• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

وزیر بےخزانہ

وفاقی وزیر خزانہ شوکت ترین کہتے ہیں، مہنگائی بڑھی، دنیا میں قیمتیں کم ہونے تک کچھ نہیں کرسکتے۔ اسے کہتے ہیں چٹا جواب کہ کرلو جو کرنا ہے۔ جس بیرونی دنیا کی بات کی جاتی ہے اس نےتو اپنی معیشت اتنی مستحکم کر رکھی ہے کہ انہیں مہنگائی کی پروا نہیں ہوتی مگر ہم نے اپنی نااہلی کی بہترین صلاحیتوں سے کام لے کر یہ حال کر لیا کہ عالمی مارکیٹ میںجب بھی مہنگائی بڑھتی ہے ہماری چیخیں نکل جاتی ہیں، تبدیلی کی پہلی نوید یہ چیخیں نکلوانا تھیں اس لئے اب وزیر خزانہ کے ہاتھ کھڑے کرنے پر ہی غریب عوام گزارہ کریں، اربابِ اقتدار تو کبھی اس ملک میں غریب تھے نہ ہیں اس لئے انہیں بری خبر دیتے ہوئے ذرا بھی فکر نہیں ہوتی، پریشانی تو صرف اس ملک کے عوام کانصیب ہے، یہ سلسلہ اسی طرح چلتا رہے گا کہ یہاں سیاست کا مقصد اپنی ذات کو امیر سے امیر تر کرنا ہے، ہمارے ہاں ہمیشہ وزیر خزانہ بے خزانہ ہوتا ہے، نہ جانے وہ کس قلمدان کا وزیر بنایا جاتا ہے، یہاںتک کہ اپوزیشن بھی بہت قابل ہے مگر اس میں ایک بھی مفلس نہیں، اور ستم بالائے ستم کہ یہاں اشرافیہ چاہے اقتدار میں ہو یا باہر، غریب عوام ہی کی بنیاد پر دولت سے کھیلتی ہے، غریب آدمی کیا کبھی سیاست میں آنے کا سوچ سکتا ہے؟ کیونکہ یہ ایک ایسی صنعت ہے جسے سرمایہ پردۂ غیب سے ملتا ہے، البتہ انقلاب ایک علاج ہے مگر اس کی کسی میں سکت ہے نہ جرأت، غربت صرف امیری کو جنم دیتی ہے اور خود کسی قبر کا اُگلا ہوا مردہ ہی رہتی ہے اور رہے گی۔

٭٭٭٭

قومی عصمت کا بدن ہمہ داغ داغ

عائشہ کے جسم پر نوچنے، زخموں، نیل، سوجن کے لاتعداد نشانات، پارک میں حفاظتی گارڈ موجود، پولیس باربار بلانے پر نہ آئی، یہ ہے 14 اگست منانے کا وہ آزاد انداز کہ جس سے کالی کوٹھری کی قید بھی بہتر، ہم نے آزادی کا ایسا بے مثال نمونہ دنیا کے سامنے رکھا ہے کہ جو آزادی ہمیں عطا ہوئی وہ لگتا ہے کہ چھن گئی ہے۔ پاکستان کی ایک بیٹی کو یوم آزادی کے دن اس طرح سے ہزاروں پاکستانیوں نے نوچا کہ جیسے ان کی کوئی ماں نہ تھی بلکہ وہ جنسی ہوس کے بیٹے تھے، نوبت یہاں تک آ پہنچی ہے تو اس ملک کے پارکوں کو کیا پورے ملک ہی کوتالا لگا کر جیل بنا دیں کہ ہزاروں مجرموں کے لئے تو ہماری جیلیںناکافی ہیں، مہنگائی اور بے حیائی و جنسی ہراسانی کا یہ عروج، یہ تو لگتا ہے کہ اجتماعی خود کشی کا مقام ہے، اگر غور کریں تو یہ زینب کے ساتھ جو ہوا اس کا تسلسل ہے جو روز بروز زور پکڑ رہا ہے، اگر ایک مجرم کو عبرت کا نشانہ بنایا جاتا تو دوسرا واقعہ نہ ہوتا، شاید ہمیں حالات قرآنی سزائوں کے نفاذ کی طرف لے جا رہے ہیں، تھوڑی دیر بے گناہ قوم کی بیٹی عائشہ اور اس کو ہراساں کرنے والے ہزاروں درندوں کا منظر ذہن میں لائیں تو سچ بات ہے کہ اس ملک کی بنیاد ہلتی نظر آتی ہے۔ ایسی ہی بستیاں آباد رہنے کا حق کھو دیتی ہیں۔ اب عائشہ کے مجرموں کے ساتھ کیا ایسا عبرتناک سلوک کیا جائے گا کہ اس ملک کی کسی بیٹی کی بے حرمتی کا کوئی سوچ بھی نہ سکےمگر انجام کار کچھ نہ ہوگا اب یہ شیطانی کھیل اور عام ہوگا کہ ہم زندہ قوم ہیں ، آزاد قوم ہیں، ہم سب کا پاکستان ہے ہم سب اس کی بیٹیوں کا بدن نوچنے کا حق رکھتے ہیں۔

