• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

افغانستان کے اکثر علاقوں بشمول پایہ تخت کابل پر افغان طالبان کے قبضے کے بعد جو عالمی ردعمل آیا ہے ، اسے ان جملوں میں بیان کیا جا سکتا ہے ۔ ’’ طالبان کا رویہ تبدیل ہو اور وہ پہلے کی طرح کارروائیاں نہ کریں ، جنہیں عرف عام میں دہشت گردی کہا جاتا تھا ۔ انتقامی کارروائیاں نہ کریں ۔ حکومت میں افغانستان کے تمام نمائندہ سیاسی ، لسانی اور نسلی گروہوں کو نمائندگی دیں ۔ یعنی مشمولہ ( Inclusive ) حکومت تشکیل دیں ۔ خواتین ، اقلیتوں اور نوجوانوں کے حقوق کا خیال رکھیں ۔ میڈیا کو آزادی دیں اور لوگوں کی ثقافتی سرگرمیوں پر قدغنیں نہ لگائیں ۔ ‘‘ یہ ایک طرح کا چارٹر آف ڈیمانڈ ہے ، جو طالبان کو پیش کیا گیا ہے ۔ طالبان حکومت کو تسلیم کرنے کے حوالے سے اکثر ممالک کا موقف تقریباً ایک جیسا ہے ۔ یعنی طالبان کی حکومت کو تسلیم کرنے کا انحصار اس بات پر ہے کہ وہ مذکورہ بالا باتوں پر عمل کرتے ہیں یا نہیں ؟ حیرت کی بات یہ ہے کہ ایک جیسا عالمی ردعمل ان ملکوں کا بھی ہے ، جو طالبان کے حامی رہے ہیں اور ان کا بھی ہے ، جو طالبان کے مخالف رہے ہیں ۔ مخالف بھی دو طرح کے تھے ۔ طالبان کے مخالف ایک طرف تو امریکہ اور اس کے عالمی حواری تھے ، جو طالبان کو القاعدہ ، داعش وغیرہ کی طرح دہشت گرد قرار دیتے تھے ۔ دوسری طرف طالبان مخالف روس ، چین اور ایران جیسے ممالک تھے ، جن کے خیال میں طالبان ، القاعدہ ، داعش ، بوکو حرام جیسی تنظیمیں بنائی ہی اس لئے گئی تھیں کہ یونی پولر ورلڈ میں امریکہ کی بالادستی کے مقاصد اور سامراجی عزائم پورے کئے جا سکیں ۔ وہ طالبان کو ایک جمہوری اعتدال پسند معاشرے کے لئے خطرہ قرار دیتے تھے ۔ ملکوں کے اندر بھی سیاسی جماعتوں میں طالبان کی حمایت اور مخالفت میں ایسی ہی صف بندی تھی ۔ طالبان کے بارے میں کٹر مذہبی دائیں بازو کی جماعتیں لبرل اور ترقی پسند جماعتیں اسی طرح تقسیم تھیں لیکن آج حیران کن طور پر سب کا ایک ہی بیانیہ ہے ۔ ایک جیسے بیانیہ سے یہ بات واضح ہو گئی ہے کہ باقاعدہ طور پر تسلیم نہ کرنے کے باوجود طالبان کو سب نے تسلیم کر لیا ہے۔ شاید سب اسی میں عافیت سمجھتے ہیں کہ کچھ پابندیوں کے ساتھ طالبان کو حکومت کرنے دی جائے ۔ اگرچہ سب اس بات پر شاکی ہیں کہ طالبان پہلے والے نہیں رہے۔

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر ایسا کیوں ہے کہ سب لوگ ایک ہی بات کر رہے ہیں ؟ یعنی امریکہ بھی وہی بات کر رہا ہے اور روس بھی وہی بات کر رہا ہے ۔ طالبان کی حامی تصور کی جانے والی تحریک انصاف بھی وہی بات کر رہی ہے اور طالبان کی سخت ترین مخالف تصور کی جانے والی پیپلز پارٹی بھی وہی بات کر رہی ہے ۔ امریکہ بھی طالبان کے غلبے والی مشمولہ حکومت کے قیام کے لئے کوششیں کر رہا ہے اور روس ، چین اور ایران بھی ان کوششوں میں شامل ہیں ۔ ایران ، روس اور چین تو آگے بڑھ کر طالبان سے بات چیت کے لئے تیار ہیں ۔ کیا سب عالمی اور علاقائی طاقتوں اور خطے کے ممالک نے اپنے عالمی ، علاقائی اور قومی مفادات کو صرف اسلئے پس پشت ڈال دیاہے کہ افغانستان میں امن ہو ۔ دنیا میں نظریات اور بلاکس کی سیاست کو افغان عوام کےلئے قربان کر دیا گیا ہے ؟ کیا ملکوں کے اندر بھی نظریاتی کشمکش سے لوگ اسلئے دست بردار ہو گئے ہیں کہ انہیں افغانستان کی تباہی پر بہت دکھ ہے ؟ اگر مذکورہ بالا تمام سوالوں کا جواب مثبت بھی ہو ، تب بھی افغانستان میں امن ، استحکام اور اعتدال پسند معاشرے کے قیام کا خواب فوری طور پر شرمندہ تعبیر ہوتا نظر نہیں آتا ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ متحارب اور متضاد قوتوں کے ایک جیسے بیانیہ میں افغان عوام اور ان کی خواہشات کو نظر انداز کیا گیا ہے ۔ سب کا بیانیہ تو ایک جیسا ہے لیکن ایک جیسا بیانیہ اختیار کرنے کے اسباب مختلف ہیں ۔ چین اور روس اگر یہ بیانیہ اختیار کر رہے ہیں تو ان کے اہداف مختلف ہیں ۔ امریکہ اور اس کے حواریوں کے مقاصد کچھ اور ہیں ۔ متضاد مقاصد میں بہت جلد ٹکراو ہو گا ۔ یہ ٹکراو ابتدا میں طالبان کے مختلف گروہوں کے درمیان اندرونی ٹکراو کی صورت میں ہو گا کیونکہ امریکہ نے 20 سال تک طالبان ، القاعدہ ، داعش وغیرہ کو بنیاد بنا کر جس طرح سیاست کی ، اسی طرح امریکہ مخالف طاقتوں نے بھی اسی بنیاد پر سیاست کی ۔ طالبان کے کئی گروہ اب امریکہ کے کنٹرول میں نہیں بلکہ وہ روس ، چین ، ایران اور دیگر اتحادی ملکوں کے زیر اثر ہیں۔

سب سے اہم بات یہ ہے کہ افغان عوام اس حکومت کو تسلیم کریں گے ، جو بے شک عالمی مطالبے کے مطابق ہی تشکیل کیوں نہ دی گئی ہو ؟ افغانستان کثیر القومی اور کثیر النسلی ملک ہے ۔ تادم تحریر اگرچہ طالبان نے افغانستان کے تمام نمائندہ گروہوں کو شمولیت کی دعوت نہیں دی ، اس سے پہلے طالبان کے غلبے والی مجوزہ حکومت کے خلاف افغانستان میں مزاحمت شروع ہو چکی ہے ۔ طالبان کی ہیبت پوری دنیا پر طاری ہے لیکن طالبان کے قبضے کے فوراً بعد افغان عوام سڑکوں پر آ گئے ہیں۔

تازہ ترین