• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اُداس نسلوں کی کہانیاں سنانے والے عبداللہ حسین

اُداس نسلوں کی کہانیاں سنانے والے عبداللہ حسین اپنے ہی تخلیق کردہ کسی کردار کی طرح آئے اور چلے گئے۔چھ سال قبل جب ان کا انتقال ہوا تو اُن کی وفات پر لکھے جانے والے مضامین کو دیکھیے تو لگتا ہے انتظارحسین سے ظفراقبال تک اور عطاء الحق قاسمی سے زاہدہ حنا تک کسی کے پاس بھی نگری نگری پھرنے والے اس ادبی بنجارے کا مکمل خاکہ موجود نہیں۔اُداس نسلیں ہیں ، نادار لوگ ہیں ، ایک مسلسل قیدہے اور اپنے شکارکی تاک میں بیٹھے باگھ ہیںلیکن "کی جاناں میں کون" کے مصداق عبداللہ حسین کا مکمل سراپا کہیں نہیں۔

عبداللہ حسین لندن میں ٹی ایس ایلیٹ، پیرس میں سارترے، مانٹریال میں ہیمنگوئے سے ملے اور کینز میں پکاسو کا پیچھا کیا لیکن ان کے ناول "اُداس نسلیں" کو سراہنے والے ہمارے ادیب اور نقادخود عبداللہ حسین سے ملنے میں ناکام رہے۔کسی کے پاس بھی ایک آدھ ملاقات،ایک آدھ تاثر، دوچار جملوں اور ایک آدھ سیلفی کے سوا کچھ بھی نہیں۔

صاحبِ فراش ہونے سے پہلے عبداللہ حسین کراچی تشریف لائے توان کا کہنا تھا کہ جب سے ’اداس نسلیں‘ لکھی گئی اس وقت سے اس کتاب کی خوش قسمتی اور ہماری بدقسمتی ہے کہ ہر نسل اداس سے اداس تر ہوتی جا رہی ہے۔ انھوں نے اپنے پہلے ناول ’اداس نسلیں‘ کو ایک حادثے کا نتیجہ قرار دیا۔اُن کا کہنا تھاکہ میانوالی کے پاس ایک جگہ تھی دادؤ خیل، جہاں وہ ایک سیمنٹ فیکٹری میں بطور کیمسٹ کام کرتے تھے۔ وہ وہاں آٹھ گھنٹے کام کرتے تھے اور آٹھ گھنٹے سوتے تھے، باقی کے آٹھ گھنٹوں میں وہاں کچھ کرنے کو نہیں تھا، اس کے برعکس اگر وہ کراچی یا لاہور میں ہوتے تو وہاں وقت گزارنے کے کئی مقامات تھے اور کبھی لکھنے کا خیال نہ آتا۔ اتفاق سے وہ ایک ایسی جگہ تھےجہاں فالتو وقت تھا۔

ایک دن انہوں نے لکھنا شروع کر دیا، اس وقت ان کے ذہن میں ایک لو سٹوری تھی، جس میں ایک نواب کی بیٹی ہوتی ہے، جسے کسان کے بیٹے سے محبت ہو جاتی ہے۔ وہ پورے خاندان کے ساتھ جنگ کرتی ہے، ان دنوں ایسا نہیں ہوتا تھا کہ ایک کسان کے بیٹے سے نواب کی بیٹی کی شادی ہو جائے۔ ایک طویل جنگ کے بعد شادی ہوجاتی ہے ۔ان کے خیال میں اس سے بڑی محبت کی کہانی نہیں ہو سکتی۔

عبداللہ حسین کے مطابق وہ آگے لکھتے گئے اور اس کی شکل کچھ اور بنتی گئی، ایک مقام پر وہ آ کر رک گئے اور سوچا کہ یہ بلا تو ان کے گلے پڑ گئی ہے، وہ تو ایک چھوٹی کہانی لکھنے والے تھے۔ وہ سوچتے رہے بالآخر اس نتیجے پر پہنچے کہ اب اس کو انجام تک پہنچانا ان کا فرض ہے۔

جیسے کہانی آگے بڑھتی گئی اس میں تاریخ آ گئی اور انہیں برصغیر سے انگریزوں سے چھٹکارے کی تاریخ میں جانا پڑا اور کہانی میں جب پہلی جنگ عظیم کا قصہ آ گیا تو عبداللہ حسین کو بھارت کا سفر بھی کرنا پڑا۔

عبداللہ حسین اداس نسلیں شائع ہونے کے تین سال بعد برطانیہ چلے گئے تھے جہاں انھوں نے کوئلے سے گیس بنانے والی کمپنی میں ملازمت اختیار کی، جب قدرتی گیس آگئی تو یہ کام بند ہوگیا اور کمپنی نے انھیں ریٹائر کر دیا اور انھوں نے اس رقم سے لندن میں شراب خانہ کھول لیا۔

عبداللہ حسین کا کہنا تھا کہ انہوں نے کہیں پڑھا تھا کہ لکھاری کا پتہ اس کے دوسرے ناول سے چلتا ہے، کیونکہ ہر آدمی کے اندر ایک ناول ہوتا ہے اب وہ اسے لکھے یا نہ لکھے۔ پہلے ناول سے تو وہ ادیب نہیں بنتا۔یہی وجہ ہے کہ وہ اپنے پہلے ناول"اُداس نسلیں" سے زیادہ اپنے دوسرے ناول"باگھ" کو زیادہ اہم سمجھتے تھے۔لیکن ان کے قاری اور نقاد "اُداس نسلیں" کے حصار سے باہر آنے کو تیار نہیں ہوئے۔

عبداللہ حسین کو اپنے ناقدین سے شکایت بھی یہی تھی کہ انہوں نے "اُداس نسلیں" کو سراہا تو ہے لیکن کسی ایک نے بھی اس ناول کے محاسن پرمفصل تحریر نہیں لکھی۔اس کا اندازہ عبداللہ حسین کے دُنیائے فانی سے چلے جانے کے بعد بھی بخوبی لگایا جا سکتا ہے کہ کسی بھی ادیب کی تحریر میں اُردو کے اس عظیم ناول نگار کی تنہائیوں میں بسی محفلوں کی رُوداد نہیں ملتی۔بقول شکیب جلالی

اِدھر سے گزرا تھا ملکِ سخن کا شہزادہ

کوئی نہ جان سکا، ساز و رخت ایسا تھا

تازہ ترین