• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

یہ 1992کی بات ہے، افغان مجاہدین کے درمیان قومی حکومت کے قیام پر اتفاق رائے پیدا کرنے کے لئے پاکستان کا اعلیٰ سطحی وفد افغانستان کے دارالحکومت کابل گیا، میں بھی اُس اعلیٰ سطحی وفد کا حصہ تھا جس میں اعجاز الحق، میجر عامر، سردار خان نیازی، سعود ساحر، کرنل امام اور دیگر اہم شخصیات شامل تھیں۔ میں نے کابل میں ہر طرف طوائف الملوکی کی صورت حال دیکھی۔ کابل کے مختلف حصوں پر متحارب جہادی تنظیموں کے کمانڈروں نے قبضہ کر رکھا تھا۔ عبدالبرب رسول سیاف نے الگ ’’ڈیرہ‘‘ لگا رکھا تھا جبکہ مولوی یونس خالص نے اپنی الگ ’’محفل‘‘ سجا رکھی تھی۔ مجاہدین ٹینک لئے کابل کے بازاروں میں دندناتے پھر رہے تھے۔ ایک ٹینک سوار مجاہد، اعجاز الحق کو لینے انٹرکانٹی نینٹل ہوٹل آگیا جس کے بیشتر حصے پر مجاہدین نے پہلے ہی قبضہ رکھا تھا، اس ہوٹل کے بچے کچھے کمروں میں پاکستان سے آئے ہوئے مہمانوں کو ٹھہرایا گیا تھا۔ حزبِ اسلامی افغانستان کے امیر گلبدین حکمت یار نے کابل کے مضافات میں’’ ڈیرے‘‘ ڈال رکھے تھے، احمد شاہ مسعود اور گلبدین حکمت یار کے درمیان ’’ تنائو‘‘ کے باعث کابل حکومت عدم استحکام کا شکار تھی لہٰذا پاکستان سے آئے ہوئے اعلیٰ سطحی وفد نے احمد شاہ مسعود اور گلبدین حکمت یار کو کابل کے مضافات میں ایک میز پر بٹھا دیا دونوں کے درمیاں شراکتِ اقتدار کا تاریخی معاہدہ تو طے پا گیا لیکن عالمی قوتوں نے اس پر عمل درآمد نہیں ہونے دیا گلبدین حکمت یار کابل میں احمد شاہ مسعود کا ’’مہمان‘‘ بن کر نہیں رہناچاہتے تھے، مجھے یاد ہے اس معاہدہ کی خوشی میںمجاہدین نے کابل کی تاریخ میں زبردست ہوائی فائرنگ کی پورا آسمان کلاشنکوف کی گولیوں سے سرخ ہو گیا، کابل میں ہر رات کو کرفیو لگا دیا جاتا، عام آدمی کی نقل حرکت ناممکن بنا دی جاتی، ہر چوراہے میں ہماری گاڑیوں کی روک کرچیکنگ کی جاتی، احمد شاہ مسعود کے عشائیہ سے نکل کر باہر آئے تو ہماری رہنمائی کرنے والی گاڑی بہت آگے نکل گئی تو ہم مصیبت میں پھنس گئے، گلبدین حکمت یار کئی سال تک کابل کے باہر رہنے کے بعد پہلی مرتبہ اشرف غنی کی ’’کٹھ پتلی ‘‘ حکومت میں شامل ہوئے۔ دورے کے دوران دریائے کابل کے کنارے (پل چرخی) جامع مسجد میں نماز جمعہ کی ادائیگی کا اعزاز حاصل ہوا جب امام مسجد نے اجتماع میں جنرل ضیا ءالحق کے صاحبزادے محمد اعجاز الحق کی موجودگی کا اعلان کیا تو پورا اجتماع ’’جنرل ضیاءالحق زندہ باد ‘‘ کے نعروں سے گونج اٹھا ۔ میجر عامر نے بتایا کہ جب جنرل ضیاالحق نے1979ء میں جہاد افغانستان کا فیصلہ کیا تو ہمارے قومی سلامتی کے اداروں کے پاس افغانستان کا نقشہ تک نہیں تھا امریکہ افغانستان میں جنگ نہیں لڑنا چاہتا تھا یہ جنرل ضیا الحق ہی تھے جنہوں نے جہاد افغانستان کی پشت پناہی کا فیصلہ کیا اور پھر روس کو دریائے آمو کے اس پار دھکیل کر چھوڑا جنیوا معاہدہ کے بعد پاکستان کی سیاسی قیادت نے جنرل ضیاالحق کی بات نہ مانی جس کے بات افغانستان اندرونی خلفشار کا شکار ہو گیا۔

