• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

امریکہ نے فیصلہ کر لیا ہے کہ وہ بھارت کو اپنا تزویراتی شراکت دار (اسٹریٹجک پارٹنر ) بنالے ۔ وہ پاکستان کو صرف افغانستان میں انتشار کے وقت استعمال کرتا ہے ۔ یہ بات وزیر اعظم پاکستان عمران خان نے اگلے روز اپنی رہائش گاہ پر غیر ملکی صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہی ۔ وزیر اعظم نے ایک ایسی حقیقت کا اعتراف کیا ہے ، جس کا ادراک تو کیا جا رہا تھا لیکن اسے اس طرح کے الفاظ کا جامہ نہیں پہنایا جا رہا تھا ،عمران خان کی یہی خوبی ہے کہ جو بات ان کے ذہن میں ہوتی ہے ، وہ کہہ دیتے ہیں ۔ سفارت کاری کی پابندیوں کی پروا نہیں کرتے۔

اس حقیقت کے اعتراف کے بعد اب پاکستان کہاں کھڑا ہے ؟ یہ ایک بنیادی سوال ہے ، جس کا جواب صاف گو وزیر اعظم کو خود دے دینا چاہئے تھا لیکن میں سمجھتا ہوں کہ شاید ان کے پاس بھی اس سوال کا واضح اور دو ٹوک جواب نہیں ہو گا کیونکہ پاکستان اپنے قیام سے لے کر اب تک امریکی کیمپ میں رہا ہے اور امریکہ مخالف کیمپ کے ممالک یا طاقتوں میں پاکستان اپنا وہ اعتماد حاصل نہیں کر پا یا ، جو کسی نئے اسٹریٹجک پارٹنر کو حاصل ہونا چاہئے ۔ ہمارے حالات بقول حفیظ جالندھری ’’ وفا جس سے کی ، بے وفا ہو گیا ‘‘ والے ہیں۔

عمران خان نے جو بات کہی ہے ، وہ اس ملک کے وزیر اعظم کی بات ہے ۔ جو ملک امریکہ کے لئے اس خطے میں بہت زیادہ اہم تھا اور جس ملک نے امریکہ کے لئے اپنا سب کچھ قربان کیا ۔ پاکستان امریکہ کے دو بڑے عالمی فوجی معاہدوں کا رکن تھا ۔ یہ دو بڑے بین الحکومتی فوجی معاہدے سیٹو ( Sato ) اور سینٹو ( Cento ) تھے ۔ سیٹو یعنی سائوتھ ایسٹ ایشیا ٹریٹی آرگنائزیشن ( معاہدہ تنظیم جنوب مشرق ایشیاء ) تھا ، جسے معاہدہ منیلا بھی کہا جاتا تھا ۔ اس فوجی اتحاد کے 8 رکن ممالک امریکہ ، برطانیہ ، فرانس ، نیوزی لینڈ ، آسٹریلیا ، فلپائن ، تھائی لینڈ اور پاکستان تھے ۔ پاکستان 1954 ء میں اس معاہدے کا رکن بنا اور جون 1979 میں اس معاہدے کے خاتمے تک اس کا رکن رہا ۔ اس معاہدے کا مقصد کمیونزم کے طوفان کو مشرق کی جانب بڑھنے سے روکنا تھا دوسرا معاہدہ سینٹو یعنی سینٹرل ٹریٹی آرگنائزیشن ( معاہدہ وسطی تنظیم ) تھا ، جسے معاہدہ بغداد بھی کہا جاتا ہے ، اس معاہدے میں پاکستان کے ساتھ عراق ، ایران اور ترکی بھی تھے ۔ امریکہ اور برطانیہ سیٹو کی طرح سینٹو کو بھی کنٹرول کرتے تھے ۔ اس معاہدے کا مقصد بھی کمیونزم کے طوفان کو مشرق وسطی کے راستے مغرب کی جانب بڑھنے سے روکنا تھا ۔ پاکستان شروع سے آخر تک یعنی1979سے 1955تک اس معاہدے میں شامل رہا ۔ اس عرصے میں پاکستان نے امریکہ کے لئے وہ کام کیے ، جو نہیں کرنے چاہئیں تھے ۔ پاکستانی افواج نے اس خطے میں امریکی سکیورٹی اداروں سے زیادہ کام کیا اور اس کے بدلے میں پاکستان میں فوجی حکومتوں کے لئے سازگار حالات پیدا کیے گئے اور سیاسی قوتوں کو پنپنے نہیں دیا گیا ۔ سیٹو او رسینٹو معاہدے ختم ہونے کے بعد امریکہ پاکستان کو اپنے ایک بڑے عالمی فوجی اتحاد ( نیٹو ) یعنی معاہدہ تنظیم بحرا وقیانوس کا سب سے زیادہ بااعتماد اتحادی کہتا رہا اور یہ بات ایک دو سال پہلے تک بھی تھی ۔ پاکستان نے 1979 ء میں سووویت یونین کے خلاف افغانستان میں نیٹو فورسز کا بھرپور ساتھ دیا اور بعد میں بھی مسلسل امریکہ اور نیٹو فورسز کا ساتھ دیتا رہا ۔ نائن الیون کے بعد پاکستان نے دوبارہ امریکہ کی دہشت گردی کے خلاف ’’ جنگ ‘‘ میں اپنا سب کچھ جھونک دیا۔

