• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
پہلے تو ایک خبر سنی تھی ”زبانی طیور کی“ مگر اب یہ خبر اخباروں اورٹی وی چینلز پر بہت کھڑکے دڑکے سے آ رہی ہے کہ برطانوی پارلیمینٹ کے سابق رکن چوہدری سرور کو پنجاب کاگورنر مقرر کیاجارہاہے اور اس سے ”ملحقہ“ خبر یہ ہے کہ چوہدری صاحب اس کیلئے اپنی دہری شہریت چھوڑنے والے ہیں۔ کچھ کالم ایسے ہوتے ہیں جو دل پر پتھر رکھ کر لکھنا پڑتے ہیں اور میرا یہ کالم اسی نوعیت کاہے۔ بات یہ ہے کہ چوہدری صاحب سے میری دیرینہ نیازمندی ہے۔ وہ ایک اعلیٰ درجے کے انسان ہیں اور یوں یہ بات مجھے دل پر پتھر رکھ کر لکھنا پڑ رہی ہے کہ اگر ان کی گورنری کے حوالے سے سامنے آنے والی خبر سچی ہے اور حکومت یہ فیصلہ کرچکی ہے تو یہ دونوں کے لئے نیک شگون نہیں ہے۔ مسلم لیگ (ن) کی حکومت کے لئے اس لئے نہیں کہ اس سے یہ تاثر ملتا ہے کہ ان کے پاس کوئی ایک بھی ایسا شخص نہیں جسے وہ پنجاب کا گورنر بناسکیں۔ پنجاب پاکستان کا سب سے بڑا صوبہ ہے اور یہاں ایک سے بڑھ کر ایک شخصیات موجود ہیں جن کی موجودگی میں صوبے کے لئے گورنرباہر سے ”امپورٹ“ کرنے کی ضرورت نہیں۔ میرا جی چاہتا ہے کہ میں یہاں کچھ نام تجویز کروں لیکن نہیں کر رہا تاکہ کسی ذہن میں یہ بات نہ آئے کہ میں ان شخصیات میں انٹرسٹڈ ہونے کی وجہ سے چوہدری صاحب کے گونر بننے کی ”افواہ“ یا حقیقت سے اختلاف کر رہا ہوں تاہم ایک بات ضرور کہنا چاہتا ہوں کہ پارٹی کے کسی ایسے فرد کو گورنر پنجاب بنائیں جس نے پارٹی کے لئے بے بہا خدمات انجام دی ہوں اور کڑے وقت میں ساتھ بھی نہ چھوڑا ہو۔ گورنر کا غیرسیاسی ہونا ضروری ہوتا ہے تو جسے گورنر مقرر کیا جائے اس سے پارٹی کے عہدے سے مستعفی ہونے کے لئے ہی کہا جاسکتاہے۔ ویسے بھی پنجاب کے موجودہ گورنر جنہیں مسلم لیگ (ن)نے ابھی تک قبول کیا ہوا ہے وہ کس دور میں غیرسیاسی رہے ہیں۔ میں تو یوں بھی یہ سمجھتا ہوں کہ کوئی شخص غیرجانبدار نہیں ہوتا۔ اس کے نظریات ضرور ہوتے ہیں اور جس شخص کا کوئی نظریہ نہ ہو اسے غیرجانبدار نہیں، منافق کہتے ہیں۔ بہرحال میرا خیال تھا کہ گورنر جنوبی پنجاب سے لیا جائے گالیکن مگر یہ تو سمندرپار سے لیا جارہا ہے۔ چوہدری صاحب کی ساری عمر برطانیہ میں گزری ہے۔ وہ پیپلزپارٹی کے بہت بڑے جیالے بھی رہے ہیں۔ مجھے سمجھ نہیں آتا ان کے نظریات اور پارٹی کے وفادار کارکنوں کے صبر کا امتحان کیوں لیا جارہا ہے؟