٭٭٭٭

کالا قانون

میڈیا کے لئے جو کالا قانون بنایا گیا ہے وہ پہلے سے موجود کالے قانون سے زیادہ کالا ہے، حکومت کوئلوں کی دلالی میں اپنا منہ مزید کالا کرنے سے گریز کرے۔ مقامی میڈیا کی جائز آزادی بنیادی حق ہے ، شروع سے ہی میڈیا کے لئے ایسے حالات پیدا کئے گئے کہ اخبارات کا حجم کم ہوگیا، مگر پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا نے بمشکل اپنا وجود برقرار رکھا، اب گردن کی رسی کو اس حد تک تنگ کیا جا رہا ہے کہ میڈیا سانس بھی نہ لے سکے، اچھے اقدامات کی عدم فراہمی کے باعث اپنے کالے کرتوت چھپانے کے لئے یہ نیا کالا قانون لایا گیا ہے جو کہ کسی صورت قبول نہیں کیا جائے گا، یہ میڈیا ہی ہے جو امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا فریضہ انجام دے رہا ہے، کالے کرتوتوں کو کالے قوانین سے ہرگز چھپایا نہیں جاسکتا، اب میڈیا اگر میدان میں آگیا تو وزیر اطلاعات و نشریات جان رکھیں کہ کوئی بے جا قدغن برداشت نہیں کی جائے گی، آخر یہ سیاہ حرکت کس کے اشارے پر کیا مقاصد حاصل کرنے کے لئے کی گئی ہے، میڈیا ساری داستان سے پردہ اٹھا کر رہے گا، روک سکو تو روک لو، کیا اپوزیشن اس کالے اقدام پر خاموش رہےگی یا اسے اپنا مفاد ہی عزیز ہے؟

٭٭٭٭

اچھی خبر کہاں سے لائیں؟

...o طالبان نے افغانستان کے ٹی وی چینل کی اینکر کو کام کرنے سے روک دیا۔

کیا اسلام کوٹی وی اینکر کے کام سے کوئی خطرہ ہے،لگتا ہے شرعی قوانین کے نفاذ کی آڑ میں غیرشرعی کام بھی ہوگا مگر ذرا دھیرے دھیرے، ابھی چہرہ زیر نقاب ہے۔

...o چڑیا گھر اور زو سفاری کی ٹکٹوں میں 50 سے 300 فیصد اضافہ۔

یہ اضافے حکومت کو اضافی بنا دیں گے، کیا گھر کا سامان بیچنے کی نوبت آچکی ہے، ذمہ دار کون ہے؟

٭٭٭٭

تازہ ترین