• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاکستان کو اس وقت صرف مشرق کے روایتی دشمن کی طرف سے تنقید کا سامنا نہیں ہے بلکہ افغانستان میں موجود اس کے حواریوں اور مغربی ممالک کی طرف سے بھی مشکلات کا سامنا ہے جنہوں نے 20 سال تک افغانستان پر جنگ مسلط کئے رکھی۔ حیران کن امر یہ ہے کہ وہ اب اپنی شکست کو ایک باعزت انخلا کی شکل میں دیکھنے کے لئے کوشاں ہیں۔ ان دنوں بہت سی کہانیاں او رافواہیں سننے میں آ رہی ہیں کہ افغانستان میں طالبان کی کامیابیوں کے پیچھے پاکستان کا ہاتھ ہے اور اسی وجہ سے افغان نیشنل سیکورٹی فورسز ، جس پر امریکہ نے اربوں ڈالر خرچ کئے تھے، ہتھیار ڈالنے پر مجبور ہیں۔ اس کی ایک بڑی وجہ افغان افواج کی تربیت اور قابلیت میں کمی کے ساتھ ساتھ جذبے اور قوت ارادی کا فقدان ہے اور یہی وہ عوامل ہیں جن کے باعث وہ طالبان کا مقابلہ کرنے سے قاصر ہیں۔ افغانستان اور اس کے حواری اپنے زخموں کو مندمل کرنے اور اپنی انا کو تسکین دینے کے لئے کسی اور کو قربانی کا بکرا بنانے کی تلاش میں ہیں۔

یہ بات بڑی واضح ہے کہ امریکہ نے طالبان کو ختم کرنے کیلئے افغانستان میں قدم رکھا تھا جنہوں نے ورلڈ ٹریڈ سنٹر پر ہونے والے خودکش حملوں کے ماسٹر مائنڈ اسامہ بن لادن کو پناہ دے رکھی تھی۔ پاکستان نے دہشت گردی کیخلاف امریکہ کی اس متنازعہ جنگ میں اس کا بھرپور ساتھ دیا۔ جب افغانستان میں امریکہ کا آپریشن کامیابی کے قریب پہنچتا دکھائی دیا تو واشنگٹن نے عراق میں جنگ کا ایک نیا محاذ کھول دیا۔ امریکی انتظامیہ کے اس فیصلے نے افغانستان میں موجود طالبان کو نئے سرے سے اپنی صفیں درست کرنے کا موقع دیا۔ جب امریکہ اپنا مشن مکمل کرنے کے بعد عراق سے واپس لوٹا تو اس وقت افغانستان کے زمینی حالات یکسر بدل چکے تھے اور اب امریکہ کو پہلے کی نسبت زیادہ متحرک دشمن کا سامنا تھا۔

یہی وہ غلطی تھی جس نے افغانستان کی تاریخ کا دھارا بدل دیا اور بالآخر مجبور ہو کر امریکہ نے طالبان کے ساتھ مذاکرات شروع کرنے کی راہ ہموار کرنے کیلئے پاکستان سے مدد مانگی۔ مذاکرات کے بعد فریقین میں ایک ایسا متنازعہ معاہدہ طے پایا جس کے نتیجے میں امریکہ نے اپنی افواج کے انخلا کیلئے مخصوص مدت کا اس شرط پر تعین کیا کہ طالبان افغان سرزمین کو کسی قسم کی دہشت گردانہ سرگرمیوں کیلئے استعمال نہیں ہونے دیں گے۔ اس تناظر میں امریکہ سے چند سولات پوچھنے بنتے ہیں کہ یہ طالبان کون تھے ؟ ان کی کیا حیثیت تھی کہ امریکہ نے ان کے ساتھ معاہدہ کیا؟ اور امریکہ نے اپنی افواج کے انخلا کو بین الافغان مذاکرات کو نتیجہ خیز بنانے کے ساتھ مشروط کیوں نہیں کیا؟ جب پاکستان اور خطے کے دیگر ممالک نے امریکہ پر زور دیا کہ وہ اپنی افواج کے انخلامیں جلدبازی سے کام نہ لے تو امریکی انتظامیہ نے سب کی تجاویز کو مسترد کر دیا۔ایسا کیوں کیا گیا اور اب اس کی پاداش میں امریکہ کسی کو قربانی کا بکرا بنانے کی تلاش میں کیوں ہے؟