دوسری طرف برادر مکرم چوہدری محمد سرور صاحب کے لئے بھی یہ گورنری ایک بہت بڑے امتحان سے کم نہیں ہوگی۔ اس میں بہت سے ”مقامات ِ آہ و فغاں“ بھی آتے ہیں جن سے شاید چوہدری صاحب واقف نہیں ہیں۔ چوہدری صاحب! بہت معذرت کے ساتھ! لوگ یہ سوچیں گے کہ پہلے چوہدری صاحب بہتر مستقبل کیلئے پاکستان چھوڑ کربرطانیہ جا بسے اوراب ”بہتر مستقبل“ کیلئے برطانیہ کی شہریت چھوڑ کر واپس پاکستان آنا چاہتے ہیں۔ چوہدری صاحب ایسی خوبصورت شخصیت کے خوبصورت چہرے پر اس ”بہتر مستقبل“ کا یہ ”موکا“ بہت برا لگے گا اور پھر پاکستان میں کون سی حکومت ایسی ہے جسے ”بقائے دوام“ حاصل ہواہو۔ ایک وقت آئے گا جب آپ گورنر بھی نہیں رہیں گے اور ہاتھ سے برطانیہ کی ”جنت“ بھی نکل جائے گی۔ اس کے بعد آپ کو پھر گھٹنوں کے بل واپس برطانیہ جانا پڑے گا۔ آپ نے یہ شعر نہیں سنا ہوا؟
اس نقش پا کے سجدہ نے اتنا کیا ذلیل
میں کوچہٴ رقیب میں ہی سر کے بل گیا
خیر! ابھی فائنل کچھ بھی نہیں ہوا۔ میرا یہ سارا تبصرہ تو میڈیا کی خبروں کے حوالے سے ہے۔ تاہم بہتر ہوگا کہ ن لیگ کی حکومت اور چوہدری سرور صاحب ”وصال“ اور ”فراق“کے اس درمیانی مرحلے میں اچھی طرح غور و فکر کرلیں۔
میرے اس کالم کا دوسرا حصہ بھی مسلم لیگ (ن) کے حکومتی فیصلوں ہی کے حوالے سے ہے جن میں بہت تاخیر ہو رہی ہے۔ ابھی تک صوبوں کے گورنر نہیں لگائے گئے۔ برطانیہ میں واجد شمس الحسن اور امریکہ میں شیری رحمن اپنے فرائض بدستور انجام دے رہے ہیں۔ کینیڈا کے سفارتخانے میں ایک ایسے اعلیٰ افسر موجود ہیں جو سرکاری ملازمت کے باوجود ایک سیاسی جماعت کے لئے فیس بک پر مہم چلاتے رہے ہیں۔ مسلم لیگ (ن) کی حکومت سے عوام نے بہت زیادہ توقعات وابستہ کر رکھی ہیں اور ان عوام میں وہ لوگ بھی شامل ہیں جنہوں نے اس جماعت کو ووٹ نہیں دیئے تھے۔ اس کی ایک بڑی جہ وزیراعظم نوازشریف اور پنجاب کے وزیراعلیٰ شہباز شریف کا عوامی خدمت کا سابقہ شاندار ریکارڈ ہے۔ لہٰذا انہیں ہر قدم اگرچہ پھونک پھونک کر رکھنا ہوگا لیکن اس احتیاط کا مطلب تاخیر سے فیصلے کرنا بہرحال نہیں ہے۔ ان دنوں میں کچھ اہم اداروں کی سربراہی کے حوالے سے کچھ فیصلے ہوئے ہیں اور یہ فیصلے وہ ہیں جو بہت عجلت میں کئے گئے ہیں مگر پارٹی کے اس وعدے کے منافی ہیں کہ بڑے اداروں پر تعیناتی کا فیصلہ ایک بورڈ کیا کرے گا جبکہ جو فیصلے سامنے آئے ہیں ان میں اس اصول پر عمل نہیں کیا گیا۔ امید ہے مسلم لیگ (ن) کی عوامی حکومت آئندہ صرف وہ ”وعدے“ کرے گی جن پر عملدرآمد میں اسے کوئی مشکل درپیش نہ آسکتی ہو!
باقی رہیں بلوچستان، سندھ اور کے پی کے کی حکومتیں ،تو ان میں سے بلوچستان اور سندھ سے فی الحال کوئی اچھی خبر نہیں آئی۔ البتہ کے پی کے میں تحریک ِ انصاف کی حکومت ہے جس نے نوے دن میں کرپشن ختم کرنے کا وعدہ کیاہواہے۔ وعدے کی تکمیل میں باقی صرف چالیس دن رہ گئے ہیں۔ امید ہے اس کے بعد صوبے میں کرپشن کا نام و نشان تک نہیں رہے گا اور یوں یہ صوبہ باقی سب کے لئے ایک ماڈل کی حیثیت اختیار کرجائے گا۔
تازہ ترین