• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

جب سے پاکستان میں ترک ڈرامہ سیریل’’ ارتغرل غازی‘‘ نے پسندیدگی کے تمام ریکارڈ توڑے ہیں اس وقت سے پاکستانی سیاح بڑی تعداد میں ترکی کا رُخ کررہے ہیں اور پھر سیاحت کے ویزے پر پاکستانیوں نے ٹی آر سی یعنی عبوری ریزیڈنشل پرمٹ حاصل کرتے ہوئے روزگار حاصل کرنے کا سلسلہ بھی شروع کردیا تاہم ان تمام باشندوں کو ہر سال ریزیڈنشل پرمٹ کی تجدید کروانےکا پابند بنادیا گیا ہے۔علاوہ ازیں ترکی میں اڑھائی لاکھ ڈالر کی سرمایہ کاری کرنے پر بھی چند سو پاکستانیوں نے ترک شہریت حاصل کررکھی ہے۔ پاکستانی سیاحوں کے علاوہ حالیہ چند برس میں پاکستانی اسٹوڈنٹس نے بھی بڑی تعداد میں ترکی کی مختلف یونیورسٹیوں میں اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے لئے یہاں کا رخ کیا ہے ۔

لیکن ان تمام پاکستانیوں کوکورونا وبا کی وجہ سے شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑرہاہے۔ پاکستان کورونا وائرس سے سب سے کم متاثر ہونے والے ممالک میں تیسرے نمبر پرہے جبکہ پہلے نمبر پر نیوزی لینڈ اور دوسرے نمبر پر سنگاپور ہے لیکن اس کے باوجود پاکستانیوں کے لئے کئی ممالک نے سیاحت کے دروازے بند کردیے اور قرنطینہ کی پابندیاں عائد کردیں۔ برطانیہ اور دیگر یورپی ممالک نے پاکستان سے آنے والے تمام باشندوں کے لئے اپنے ملک میں داخل ہونے سے قبل چودہ دنوں کے لئے اپنے اخراجات پر مختلف ہوٹلز میں قرنطینہ کرنے کی اجازت دے دی ۔ ان پابندیوں پر پاکستانیوں نے اپنی بلا کی ذہانت استعمال کرتے ہوئے برطانیہ یا یورپی ممالک براہ راست جانے کی بجائے ترکی میں چند دن قیام کرنے کے بعد ان ممالک کا رخ اختیار کیا ۔ پاکستانیوں کا یہ فارمولہ ہاتھوں ہاتھ بکا اور بڑی تعداد میں پاکستانی چند روز ترکی قیام کرنے کے بعد برطانیہ اور یورپی ممالک کا رخ کرنے لگے۔پاکستانیوں کے اس فارمولےپر برطانیہ نے ترکی کو ریڈ لسٹ میں ڈال دیا جس کے نتیجے میں ترکی کے سیاحتی شعبے کو شدید دھچکا لگا ، جس پر ترک حکام نے پاکستانیوں کو اس فارمولے سے باز رکھنے کے لئے پاکستانی حکام سے رابطہ کیااور اب مختلف طریقہ کار اپنانے شروع کردیےہیں۔

