• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ہم میں سے کچھ لوگوں کو خطرے کا احساس ضرور ہے۔ پاکستان، اس کے عوام اور حکمران خطرات سے آگاہی رکھتے ہیں، کچھ خطرات تو اندرونِ ملک کے معاملات سے متعلق ہیں۔ ہماری سیاسی اشرافیہ اِن خطرات کو سیاسی حوالوں سے دیکھ رہی ہے اور ہماری اہم سیاسی اور مذہبی جماعتیں شتر مرغ کی طرح گردن پروں میں چھپا کر اورآنکھیں بند کرکے اِن خطرات سے لاتعلق ہونے کا مصنوعی کردار بھی ادا کر رہی ہیں۔ ہمارے ملک کے اہم ادارے بھی اِس موقع پر اپنا کردار ادا کرتے نظر نہیں آ رہے۔ ہمارے پڑوس میں ہمارا کوئی دوست نظر نہیں آ رہا۔ ملکی اداروں پر تنقید جمہوری نظریے میں ایک مثبت ردعمل ہوتا ہے مگر اس وقت تنقید مخالفت کے تناظر میں ہوتی نظر آ رہی ہے۔ ملک کی دو بڑی مذہبی جماعتیں بالکل خاموش اور حیران ہیں کہ افغانستان میں کیا ہو رہا ہے۔ ان کو یقین نہیں آ رہا کہ دنیا میں مسلمانوں کا یہ روپ بھی ہو سکتا ہے۔ افغانستان میں جو کچھ ہو رہا ہے اِس سے دنیا کا چلن تو بدلنے سے رہا۔ امریکہ کا ہار جیت کا فلسفہ انوکھا ہے اور لگتا نہیں کہ افغانستان میں امریکہ کا زیادہ نقصان ہوا ہے۔

20برس قبل جب امریکہ نے افغانستان پر قبضہ کیا تھا تو یورپ بھی اس کا اتحادی تھا، یہ تمام طاقتیں افغانستان میں اتنے سال کیا کرتی رہیں؟ یہ اِس وقت ایک معمہ ہے۔ بظاہر تو افغانستان میں امریکہ ہارتا نظر آ رہا ہے مگر وہاں پر قابض طالبان جو ایک عرصہ تک قطر میں امریکہ کے ساتھ مذاکرات کرتے رہے اور اِن مذاکرات میں کبھی پاکستان بھی شامل ہو جاتا اور امریکہ پاکستان کو باور کرواتا کہ طالبان ایک خطرہ ہیں اور اس خطرے کو ختم کرنے کے لئے مذاکرات میں دوسرے ممالک بھی شامل ہوتے رہے مگر خطرہ ابھی ٹلا نہیں۔ امریکہ نے اس معاملے کا کوئی حل سوچ رکھا ہے اور وہ کیا ہے؟ یہ پاکستان کے لئے بہت ہی اہم ہے۔ اس پُرآشوب دور میں عمران خان بہت اہم ہو گیا ہے۔ عمران خان ماضی میں طالبان کے حوالے سے امریکہ کو جو مشورے دیتا رہا ہے، پاکستان کی افواج نے بھی ان مشوروں کی افادیت کو تسلیم کیا اور طالبان سے فاصلہ رکھا۔ اب کچھ طالبان یہ بھی دعویٰ کر رہے ہیں کہ ان کا اگلا ہدف کشمیر ہوگا۔ ان کا کشمیر سے کیا لینا دینا؟ کشمیر میں جو کچھ ہو رہا ہے وہ دنیا کے سامنے ہے مگر بھارت کے لئے کشمیر میں انسانی حقوق کی بات مناسب بھی نہیں۔اِس وقت کینیڈا نے اعلان کیا ہے کہ وہ کسی بھی صورت میں افغانستان کی سرکار قبول نہیں کرے گا۔ ایک طرف امریکہ ہے جو کہتا ہے کہ وہ طالبان کے ساتھ چلنے کو تیار ہے، اگر وہ افغانستان میں اقوامِ متحدہ کے قوانین پر عمل کی یقین دہانی کرا دیں۔ افغانستان کے مہاجر اِس وقت ساری دنیا میں اور سب سے زیادہ پاکستان میں ہیں۔ وہ لوگ ایران اور بھارت میں بھی اپنی پہچان کرواتے ہیں اور اپنا تعلق طالبان سے نہیں جوڑتے۔ حالیہ دنوں میں کچھ حیرت انگیز مناظر بھی نظر آئے اور میڈیا اصل حقیقت بتانے میں مکمل ناکام نظر آیا۔ طالبان کا تاثر ایسا دکھایا جا رہا ہے کہ ان کو دنیا کا کچھ معلوم نہیں ہے۔ شکر ہے طالبان نے لوٹ مار نہیں کی مگر امریکی میڈیا کا کردار حیران کن ہے۔ وہ امریکی فضائیہ کے جہاز تو دکھا رہا ہے اور ایک جہاز جس میں 600سے زائد افغانی ملک سے فرار ہو رہے ہیں، وہ کون ہیں اور امریکی ان پر اتنے مہربان کیوں ہیں؟ طالبان نے اگرچہ سارے ملک پر قبضے کا دعویٰ کیا ہے مگر اُن کی رسائی اب تک بین الاقوامی افواج کے علاقے تک نہیں ہوئی۔