امریکہ کا ساتھ دیتے دیتے پاکستان نے اپنے ہاں اپنے ہاتھوں جمہوریت کا خون کیا ۔ داخلی استحکام کو قربان کیا ۔ امریکی مفادات کے لئے ریاست کو سیکیورٹی اسٹیٹ کے طور پر چلایا ۔ دہشت گردی کی کسی بھی ملک میں سب سے زیادہ وارداتوں کا شکار رہا ۔ قومی معیشت کو نہیں پنپنے دیا اور عالمی مالیاتی اداروں کی گروی معیشت پر انحصار کیا ، جو ملکی سلامتی کے لئے مسلسل خطرہ ہے ۔ لاکھوں فوجی اور سویلین لوگوں کے لاشے اٹھائے ۔ اس وقت ریاست ، معیشت اور سیاست کا پورا ڈھانچہ امریکی ’’اسٹریٹجک پارٹنر شپ ‘‘ کے طفیل ہے اوراب وزیر اعظم عمران خان یہ بتا رہے ہیں کہ پاکستان کی بجائے اب بھارت امریکہ کا اسٹرٹیجک پارٹنر بننے جا رہا ہے۔ اب آتے ہیں اصل سوال کی جانب کہ پاکستان کہاں کھڑا ہے ؟ اور پاکستان کو آئندہ کیا کرنا چاہئے ؟ اس کے لئے ضروری ہے کہ امریکہ کے سابق اتحادیوں سے سبق سیکھا جائے ۔ عراق جیسی تباہی کا یہاں پہلے سے تدارک کیا جائے کیونکہ افغانستان میں ہونے والی تباہی ار ہماری غلط پالیسیوں کے باعث بہت سے خطرات منڈلا رہے ہیں ۔ ترکی بھی ایرانی کیمپ سے نکلا لیکن وہ ابھی تک ماضی کےکردار میں الجھا ہوا ہے لیکن وہاں کی مثبت بات یہ ہے کہ فیصلوں کا اختیار سیاسی قوتوں کے پاس ہے ۔ سابق امریکی اتحادی ایران جس طرح امریکی کیمپ سے نکلا ہے ، اس طرح پاکستان میں بوجوہ نہیں ہو سکتا ۔ سب سے پہلے ہمیں اپنی اسٹرٹیجی بنانی ہے ۔ اس کے بعد ہم کسی کے اسٹرٹیجک پارٹنر بن سکتے ہیں ؟ اب تک ہم امریکی اسٹرٹیجی کے لئے کام کر رہے ہیں ۔ اپنی اسٹرٹیجی بنانے کے لئے پاکستان میں جمہوری اداروں اور سیاسی حکومتوں کو مضبوط بنانا ہو گا اور نئی صف بندی میں عالمی سفارت کاری اور ریاست کاری میں سویلین حکمرانوں اور سیاسی جماعتوں کے کردار کو موثر بنانا ہوگا ۔ ہمیں امریکہ مخالف دوسرے کیمپ یا بلاک کا اعتماد حاصل کرنا ہو گا ۔

تازہ ترین