موجودہ حکومت برسر اقتدار آئی تو لوگوں کو ایسے خواب دکھائے گئے جیسے آتے ہی سو روز میں ڈالروں کی بارش ہو گی، سرمایہ کاری کا سیلاب آئے گا اورپاکستان میں مہنگائی ،کرپشن کی وجہ صرف اور صرف دو جماعتوں پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن کو ٹھہراتے ہوئے دعویٰ کیا گیا کہ ان کو سزائیں دلائیں گے اور اربوں ڈالر نکلوا کر قومی خزانے میں جمع کروائیں گے یہ خواب اور نعرے گزشتہ کئی سال سے ہر جلسے جلوس مظاہرے میں دہرائے جارہے تھے اسی امید پر ان کوحکومت میں لانے والے بھی دن رات یہی باتیں کرتے تھے کہ جب پی ٹی آئی حکومت میں آئے گی تو پاکستان تبدیل ہو جائے گا لیکن تین سال مکمل ہو چکے لیکن حکومت کے دعوے دعوےہی رہےہیں۔
ان تین سالوں میں سےحکومت نے مہنگائی سمیت ہر ایشو پر اتنے یوٹرن لئے کہ اب تو انکی کسی بات پر یقین کرنے کو کوئی تیار نہیں ۔
حکومت کی ڈولتی کشتی اس لئے بھی کئی بار بچ گئی کہ اس خطے میں حالات کچھ اچھے نہیں اندرونی اور داخلی طور پر بھی ملک کسی سیاسی ہلچل کا متحمل نہیں ہو سکتا ہے اوپر سے ہماری معاشی حالت جس کا ذمہ دار عمران خان ہمیشہ اسحاق ڈار کو قرار دیتے رہے یقیناً انھیں بھی اب آٹے دال کا بھاؤ معلوم ہو چکا ہے۔
افسوس اس بات کا ہے کہ سابقہ حکومتوں نے عدالتی نظام ہو یا ایف بی آریا نیب ایف آئی اے کوئی اصلاحات نہ لا سکے اور وہ یہی سمجھتے رہے کہ پنجاب سے تو انھیں کوئی نہیں ہرا سکتا ۔جس طرح پیپلز پارٹی سندھ پر قابض ہے افسوس سندھ میں عوام کا حال دیکھیں تو دل خون کے آنسوروتا ہے وہاں معاشی استحکام کے لئے بھٹو خاندان نے ووٹ لینے کے باوجود بھی انکی حالت نہ بدلی ،آج وہاں بد امنی کرپشن سڑکوں پانی کا حال ابتر ہے۔ معاشی حب ہونے کے باوجودکراچی کا ڈھانچہ کمزور ترین ہے۔ وہاں سرمایہ کار روتے ہیں، بجلی گیس کی حالت خراب تر ہو رہی ہے اسی طرح پنجاب میں جتنے وسائل مسلم لیگ کے پاس تھے اس تناسب سے کام کم ہوا اسی صورتحال سے فائدہ اٹھا کر پی ٹی آئی نے ووٹ لئے۔لیکن امید تھی کہ انکی آشیر باد سے سب ٹھیک ہو جائے گا ایسا نہیں ہوا انتہائی مایوس کن کارکردگی رہی ہے ۔
پی ٹی آئی کابڑا دعویٰ تھا کہ انکے آنے کے بعد تمام سرکاری محکموں سے کرپشن کاخاتمہ ہو جائے گا ، ٹیکس چوری ہو یا گیس یا بجلی چوری خواہ کتنا بھی بااثر فرد شامل ہو گا اسے نہیں چھوڑیں گے لیکن ان کے دعوے دعوے ہی رہے اور ایسا ہی ایک واقعہ لاہور کے قریب قصور ضلع میں ہوا جہاں موجودہ حکومتی وزیر اور پی ٹی آئی کے ایم این اے اور ان کے بھائی کے ڈیرے اور فیکٹری پر ایف آئی اے حکام نے کئی روز کی ریکی کے بعد ایف آئی اے نے پولیس اور متعلقہ چھاپہ ٹیموں کے ساتھ گرینڈ آپریشن کیا اس کامیاب آپریشن کے نتیجے میں ایم این اے کے بیٹے مین لائنوں سے گیس اور بجلی چوری کرتے پکڑے گئےجس پر ایف آئی اے نے مقامی تھانے میں انکے بیٹے کے خلاف ایف آئی آر درج کروائی ،ایف آئی اے حکام کو اس کامیاب چھاپے پرانھیں داد ملے گی لیکن اس کے برعکس چھاپہ مار ٹیم کے افسران او رملازمین کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا جاتا رہا کیونکہ اس چھاپے کے بعد اس ایم این اے اور انکے پورے گروپ نے پارٹی چھوڑنے کی دھمکی دی اور شدید ترین ناراضگی کا اظہار کیا کہ انھیں بدنام کیا جارہا ہے ۔
