• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

کچھ بات محرم الحرام کے سلسلہ میں غمِ حسین رضی ﷲ تعالیٰ عنہ پر بھی ہو جائے۔ صوفی برکت علی فرماتے ہیں کہ یہ غم شہادت کا نہیں، پامالیٔ حرمت کا ہے، موت کا نہیں، تقدس کی تضحیک کا ہے، جب یاد آتی ہے رو لیتے ہیں، یہ رونا میرا رونا نہیں، ہر صاحبِ دل کا رونا ہے، جنگل کے ہر شجر و حجر کا رونا ہے، جو کبھی نہیں رُکتا، دل جب گرد آلود ہونے لگتا ہے تو امام حسینؓ کے فراق میں بہے آنسوؤں سے دھو کر صاف کر لیتے ہیں، طریقت میں اِسے غسلِ عصیاں کہتے ہیں اور غسلِ عصیاں میں شفا ہوتی ہے۔ محمد علی جوہرؔ نے کہا تھا:

قتلِ حسینؓ اصل میں مرگ یزید ہے

اسلام زندہ ہوتا ہے ہر کربلا کے بعد

روح کو تازگی پہنچانے اور آنکھوں سے دریا بہانے والے کشف اور روحانی دنیا کے بےتاج بادشاہ جناب سید سرفراز احمد شاہ صاحب کی خدمت میں حاضر ہوا، شاہ صاحب سے حالات کے بارے میں تبادلہ خیال ہوا، ہماری الامین اکیڈمی سی ایس ایس، پی ایم ایس اور مقابلے کے دیگر امتحانات کی تیاری کرنے والے ادارے میں انہوں نے وعدہ کیا کہ ہر تین ماہ بعد عوام کو لیکچر دینے اور اکیڈمی کے ضرورت مند مگر ذہین و فطین طلبا و طالبات کو پیار اور خلوص سے نوازنے کے لئے تشریف لایا کریں گے۔ میں یہ سمجھتا ہوں کہ یہ ان کی بےلوث محبت اور لاجواب خلوص کی بڑی باکمال دلیل ہے۔ شاہ صاحب فرماتے ہیں کہ ذوالفقار علی بھٹو شہید ہوئے، بےنظیر بھٹو شہید ہوئیں لیکن پیپلزپارٹی کی قیادت اور اس کے کارکن انتہائی محبِ وطن لوگ ہیں۔ سیاسی حالات پر کھل کر بات کرتے ہیں لیکن ملک کی اساس نظریۂ پاکستان، دو قومی نظریے اور ملک کے تحفظ کی ضامن افواجِ پاکستان کے بارے میں کوئی منفی بات نہیں کرتے۔ شاہ صاحب کی نئی کتاب مجھے ملی۔ اُس کتاب پر آنے والے دنوں میں تفصیلی کالم لکھنے کی سعادت حاصل ہوگی اور وہ کالم خلوص اور چاہت کے دریائوں کے پانی میں ڈوب کر نہیں بلکہ سمندر کی گیرائی اور گہرائی کی لہروں میں ڈوب کر لکھنے کی کوشش کروں گا۔ آصف علی زرداری کی اِسی حکمت آمیز جرأت و بہادری کے بارے مجھے سید سرفراز شاہ نے بتایا اور سمجھایا کہ وہ اپنوں کے اپنے ہیں، بیگانوں کو اپنا بنانے کا ہنر اور گر خوب جانتے ہیں۔ مشکل حالات سے نکلنا اور سیاسی فائدے دینا اور پھر لینا بھی جانتے ہیں لیکن میرے خیال میں آصف علی زرداری کو چاہئے کہ وہ زیادہ سے زیادہ وقت لاہور میں گزرا کریں کیونکہ جتنا زیادہ وقت وہ لاہور میں گزریں گے اتنی ہی زیادہ پیپلز پارٹی کی جڑیں پنجاب میں مضبوط ہوں گی۔ پچھلے دنوں آصف علی زرداری نے چند ہی روز لاہور میں گزارے تھے تو تحریک انصاف کے ایک ٹکٹ ہولڈر کے بارے میں یہ خبریں سامنے آنا شروع ہو گئی تھیں کہ وہ پیپلز پارٹی میں شامل ہو گئے ہیں یوں اگر آصف علی زرداری لاہور میں زیادہ وقت دیں گے، زیادہ الیکٹ ایبل جماعت میں شامل ہوں گے اور پنجاب میں اُن کا ووٹ بینک بڑھے گا۔ جناب آصف علی زرداری یاروں کے یار ہیں، دوستی اور تعلق نبھانے والے بلکہ تعلق نبھانا کوئی ان سے سیکھے، ان سے کوئی جتنا مرضی ناراض ہو، ان کے بارے جو بھی سوچ رکھتا ہو لیکن وہ اُن کی سیاسی بصیرت و حکمت عملی کا قائل ضرور ہے کیونکہ حکمت و دانائی کی بدولت ہی انہوں نے پی ڈی ایم کے غبارے سے ہوا نکال دی تھی، ان کا یہ کہنا بھی درست ہے کہ اگر جیلوں میں جانا ہے تو پھر سارے چلتے ہیں۔