گزشتہ کئی دہائیوں سے امریکہ کے ساتھ تعلقات میں آنے والے اتار چڑھائو کو مدنظر رکھتے ہوئے پاکستان دیگر ممالک بالخصوص چین کے ساتھ اپنے تعلقات کو مضبوط بنانے کیلئے کوشاں رہا ہے۔ پاک چین اقتصادی راہداری (سی پیک) منصوبے کا افتتاح دوطرفہ تعلقات کو مزید مضبوط بنانے کی جانب اہم قدم تھا جس کا بنیادی مقصد دونوں ممالک کے درمیان اقتصادی روابط کو وسعت دینا تھا۔ پاکستان کی قیادت کی جانب سے انتھک کاوشوں اور سیٹو، سینٹو اور نیٹو کا اتحادی ہونے کے باوجود دونوں ممالک برابری کی سطح پر تعلقات قائم کرنے میں ناکام رہے جس کی بنیادی وجہ اعتماد کا فقدان تھا ۔ امریکہ نے آزمائش کی ہر گھڑی میں پاکستان کو تنہا چھوڑا جبکہ چین نے مشکل کی ہر گھڑی میں پاکستان کا بھرپور ساتھ دیا۔

اتنا کچھ کرنے کے باوجود امریکہ پاکستان سے ’’ڈو مور‘‘ کا مطالبہ کرنے سے باز نہیں آیا۔ اس کے علاوہ امریکہ کی جانب سے پاکستان پر سی پیک منصوبے پر سست روی کا مظاہرہ کرنے اور چین کے ساتھ تعلقات کو کم سے کم سطح پر لانے کے لئے بھی دبائو ڈالا جاتا رہا۔ امریکہ کی جانب سے کسی بھی ملک بالخصوص ایک اتحادی کو بلیک میل کرنے کا اپنی نوعیت کا ایک ایسا فیصلہ تھا جس کی شاید ہی کوئی مثال ملتی ہو۔ امریکہ کا ایسا رویہ پاکستان کے لئے نہ صرف پریشان کن بلکہ انتہائی تکلیف دہ رہا ہے۔ اس حقیقت کے باوجود کہ افغان جنگ میں امریکہ کا ساتھ دینے پر پاکستان کو بڑے پیمانے پر دہشت گردی کا سامنا کرنا پڑا تاہم پاکستان کی مسلح افواج نے بہادری اور پیشہ ورانہ مہارت سے دہشت گردی کا بھرپور مقابلہ کیا اور خود کو دنیا کی واحد فوج ہونے کا عملی ثبوت دیا کہ جس نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں کامیابی حاصل کی۔ اس جنگ میں 70 ہزار سے زیادہ انسانی جانوں کے ضیاع کے ساتھ ساتھ پاکستان کو اربوں ڈالر کے نقصان کا بھی سامنا کرنا پڑا۔ پاکستان دوبارہ دہشت گردی کے گڑھے میں چھلانگ لگانے کا متحمل نہیں ہو سکتا اور وہ بھی ایک ایسے ملک کے لئے ،جس نے ہمیشہ بداعتمادی کا مظاہرہ کیا ہو۔

پاکستان اپنی سرحدوں کے ساتھ ساتھ پڑوسی ممالک میں پائیدار قیام امن کو درپیش چیلنجز سے نمٹنے کے لئے پرعزم ہے۔ پاکستان ایسی ممکنہ رکاوٹوں کا قلع قمع کرنے کے لئے بھی اپنا کردار ادا کرنے کو تیار ہے جو افغان حکومت، اس کے شراکت داروں، حامیوں اور معاونین کی طرف سے اس کے راستے میں ڈالی جاتی رہی ہیں۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ تمام تر چیلنجز کے باوجود کوئی طاقت پاکستان کی پائیدار قیامِ امن کے حصول کی راہ میں دیوار نہیں بن سکتی۔

تازہ ترین