لگتا یوں ہے کہ پاکستان کی سرکار کو اندازہ ہو چکا ہے کہ امریکہ افغانستان میں کوئی نیا کردار ادا کرنے جا رہا ہے۔ ایک وقت طالبان پر الزام تھا کہ وہ سعودیہ کے جہادی ہیں۔ پھر سعودی عرب نے اپنا رنگ و روپ بدلنا شروع کیا اور سعودی عرب میں مقیم افغان نگرانی میں آنے لگے تو ان میں سے کچھ امریکہ اور کینیڈا چلے گئے۔ اس وقت افغانوں کی خاصی بڑی تعداد بڑی امیر کبیر نظر آ رہی ہے اور ان کو خاصا تحفظ بھی دیا جا رہا ہے اور کچھ افغان اسرائیل کے ساتھ بھی تجارتی تعلقات میں کافی اہمیت کے حامل ہیں اور افغان پسِ منظر میں وہ اسرائیل کی مدد بھی کرتے ہیں۔ اس ساری صورت حال میں بھارت کا میڈیا صرف دانت پیستا نظر آ رہا ہے اور اُس کا دعویٰ ہے کہ مودی سرکار نے بھارت کو دنیا بھر میں ایک بےبس ملک دکھایا ہے، اس وقت بھارتی سیاسی رہنما بھی مودی سرکار سے پریشان ہیں اور آنے والے الیکشن میں مودی سرکار کے ساتھ عوام کا سلوک کچھ اچھا نظر نہیں آ رہا۔ افغان سکھ بھی بھارتی رویے سے پریشان ہیں اور نقل مکانی کا سوچ رہے ہیں۔بظاہر تو امریکہ بہت خاموش نظر آ رہا ہے مگر وہ عالمی طور پر اپنی حیثیت کو بہت خراب محسوس کر رہا ہے اور مشرقِ وسطیٰ میں اُس کی پالیسیوں کی وجہ سے مسلمانوں کی حیثیت بھی متاثر ہوئی ہے۔ ایسے میں متحدہ عرب ریاستیں جو کچھ عرصہ سے اسرائیل کے بہت قریب نظر آرہی تھیں، ان کے ہاں بھی ایک نامعلوم سا خوف نظر آ رہا ہے۔

اس وقت پاکستان افغانستان کے اندرونی حالات کی وجہ سے بہت محتاط ہے۔ پاکستان کی افغانستان اور بھارت کے ساتھ طویل سرحد ہے۔ بھارتی سرحد پر مکمل نگرانی ہے اور بھارت پر واضح کردیا گیا ہے کہ اگر اس نے جنگ کا سوچا تو پاکستان جواب دینے میں پہل ہی کرے گا اور اپنی ایٹمی قوت کو دنیا پر ظاہر کردے گا۔ بھارت کو اندازہ ہو گیا ہے کہ امریکی اب قابلِ اعتبار نہیںرہے۔ افغانستان کی طویل سرحد پر کسی نہ کسی جگہ کارروائی کا خدشہ ہے۔ پاکستان اس کے لئے تیار ہے۔ طالبان کو پاکستان کی پالیسی کا اندازہ ہو چکا ہے اور وہ پاکستان کے ساتھ امن اور سکون چاہتے ہیں۔ ہمارے ملک کے اندر بہت سے سیاسی خلفشار ہیں۔ بلاول زرداری امریکہ جا رہے ہیں، وہ بھی امریکی دعوت پر۔ اس سے اندازہ کر لیں کہ وہ کتنے سنجیدہ ہیں۔ سابق وزیراعظم نواز شریف کو بھی امریکہ نے استعمال کیا اور برطانیہ بھی ان سے مایوس لگ رہا ہے۔ عمران خان نئے نظام کے لئے اپنے دو سال استعمال کرنا چاہتا ہے۔ یہ جمہوری نظام بےکار ثابت ہو چکا ہے، ملک میں اہم ضرورت قانون کا احترام اور بروقت انصاف اور ایسے میں بہت کچھ بدلنے جا رہا ہے اور عوام کو اپنا آپ بدلنا پڑے گا۔

تازہ ترین