اسلام آباد (اے پی پی)وزیر خارجہ مخدوم شاہ محمود قریشی نے کہا ہے کہ افغانستان سے متعلق سلامتی کونسل اجلاس میں شرکت کیلئے پاکستان کی درخواست کو تسلیم نہیں کیا گیا،بھارت کوسلامتی کونسل کے صدر کی حیثیت سے ایسارویہ زیب نہیں دیتا۔افغانستان میں امن کیلئے عالمی برادری کو کردار اداکرنا ہوگا،پاکستان افغانستان میں کسی فوجی قبضے کے حق میں نہیں، افغانستان میں ہمارا کردار معاونت کا ہے ،ضامن کا نہیں۔ افغانستان میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر تشویش ہے،پاکستان پر افغان مذاکرات کی ناکامیوں کا ملبہ ڈالنے کی کوششیں جاری ہیں سی پیک منصوبے پرکام جاری رہےگا۔ پیر کو وزارت خارجہ میں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے وزیر خارجہ نے کہا کہ چھ اگست کو افغانستان کی صورتحال پر سیکورٹی کونسل کی خصوصی بریفنگ ہوئی جبکہ (آج) پیر کو وزیر اعظم عمران خان نے افغانستان کی صورتحال کے حوالے سے اہم اجلاس کی صدارت کی۔انہوں نے کہا کہ ہمارے خیال میں ہمیں سلامتی کونسل کے اس اجلاس میں بلایا جانا چاہیے تھا،ہم نے اس حوالے سے باقاعدہ درخواست بھی دی لیکن اسے تسلیم نہیں کیا گیا۔رواںماہ جب سیکورٹی کونسل کی صدارت ہندوستان کو ایک ماہ کے لیے سونپی گئی تو ہم نے واضح کیا تھا کہ ہندوستان ذمہ دارانہ رویہ اپنائے،مگر سیکورٹی کونسل کی مستقل ممبرشپ کے خواہاں بھارت نے ذمہ داری کا مظاہرہ نہیں کیا۔بھارت کو سلامتی کونسل کے صدر کی حیثیت سے ایسا رویہ زیب نہیں دیتا۔وزیر خارجہ نے کہا کہ ہمارا کردار افغانستان میں معاونت کا ہے ،ہم افغانستان میں امن کے ضامن نہیں ہیں۔ہم پہلے سے کہتے آرہے ہیں کہ افغان تنازعہ کا کوئی فوجی حل نہیں،یہ تنازعہ صرف سیاسی مذاکرات سے ہی حل کیا جاسکتا ہے۔پاکستان سمجھتاہے مسئلے کاحل افغان فریقوں پر مشتمل مذاکرات میں ہے۔پاکستان نے طالبان کو مذاکراتی ٹیبل پر لانے میں اہم کردار ادا کیا لیکن بدقسمتی سے دوسروں کی ناکامی کاملبہ پاکستان پر ڈالا جارہاہے ،افسوس ہے کہ پاکستان کوقربانی کابکرابنانے کی کو شش کی جارہی ہے۔شاہ محمود قریشی نے کہا کہ ہم بارہا کہہ چکے ہیں کہ افغانستان میں ہماراکوئی پسندیدہ فریق نہیں۔وزیرخارجہ نے کہا کہ افغان حکومت عالمی برادری کو گمراہ کرنے کیلئے بے بنیاد الزامات عائد کر رہی ہے جسے ہم مسترد کرتے ہیں۔ پاکستان سمجھتا ہے الزام تراشی کے بجائے پائیدار امن کیلئے آگے بڑھنا چاہیئے۔افغانستان کے مستقبل کا فیصلہ افغانوں نے کرنا ہے۔شاہ محمودقریشی نے کہا کہ افغانستان میں عدم استحکام سے پاکستان کو بھی نقصان ہوگا۔ہم افغان تنازعہ کی جانی ومالی قیمت ادا کرچکے ہیں ،امن کی خاطر پاکستان نے ہزاروں جانیں قربان کیں۔وزیرخارجہ نے کہا کہ پاکستان کوافغانستان میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر تشویش ہے۔شاہ محمودقریشی نے کہ افغان فورسز کی ناکامیوں کیلئے پاکستان کو ذمہ دار نہیں ٹھہرایا جا سکتا۔