ٹی ایس ایلیٹ نے اپنی مشہور زمانہ نظم ’’کھوکھلا آدمی‘‘ میں کہا تھا۔’’وہ لاشیں جو پچھلیبرس تمہارے باغیچے میں دفنائی گئی تھیں۔کیا اس سال ان کے شگوفے نکل آئے ہیں‘‘۔مرگ ِ ناگہانی یہ سوال لوگوں کے ایک انبوہ سے کرتی ہے جو سرد رات میں ایک جگہ پر ٹھہرے ہوئے ہیں اور آگے بڑھنا چاہتے ہیں۔یہ نظم 1925ء میں شائع ہوئی تھی۔جس میں مغربی تہذیب کی تباہ کاریوں کا ماتم کیا گیا تھا۔
تہذیب و تمدن کیسے بنتے ہیں اور کیسے اجڑتے ہیں۔بنتے بگڑتے ہوئے یہ دائرے تاریخی وجدان رکھنے والے کسی تخلیق کار کی گرفت میں آجائیں تو ڈھائی ہزار سال پر محیط ’’آگ کا دریا ‘‘ پار کرنے میں اتنی دیر ہی لگتی ہے ،جتنی دیر میں بادل دریا پر جھکتے ہیں۔گھاس کی بھینی خوشبو، پتھروں کی خنکی پائوں کے تلووں کو آسودہ کرتی ہے۔برفانی پہاڑ اور جنگل مسکراتے ہیں۔طرح طرح کے پودے اور پھولوں سے لدی ٹہنیاں راستے میں جھکنے لگتی ہیں۔پرندے سیٹیاں بجاتے ہیں۔ساون کی بوندیں کنول کے پتوں پر جل ترنگ بجاتی ہیں ۔سریلے آبشار گیت گاتے ہیں ۔مور جھنکارنے لگتے ہیںاور صدیوں کا سفر کرنے والا سُر کی لہروں میں بہتا ہوا ’’انالحق‘‘ کی اونچی پہاڑی پر چڑھ کر بادلوں میں چھپ جاتا ہے۔جہاں چاروں اور خلاء ہے اور اس میں ہمیشہ کی طرح وہ تنہا موجود ہے۔ دنیا کا ازلی اور ابدی انسان تھکا ہوا۔شکست خوردہ ، بشاش ، پرامید انسان ۔جوخدا میں ہے اور خود خدا ہے۔
عینی آپا کو ہم سے بچھڑے سال ہوئےلیکن چھوٹی سی بیر بہوٹی سے شروع ہونے والا ، گوتم کا سفر ختم نہیں ہوا۔ اورچمپا سے کمال الدین تک ان کے سارے کردار آج بھی ہمارے اردگرد دائرے سے بناتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ہم آج بھی یہی سوچ رہے ہیں کہ ’’ابوالمنصور کمال الدین‘‘ کس طرح ہندوستان میں داخل ہوا اور کس طرح ہندوستان سے نکل گیا۔ایک مکمل تنہائی ہے ۔ہم بالکل خالی الذہن ہونا چاہتے ہیں۔خیال آتا ہے، کاش نروان ممکن ہوتا ،خوف ، تنہائی کا احساس، رنج، نفرت، فرار کی خواہش، وسعت اور اضافیت کا تصور۔نروان جو زندگی سے، موت سے ، سونے جاگنے سے ، محبت ، رحم اور لاتعلقی سے ماورا ہے اور پھر بھی حقیقی ہے۔کیا یہ غیرملکی مفکرین سمجھ سکتے ہیںکہ ہماری روح کے دکھ کیا ہیں؟
ہم اپنے خوابوں کی سرزمیں پر ، لہو کی بارش میں بھیگتے ہیں۔۔۔بہارہوتے ہوئے بھی پت جھڑ کے خشک سایوں میں بیٹھتے ہیں۔
عینی آپا نے تاریخ میں گونجتی آوازوں کو تصویر کیا اور نگار خانوں میں سجی تصویروں کو صدائوں میں تبدیل کیا۔آگ کا دریا پار کرنے والی آخرِ شب کی ہمسفرکا سفینہ ء غم ِدل ،روشنی کی رفتار سے گردشِ رنگ ِ چمن کے ساتھ چائے کے باغ کا طواف کرتا ہے۔جہاں پتھر کی آواز میں میرے بھی صنم خانے کی صدا صاف سنائی دیتی ہے۔چاندنی بیگم کو احساس ہے کہ کارجہاں دراز ہے ۔اسی لیے تو وہ دہائی دیتی ہے کہ اگلے جنم موہے بٹیا نہ کیجو۔’’آخرِشب کے ہمسفر ‘‘میں وہ بنگال میں قومیت پرستی کے پروان چڑھنے اور آخرِ کار ایک الگ وطن کے طور پر اپنی شناخت حاصل کرنے کے تاریخی مراحل کو بیان کرتی ہے۔’’میرے بھی صنم خانے ‘‘ اودھ میں جاگیردارانہ نظام کے نئے خدوخال سامنے لاتا ہے۔گردش ِ رنگ ِ چمن پہلی جنگ عظیم کے بعد شروع ہونے والی کہانی ہے ۔جس میں عورت بنیادی کردار کے طور پر برطانوی راج کے ساتھ ساز باز کرتے ہوئے زمینداروں کے درمیان اپنی پوری روح کے ساتھ موجود ہے۔سفینہ ء غم ِ دل تحریک آزادی کی داستانِ الم ہے۔جسے عینی آپا نے اپنے بنیادی حوالے ’’عورت‘‘ کے لافانی کرداروں کے ذریعے اس انداز میں بیان کیا ہے کہ یہ داستان پڑھنے والوں کو آپ بیتی لگتی ہے۔
عینی آپا کا اپنا فلسفہ ء فکر تھا۔ وہ تاریخ کی ایسی شاعرہ تھی۔جس کے نزدیک واقعات کوئی اہمیت نہیں رکھتے۔حقیقت روایت ہے۔وقت کا فاصلہ کوئی معنی نہیں رکھتا۔لمحہ لافانی ہے۔انسان گم نام ہے۔اس کی تخلیقات ، فن پاروں ، تصنیفات کی بھی ابدیت کے اس سمندر میں کوئی علیحٰدہ حیثیت نہیں۔سائے قائم رہتے ہیں۔انسان ختم ہو جاتا ہے۔سائے میں بڑی طاقت ہے ۔عمر بھر ہم مختلف سایوں کا تعاقب کرتے ہیں مگر سایہ ہاتھ نہیں آتا۔اس کا جنم جنم کا ہیرو کمال الدین بھی ایک سایہ ہی تو ہے تو جو کسی بھی عہد میں چمپا کے ہاتھ نہیں آتا۔ کہیں یہ چمپا بھی عینی آپا تو نہیں تھی جو کمال کی تلاش میں پاکستان آتی ہے لیکن سائے کواپنے ساتھ نہ پا کر واپس ہندوستان چلی جاتی ہے؟۔یہ ایک ایسا سوال ہے جوتاریخ میں دفن لاشوں کے شگوفے پھوٹنے تک تشنہء جواب ہی رہے گا۔