اس پر وفاقی وزیر توانائی ، پٹرولیم اور دیگر ارباب اختیار نے ہتھیار ڈال دیے اور افسوس یہ ہوا کہ مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی کی طرف سے بھی پارلیمنٹ اور صوبائی اسمبلیوں میں کسی ایم این اے اور ایم پی اے نے ایک جملہ تک نہ کہا ۔
حیرانگی اس وقت ہوئی جب متعلقہ وزارت نے ایم این اے کو خوش کرنے کے لیے مزید آگے جاتے ہوئے اس حوالے سے ایف آئی اے میں بنایا گیا اعلی سطحی یونٹ مکمل طور پر ختم کر دیا ہے ،،ان افسران اور ملازمین کو شاباش دینے کی بجائے تیس سے زیادہ ملازمین کو تبدیل کر دیاگیا ہے اس یونٹ کو ختم کر کے لیسکواور سوئی گیس کی حدودمیں ہر قسم کے چھاپوں سے روک دیا گیا ہے ۔ اس حوالے سے ایف آئی اے حکام افسران سے رابطہ کیا گیا کہ کیا صرف کمزور کے لیے چھاپے قانون ایف آئی اے ہے اور بااثر افراد کو کون پوچھے گا۔
ایف آئی اے افسران نے انتہائی مایوسی اور ناراضگی کا اظہار کیا کہ ہم نے اپنی جان پر کھیل کر چھاپہ مارا ہمیں ترقی اور پیسو ں کی آفر کی گئی لیکن ہم نہ بکے اور نہ ہی جھکے جب چھاپہ مارا اسکی ایف آئی آر درج ہوئی تو ایڈیشنل آئی جی اور ڈائریکٹر ایف ائی اے لاہور سمیت افسران بالا نے سراہا۔
لیکن جب ایم این اے نے اوپر ناراضگی کا اظہار کیا تو فوری اوپر سے حکم آیا کہ کیس کو دبایا جائے تو اس یونٹ کو ختم کرنے کے ساتھ ساتھ ساری چھاپہ مار ٹیم کو شہر بدر کر دیاگیا کیا یہ وہی کام نہیں ہوا جس کا وزیر اعظم ماضی کے حکمرانوں کو ذمہ دار ٹھہراتےرہے اور جلسے کرتے رہے کہ عام آدمی اور ایم این اے برابر ہو گا کہاں گئے وہ نعرے یہ صلہ ملا ہے ان افسران کوجنہوں نے بااثر افراد کو پکڑا تاہم ان متاثرہ افسران کا کہنا ہے کہ ہمارے اعلی افسران بہت کمزور ہیں وہ اپنے فائدے کے لیے چھوٹے افسران کو بلی چڑھا دیتے ہیں۔ ہم معمولی افسر ہیں ہماری کسی نے نہ سنی ہمارے ساتھ زیادتی کی گئی۔
یہ ایک ٹیسٹ کیس تھا جس میں پی ٹی آئی ناکام ہو گئی ہے لیکن افسوس یہ ہوا کہ اپوزیشن نے بھی آواز نہ اٹھائی اور ایم این اے کو بچایا دوسری طرف ان ایف آئی اے حکام کا شکوہ تھا کہ اس میں ذمہ داران لیسکواور سوئی ناردرن گیس کے مقامی افسران اور ملازمین کے خلاف کوئی کاروائی نہ ہوئی جو اس کاروائی کا ہمیشہ سے حصہ ہیں انھوں نے بتایا کہ سوئی گیس کو جو رپورٹ ایف ائی اے والوں نے دی اس کے مطابق ایم این اے کے خلاف گیس چوری کا بل بیس کروڑ روپے بنتا تھا لیکن صرف ایک کروڑ نو لاکھ روپے ڈالاگیا ہے اس طرح بجلی کا 50 لاکھ روپے بنتا تھا جو صرف 6 لاکھ روپے کے لگ بھگ ہی ڈالا گیا ہے اور اس کی بھی اقساط کر دی ہیں یہ ظلم نہیں تو اور کیا ہے ۔
ان افسران کا کہنا تھا کہ ہمیں جب یونٹ کا حصہ بنایا گیا تو کہا گیا کہ کوئی بھی پکڑا جائے وہ عام آدمی ہو یا بااثر اس کو عبرت کا نشان بنایا جائے کوئی معافی نہ دی جائے یہی وہ رویے ہیں جو ہمارے اداروں کی ترقی کی راہ میں رکاوٹ اور معاشی ترقی کی راہ میں حائل ہیں اگر ایسا ہی رہا تو معیشت کو دھچکے لگتے رہیں گے معاشی ترقی کے لیے سب اداروں کو مضبوط بنانا پڑے گا۔