اس بات سے تمام پاکستانی اچھی طرح باخبر ہیں کہ پاکستانیوں کو ترکی میں جو عزت و اعلیٰ مقام حاصل ہے وہ شاید دنیا میں کسی اور ملک میں حاصل نہ ہو لیکن بھارتی لابی نے ترکی کے شعبہ سیاحت کو پہنچنے والے تمام تر نقصانات کا ذمہ دار پاکستان کو ٹھہرانے کی مہم کا آغاز کردیا ۔ اس مہم کے نتیجے میں ترک حکام نے اگرچہ پاکستان اور ترکی کے درمیان فلائٹس کو تو کینسل نہ کیا البتہ پاکستان سے ترکی آنے والے تمام سیاحوں کو پہلے چودہ روز اور بعد میں دس سے سات روز کے لئے قرنطینہ میں رہنے کی پابندی عائد کردی۔ ابتدا میں تو حکومتِ ترکی کی جانب سے تمام پاکستانی باشندوں کو قرنطینہ میں قیام کی بلا معاوضہ سہولت فراہم کی جاتی رہی لیکن عید کی چھٹیاں گزارنے کے بعد ترکی واپس آنے والے تمام پاکستانی باشندوں جن میں اسٹوڈنٹس بھی شامل تھے کو سات سے دس روز قرنطینہ میں قیام کے دوران ہوسٹل کی بجائے حکومت کے قائم کردہ ہوٹلوں میں ایک رات کے دو سو یورو فی کس ادا کرنے کا پابند بنادیا گیا۔ طلبا کے لئے یہ صورتِ حال کسی بھی صورتِ قابلِ قبول نہیں تھی اس لئے واٹس اپ گروپ پر اس سلسلے میں شدید ردِ عمل کا اظہار کیا جانے لگا۔ طلبا نے بڑی تعداد میں پاکستانی سفارت خانے پاکستان سے رجوع کیا اور ترکی میں تعینات پاکستانی سے اس مسئلے کو حل کروانے کی درخواست کی۔ اسی دوران بڑی تعداد میں پاکستانی طلبا نے راقم کو بھی فون کرتے ہوئے ان کی شکایت ترک حکامِ بالاتک پہنچانے کی درخواست کی۔

ترکی میں پاکستان کے سفیر محمد سائرس سجاد قاضی نے قرنطینہ کے دوران ایک رات کے لئے دو سو یورو فی کس ادائیگی کی پابندی کو ختم کروانے کے لئے انتھک کو شش کی ۔ترکی کی وزارتِ داخلہ، وزارتِ صحت اور دیگر وزارتوں کے اعلیٰ حکام سےمسلسل رابطہ قائم کیے رکھا اور ون آن ون ملاقات کرتے ہوئے اس مسئلے کو حل کروانے میں بڑا نمایا ں کردار ادا کیا۔ اس مسئلے کو حل کروانے میں مددگار ہونے والی ایک پاکستان دوست ترک شخصیت کا ذکر نہ کیا جائے تو یہ ان کے ساتھ بڑی زیادتی ہوگی۔ پاکستان ترک کلچرل ایسوسی ایشن کے صدر اور برسراقتدار جسٹس اینڈ ڈویلپمنٹ پارٹی کے سینٹرل ڈیسیشن بورڈ کے رکن برہان قایا ترک کوراقم نے پاکستانی طلبا کی مشکلات سے جب آگاہ کیا تو انہوں نے فوری طور پر وزیر صحت سے اس بارے میں بات چیت کرنے کی یقین دہانی کروائی ۔ راقم نے برہان قایا ترک اور وزیر صحت کے نام ترکی زبان میں اپنے پیغام میں پاکستانی طلبا کے لئے دو سو یورو فی کس روزانہ کی ادائیگی کے ناممکن ہونے اور مالی لحاظ سے اس کی سکت نہ رکھنے اور یہ پابندی نہ ہٹائے جانے کی صورت میں اس کے دونوں ممالک کے تعلقات پر منفی اثرات پڑنے سے بھی آگاہ کیا۔ راقم کے اس پیغام کے بعد وزیر صحت کی جانب سےبرہان قایا ترک کو وزیر صحت کی جانب سے فوری طور پر اس مسئلے کو حل کرنے کے احکامات دیے جانے کا پیغام دیا گیا اور اگلے ہی روز سرکاری نوٹیفکیشن جاری کرتے ہوئے اس مسئلے کو حل کرلیا گیا۔

کالم کے آخر میں ترکی کی سیر کو آنے والے پاکستانی بھائیوں سے درخواست ہے کہ جب تک حکومتِ ترکی کی جانب سے عائد قرنطینہ کی پابندی ختم نہیں کردی جاتی اس وقت تک ترکی کی سیاحت سے گریز کریں البتہ اگر آپ سات سے دس دن کے قرنطینہ اخراجات ادا کرنے کے لئے تیار ہیں تو پھر ترکی کے دروازے پہلے کی طرح آپ کے لئے کھلے ہیں۔

تازہ ترین