15اگست2021 جہاں پاکستان اور افغانستان کے عوام کے لئے خوشی اور مسرت کا دن ہے وہاں بھارت کے یوم آزادی پر صف ماتم بچھی ہوئی تھی اس کی بنیادی وجہ ’’سقوط کابل ‘‘ تھا بھارت نے پچھلے20 سال سے افغانستان کے چونتیس صوبوں میں چار سو منصوبوں پرتین ارب ڈالر کی جو سرمایہ کاری کی ہے وہ ڈوب جانے کا خطرہ ہے دوحہ میں فروری میں ہونے والے معاہدہ میں امریکی افواج کے انخلا کا شیڈول طے پا گیا تھا طالبان نے جہاں امریکہ کو اپنی سرزمین کسی تیسرے ملک کے خلاف استعمال کرنے کی اجازت نہ دینے کی تحریری یقین دہانی کرائی تھی وہاں امریکہ نے بھی افغانستان میں طالبان کی ’’اسلامی حکومت‘‘ کی راہ میں مزاحم نہ ہونے کی کمٹمنٹ کی تھی امریکہ اشرف غنی اور طالبان میں شراکت اقتدار کا معاہدہ کرانے کے لئے کوشاں رہا لیکن ناکامی پر شیڈول سے قبل ہی افغانستان چھوڑ دیا جس سے ’’سقوط کابل‘‘ دنوں میں ہونے کی بجائے گھنٹوں میں ہو گیا اس پر طرفہ تماشا یہ کہ اشرف غنی کے اچانک فرار نے نیشنل افغان آرمی کو جذبہ جہاد سے سرشار طالبان کے لشکر کے سامنے ہتھیار ڈالنے پر مجبور کر دیا ممکن ہے نیشنل افغان آرمی جو امریکہ نے پچھلے دو عشروں میں اربوں ڈالر خرچ کر کے کھڑی کی تھی اگر موت کے اس کاروبار میں ذرہ سی بھی مزاحمت کرتی تو طالبان کو کابل پر قبضہ کرنے میں کچھ دن لگ جاتے بگرام کا اڈہ امریکی افواج نے خالی کیا تو اشرف غنی نے بڑا شور شرابہ کیا لیکن امریکہ نے اسے طالبان کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا نیشنل افغان آرمی جومختلف قبائل پر مشتمل ہے طالبان کی پیش رفت کے بعد اپنے اپنے’’ وار لارڈز‘‘ کے کنٹرول میں چلی گئی ہے تین لاکھ افغانیوں پر مشتمل فوج میں ڈیڑھ لاکھ افراد ریگولر فوج کا حصہ تھے نیٹو کی 46 ممالک پر مشتمل ایک لاکھ 40ہزار فوج کو جو ہزیمت اٹھانا پڑی اس پر امریکہ میں خوب لے دے ہو رہی ہے۔

طالبان حکومت نے کلمہ طیبہ پر مشتمل افغانستان کے نئے جھنڈے اور سرکاری نشان کی منظوری دے دی ہے افغانستان اسلامی امارت قائم کر دی گئی ہے۔ کابل میں 1992جیسی طوائف الملوکی نہیں ۔ چین سمیت مختلف ملکوں نے افغانستان کی نئی حکومت کو تسلیم کر لیا ہے ۔یہ الگ بات ہے کہ پاکستان نے ابھی تک طالبان کی حکومت کو تسلیم نہیں کیا لیکن پاکستان کے پایسی ساز اداروں میں طالبان کی فتح پر شادیانے بجائے جا رہے ہیں افغان امور کے ماہرین طالبان کی حکومت کے متعلق مختلف قیاس آرائیاں کر رہے ہیں لیکن بیشتر کی رائے ہے کہ پورے افغانستان پرطالبان راج قائم ہو جائے گامجھے تیس سال قبل قہوہ بیچنے والے افغانی بچے کی بات آج بھی یاد ہے’’ نہ جانے میرے ملک کو کس کی نظر لگ گئی ہم کب اپنے وطن واپس جائیں گے‘‘۔

تازہ ترین