں نے جتنے بھی کام کیے، وہ سب اس اعتبار سے منفرد اور افادیت سے بھرپور ہیں کہ ایک منصب پر فائز رہ کر بھی وہ تحقیق کی میدان میں اپنا فرض نہایت دیانت داری، لگن اور خلوص سے انجام دیتے رہے۔ ان ہی کے تحقیقی کام اور کوششوں سے علمی و تعلیمی اداروں سے منسلک افراد، اہلِ قلم ادیبوں، شاعروں اور دانش وَروں کے بارے میں ایسی معلومات یک جا ہوئیں، جو اگرسامنے نہ آتیں، تو یقیناً ایک خلا باقی رہ جاتا۔ اس لحاظ سے داؤد اشرف کا نام رہتی دنیا تک زندہ رہے گا۔

تازہ ترین