انہوں نے کہا کہ افغانستان میں امن کیلئے عالمی برادری کو کردار اداکرنا پڑےگا۔شاہ محمودقریشی نے کہا کہ سپائلرز افغانستان میں بھی ہیں اور باہر بھی موجود ہیں، بعض عناصر امن و استحکام نہیں چاہتے اور پاکستان کو سینڈوچ کی پوزیشن پر رکھنا چاہتے ہیں۔انہوں نے کہا کہ ہم جو کچھ بھی کر رہے ہیں افغان عوام کیلئے کر رہے ہیں۔افغان عوام بھی امن و استحکام چاہتے ہیں اور علاقائی و بین الاقوامی سٹیک ہولڈرز کی جانب دیکھ رہے ہیں۔ داسو حملے کے حوالے سے ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے وزیر خارجہ نے کہا کہ داسوحملے کی تحقیقات سے چینی حکام کوآگاہ کردیاگیاہے،تحقیقات کے نتائج جلد میڈیا کے سامنے رکھیں گے۔شاہ محمود قریشی نے کہا کہ پاکستان نے افغان سرحد پر98 فیصد فینسنگ کاعمل مکمل کرلیاہے، فینسنگ کا مقصد غیر قانونی طور پرآنے والے افراد کوروکناہے۔وزیر خارجہ نے ایک بار پھر واضح کیا کہ پاکستان اپنی سرزمین افغانستان سمیت کسی کیخلاف استعمال کرنے کی اجازت نہیں دیگا ۔ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے وزیر خارجہ نے کہا کہ اگر افغان مذاکرات کامیاب ہوئے توسہراافغان قیادت کے سرہوگا اور مذاکرات ناکام ہوگئے توناکامی کی ذمہ داربھی افغان قیادت ہوگی،پاکستان کی جانب سے کوئی ابہام نہیں، پاکستان اپناکرداراداکرتارہےگا۔سی پیک کے حوالے سے وزیر خارجہ نے کہا کہ پاکستان کی ترجیحات واضح ہیں،سی پیک پرقومی اتفاق موجودہے،سی پیک پروجیکٹس کونشانہ بنانےکی گاہے بگاہے کوشش ہوتی رہی ہےلیکن سی پیک سے متعلق ہماراعزم مضبوط ہے،جس پرپوری قوم متفق ہے،سی پیک منصوبہ دنیاکی آنکھوں میں کھٹکتاہے،وزیرخارجہ نے واضح کیا کہ سی پیک منصوبہ پاکستان کے مفاد میں ہے،سیرینا،داسو،جوہرٹائون اورکوئٹہ حملے سازشوں کاشاخسانہ ہیں۔سی پیک منصوبے پرکام جاری رہےگا۔وزیرخارجہ شاہ محمودقریشی نے ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ پاکستان نے 2026میں سلامتی کونسل کی صدارت کیلئے کوششیں شروع کر دی ہیں۔افغان مہاجرین کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ پاکستان، عالمی برادری کو واضح کر چکا ہے کہ پاکستان تیس لاکھ سے زیادہ افغان مہاجرین کی گذشتہ کئی دہائیوں سے میزبانی کر رہا ہے،ہم اپنے محدود وسائل کے اندر ان کی میزبانی کر رہے ہیں۔ہم مزید مہاجرین کے متحمل نہیں ہو سکتے۔ہم عالمی برادری سے کہہ رہے ہیں کہ وہ افغانستان کی تعمیر نو اور خطے میں امن و استحکام کیلئے تعاون کریں۔ دریں اثناء ایک انٹرویو میں شاہ محمود قریشی نے کہا کہ افغانستان میں جو کچھ ہو رہا ہے اس میں سب کی ذمہ داری ہے، افغانستان میں دنیا خود پہرہ دیتی رہی ہے ، اربوں ڈالر خر چ کیے گئے ہیں ۔وزیر خا رجہ نے سوال اٹھا یا کہ جب گفتگو اور مصالحت کی بات ہو تی ہے تو کیا یہ ذمہ داری تنہا پاکستان کی ہے یا سب ملکوں کی ذمہ داری ہے؟اپنے خطے کے مفاد ، امن اور استحکام کیلئے پاکستان اپنا جو کردار ادا کر سکتا ہے وہ کر رہا ہے اور کرتا رہے گا۔