پیپلزپارٹی کے نامعلوم رابطہ کار کے بارے میں لکھے گئے گزشتہ کالم پر ویسے تو ہر طرف سے کالز اور ایس ایم ایس کی بھرمار رہی لیکن یہ کالم حقیقت میں کسی ایک فرد کے بارے میں نہیں تھا بلکہ مجھے تو اُس کردار کی خود تلاش تھی کہ وہ کردار کون ہو سکتا ہے؟ پی پی پی کے ایک مہربان نے مجھے بتایا اور جب میں نے تسلیم نہ کیا اور مجھے شک گزرا تو پھر انہوں نے میرے سامنے ایک طاقتور شخصیت کو کال کی اور ان سے کہا کہ آپ کے سینئر سے ملنا چاہتا ہوں جو کہ اِن دنوں اسلام آباد میں رہائش پذیر ہیں، اُس کال کے بعد مجھے اُن کی طاقت کا کچھ اندازہ ہوا بہرحال ادارے نے مجھ سے وضاحت مانگی اور میں نے اپنا موقف ان کے سامنے پیش کیا۔ آخر میں ایک بار پھر گزارش کروں گا کہ پیپلزپارٹی کے جس ایک نامعلوم رابطہ کار نے میرے سامنے کال کی اسی نامعلوم رابطہ کار نے مجھے اور بہت ساری باتیں لکھوائی ہیں، کبھی ضرورت پڑی تو اس طاقتور شخصیت کا نام ضبطِ تحریر میں لائوں گا۔

آخر میں یاد آیا ذوالفقار علی بھٹو نے امریکہ سمیت تمام طاقتوں کو اقوامِ متحدہ میں کھڑے ہوکر للکارا تھا کہ اگر مسئلہ کشمیر حل نہ ہوا تو پاکستان اقوامِ متحدہ سے الگ ہو جائے گا، پھر ذوالفقار علی بھٹو نے اسلامی بلاک بنانے کی جب عملاً کوشش کی تو پھر اُنہی قوتوں کے اشارے پر ملک کو ایٹمی طاقت بنانے والے، سلامتی کونسل میں 22ستمبر 1965کوکشمیر کے موضوع پر بےمثل تقریر کرنے والے، 10اپریل 1973کو پاکستان کا پہلا متفقہ قانون دینے والے، یکم جولائی 1973کو شناختی کارڈ کا اجراء کرنے والے، پہلی بار اردو زبان میں حلف لینے والے، 10دسمبر 1970کو ملک گیر سطح پر صوبائی الیکشن کرانے والے، جب بھارت نے 18مئی 1974کو پہلا ایٹمی دھماکہ کیا تو اس کے جواب میں ہم گھاس کھا لیں گے لیکن ایٹم بم ضرور بنانے کا اعلان کرنیوالے، 22فروری 1974کو 50مسلم سربراہانِ مملکت کی دوسری سربراہی کانفرنس منعقد کروانے والے، اپنے دورِ اقتدار میں GDPگروتھ 7.06پر لے جانے والے، ڈاٹر آف دا ایسٹ کتاب کی لکھاری یعنی بےنظیر بھٹو آخری ملاقات میں جیل میں یہ کہتی رہیں کہ مجھے اپنے والد کے گلے ملنا ہے لیکن جیلر نے اجازت نہ دی۔ بےنظیر لکھتی ہیں کہ پھر میں نے کہا کہ گڈ بائے بابا، بھٹو پھانسی کے پھندے تک چل کر خود گئے پھر رات دو بج کر چار منٹ پر مجسٹریٹ بشیر احمد خان کے اشارے پر جلاد تارا مسیح نے 7ستمبر 1974کو قادیانیوں کو غیرمسلم قرار دلوانے والے ختمِ نبوت کے سپہ سالار اور عظیم عاشقِ رسول کو 4اپریل 1979کو عدالتی فیصلے کے نتیجہ میں قتل کر دیا۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین