• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پچھلے کالم میں حر تحریک کےقائد پیر پگارا پیر صبغت ﷲ شاہ راشدی کو انگریز سامراج کی طرف سے دی گئی ’’عجیب و غریب‘‘ پھانسی کا ذکر کرچکا ہوں۔ اس سلسلے میں لکھے گئے کالموں میں‘ میں یہ ذکر کرچکا ہوں کہ انگریز سامراج نے کم سے کم تین بار اس پیر پگارا کو جھوٹے مقدمات میں so called عدالتوں کے ذریعے سزا دلواکر ان کو ہندوستان کی دور دراز جیلوں میں کافی عرصے تک قید رکھا گیالہٰذا اس کالم میں پیر صاحب کی ان جیل یاترائوں کے بارے میں چند حقائق پیش کروں گا۔ مختلف پیر پگاروں اور حروں کے انگریز سامراج کے ان انسان دشمن ہتھکنڈوں کا کیا جواز تھا جبکہ حقیقت تو یہ ہے کہ 1898 ء سے 1930 ء تک ان 32 سالوں میں حروں کی طرف سے ایسا کوئی قدم نہیں اٹھایا گیا جس سے انگریز حکومت کو شکایت ہوتی، خود پیر صبغت ﷲ شاہ کی طرف سے کوئی ایسا قدم نہیں اٹھایا گیا جسے قانون کی خلاف ورزی کہا جاسکے۔ انگریز حکومت اور پیر صاحب کے درمیان تصادم کا سبب یہ بنا کہ پیر صاحب کو یہ بات پسند نہیں تھی کہ حکومت والے انہیں اپنے مریدوں کے پاس جانے سے روکیں یا ان کے مریدوں کو پیر صاحب کی درگاہ کی طرف جانے سے روکیں یا سفر کے دوران حکومت کی ہدایات کے تحت ان کے مریدوں کے ساتھ پولیس والوں کو لگایا جائے۔ ان باتوں کی وجہ سے پیر صاحب اور انگریز حکومت کے درمیان تعلقات اس حد تک خراب ہوئے کہ انگریز حکومت نے پیر صاحب کے خلاف اپنی طاقت کا مظاہرہ کرنے کا یہ طریقہ اختیار کیا کہ پیر صاحب کے خلاف مقدمے دائر کرنا شروع کردیئے تاکہ ان کے احکامات پر پیر صاحب کوئی اعتراض نہ کریں۔ پیر صاحب کے خلاف جو پہلا مقدمہ دائر کیا گیا اس میں پیر صاحب کو بغیر ضمانت کے جیل میں بند رکھا گیا، کسی کے یہ وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ اس مقدمہ میں یہ فیصلہ کیا جائے گا کہ جس کے تحت پرانی بندوقیں رکھنے کے ’’جرم‘‘ میں چھ لاکھ لوگوں کے اس روحانی پیشوا کو آٹھ سال کے لئے دور دراز رتنا گری کی جیل میں قید رکھا گیا،اس قسم کے فیصلے پیر صاحب کے مریدوں کے تصور میں بھی نہیں تھے،اس کے نتیجے میں پیر صاحب کے مریدوں کی طرف سے مختلف ردعمل سامنے آیا،اس ردعمل کے طور پر پیر صاحب کے کچھ مرید پولیس اسٹیشن کے پاس جاکر بھوک ہڑتال پر بیٹھے ان کے ساتھ ان کے بچوں اور خاندان کے افراد بھی تھے۔ پیر صاحب کو رتنا گری جیل میں قید کرنے کا نتیجہ یہ نکلا کہ راجستھان، راجپوتانہ، مارواڑ، ممبئی اور دکن کی طرف پیر صاحب کے جو مرید حراستی کیمپوں میں رہتے تھے ان کو بھی شوق پیدا ہوا کیونکہ ان کے مرشد اب ان کے قریب تھے تو ان سے ملاقات کی جائے حالانکہ جیل میں پیر صاحب سے ملاقات پر سخت پابندیاں تھیں مگر مرشد کے عاشق وہاں پر بھی پہنچ گئے۔ یہ بات انگریز حکومت کو پسند نہ آئی لہٰذا کچھ عرصے کے بعد پیر صاحب کو دمدمہ،مدن پور، کلکتہ اور دیگر جیلوں میں منتقل کیا جاتا رہا۔ یہ بات بھی کم دلچسپ نہیں کہ اسلحہ اور بارود کا جھوٹا مقدمہ پیر صاحب کے خلاف دائر کرکے انہیں جیل بھیجنے سے پہلے پیر صاحب کے خلاف ایک اور جھوٹا مقدمہ دائر کرنے کی کوشش کی گئی، یہ کوشش اس طرح کی گئی کہ حکومت کی ہدایات کے تحت ایک شخص ابراہیم کی ماں کو قتل کراکے اس کی لاش پیر صاحب کے مہمان خانے میں پھینکی گئی اور پیر صاحب پر الزام عائد کیا گیا کہ اس خاتون کو پیر صاحب نے قتل کرایا ہے مگر یہ کیس جھوٹا ثابت ہوا۔ بہرحال اسلحہ اور بارود کے مقدمہ میں پیر صاحب کو جو آٹھ سال قید کی سزا سنائی گئی تھی اس کے خلاف پیر صاحب کی طرف سے عدالت میں اپیل کے نتیجے میں یہ سزا کم کرکے چھ سال کردی گئی۔ پیر صاحب جب رتنا گری جیل میں تھے تو اس وقت کئی لوگ ان سے جیل میں ملاقات کرنے جاتے تھے،ان ملنے والوں میں حالانکہ اکثریت پیر صاحب کے مریدوں کی تھی مگر کچھ دوسری ایسی شخصیات آکر پیر صاحب سے جیل میں ملتی تھیں جن میں سیاسی لوگ بھی ہوتے تھے، سندھ کے کئی معزز لوگ بھی ہوتے تھے اور وکیل بھی ہوتے تھے،ان لوگوں کے علاوہ سندھ کے ایسے لوگ جن کے پاس کھانے کو بھی کچھ نہیں ہوتا تھا وہ بھی بھٹک بھٹک کر رتنا گری جیل پہنچ کر پیر صاحب کی زیارت کرتے تھے۔ ایسا ایک سفر سنجھورے اور شہداد پور کے تین نوجوان فقیروں نے بھی کیا۔ یہ تینوں بغیر کسی سامان کے پیدل صحرا کو پھلانگتے ہوئے رتنا گری پہنچ گئے اور جیل میں اپنے مرشد سے ملاقات کی۔ بعد میں ان مریدوں نے بتایا کہ وہ جیل کے اندر پیر صاحب سے ملنے گئے تو دیکھا کہ پیر صاحب کرسی پر بیٹھے ہیں جبکہ جیل کا اسٹاف دوسری طرف دیکھ رہا تھا اور پیر صاحب ذوالفقار علی بھٹو کے والد سر شاہنواز بھٹو سے بات چیت کررہے تھے،یہ بات چیت کیس کے خلاف اپیل داخل کرنے کے سلسلے میں ہورہی تھی۔ بہرحال پیر صاحب اس مقرر مدت تک اس علاقے کی مختلف جیلوں میں قید کاٹتے رہے جیسے ہی ان کے آزاد ہونے کا وقت نزدیک آرہا تھا ، سندھ سے بڑی تعداد میں لوگ کلکتہ پہنچ گئے تھے، یہ ماہ رمضان تھا جب پیر صاحب اپنے گائوں ’’پیر جو گوٹھ‘‘ پہنچے، وہ سیدھے درگاہ پر آئے یہ 20 یا 27 رمضان کا دن تھا، وہ خود روزے سے تھے، وہ دن جمعہ کا تھا، پیر صاحب نے درگاہ میں آنے کے بعد جمعہ کا خطبہ بھی پڑھا اور جمعہ کی نماز کی امامت بھی کی۔ (جاری ہے)

تازہ ترین