سب سے اہم چیز انصاف ہے، اور جب کوئی معاشرے انصاف فراہم نہیں کرسکتا تو تباہی اور بربادی کی راہ پر چل نکلتا ہے۔
ہم یقیناً عہد ِ جہالت میں جی رہے ہیں ۔ شاید ہی عقل کی کوئی رمق کہیں دکھائی دیتی ہو۔ یہ چوروں، لٹیروں، ڈاکوئوںاور غارت گروں کا سنہری دور ہے۔
کسی بھی خرابی کی بات کرلیں، پاکستان میں ہر طرف اسی کا دور دورہ دکھائی دے گا۔ مجھے یہ کہتے ہوئے شرمندگی ہورہی ہے کہ اس کی اصل وجہ والدین کی طرف سے تربیت میں غفلت ، پولیس اور نظام انصاف کی کمزوری اور عوام کی طرف سے احتجاج کا فقدان ہے۔ گھر میں اخلاقی اقدار نہیں سکھائی جاتیں، نظام انصاف مجرموں کو سزا نہیں دے پاتا اور عوام کی لاتعلقی کا یہ عالم ہے کہ خواتین اور بچیوں کے ساتھ ہونے والے مظالم کے باوجود کوئی پتا تک نہیں کھڑکتا ۔ ہر طرف بے حسی کا سناٹا ہے ۔
مینار پاکستان پر پیش آنے والے واقعے میں چا رسو کے قریب آدمیوں نے ایک لڑکی پر حملہ کردیا۔ اُس کے ساتھ نازیباحرکات کیں کیوں کہ وہ ایک ٹک ٹاک ویڈیو بنا رہی تھی ۔ ایک اور واقعے میں ایک عورت اور اُس کی بیٹی کے ساتھ ایک رکشہ ڈرائیور اور اس کے ساتھی نے زیادتی کی۔ اور پھر نور مقدم قتل کیس۔ یہ سب خوف ناک واقعات ہیں۔ نور مقدم کیس میں متمول طبقے سے تعلق رکھنے والی خواتین کا نام آتا ہے ۔ اس پر شور مچا ہے ۔یہ واقعات حکومت اور وزیر اعظم کے علم میں ہیں ۔ ان میں کسی نہ کسی قسم کا انصاف ہوجائے گا۔ لیکن دوسری طرف ہزاروں ’’نور مقدم‘‘ ہیں جن کی کوئی شنوائی نہیں۔ جاگیردار کمر عمر لڑکیوں کی آبروریزی کرکے اُنہیں کھیتوں میں پھینک دیتے ہیں۔ والدین ’’عزت ‘‘کے نام پر اپنی بیٹیوں کو قتل کردیتے ہیں ۔ ایسا کرتے ہوئے وہ اپنے لیے حقیقی بے عزتی کا سامان کررہے ہوتے ہیں ۔ انسانی رویوں کے باب میں رسم و رواج سب سے زیادہ طاقت ور ہیں۔ ان میں سب سے خوف ناک رواج عزت کے نام پر قتل ہے ۔ اس رسم کو تعلیم عام کیے بغیر ختم نہیں کیا جا سکتا۔اور اس کیلئے کم از کم ایک نسل درکار ہے۔
جن لوگوں نے پاکستان کو لوٹا اور اسے ایک ناکام ریاست بننے کے دہانے تک پہنچا دیا، وہ سابق وزرائے اعظم اور اُن کے حواری ہیں ، اور آزاد گھوم رہے ہیں ۔ عدلیہ اُنہیں ضمانت پر رہا کردیتی ہے ۔ ایک ملک جہاں قوانین ناقص ہیں ، پولیس جرم پر چشم پوشی کرتی ہے ،اور جہاں عدلیہ اور اسے چلانے والوں کو نظام انصاف کے مقاصد کا ہی علم نہ ہو ، وہ اندھیر نگری ہے ۔ وہاں جہالت کا راج ہوتا ہے ۔
پاکستان جہالت کا سب سے بڑا شکار ہے ۔ جہالت کے دوسری طرف علم ہے ۔ مسلم علما نے اس سچ کا تعین کردیا کہ زندگی کے اصل مقاصد میں سے ایک علم حاصل کرنا ہے ، جہاں تک ممکن ہو ۔ ہمارا معاشرہ اس مقصد کے خلاف مورچہ زن ہے ۔ علم تجربے سے حاصل ہوتا اور سوچ سے پروان چڑھتا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ میں سوچنے اور سوچ کو پروان چڑھانے اور سوچتے رہنے پر بہت زور دیتا ہوں ۔ لوگ عالمی اخلاقیات ، فطری قوانین، انصاف اور صحیح اور غلط کی پہچان سے بہت دور ہیں ۔ وہ چوری، لوٹ مار اور آبروریزی کو ہاتھ آنے والا ایک موقع سمجھتے ہیں۔
انسانی رویے کے چار عامل (ترتیب صعودی کے ساتھ) مذہب، قانون، رسم و رواج اور انسانی فطرت ہیں۔ اب مذہب کا اثر بہت کمزورہے ۔ ریاست کا قانون نظر انداز کردیا جاتا ہے ۔ رسم ورواج بہت طاقت ور ہیں۔ اور انسانی فطرت کا آپ کچھ نہیں بگاڑ سکتے ۔ جس دوران وزیراعظم عمران خان ہمارے سامنے ایک نیا نظام تعلیم متعارف کرارہے ہیں، ہمیں یہ چیز ذہن میں رکھنی چاہیے اور صاحبان علم سے مشاورت کرنی چاہیے جو ان امور کو جانتے ہیں ۔ اُنہیں احساس ہوگا کہ یہ کام اُن کے وزیرتعلیم کی بساط سے کہیں بڑھ کر ہے ۔
جب تک ہماری پولیس فعال نہیں ہوتی، ہماری عدلیہ میں حقیقی معنوں میں تعلیم یافتہ اور روشن خیال لوگ نہیں آتے ، میرا خیال ہے کہ یہ برا وقت کہیں نہیں جارہا ۔ سب سے اہم چیز انصاف ہے ۔ جو معاشرہ انصاف فراہم کرنے سے قاصر ہوتا ہے ، تباہی اور بربادی اس کا مقدر بن جاتی ہے ۔ قبل اس کے کہ معاشرہ مکمل طور پر برباد ہوجائے ، ہمیں نظام انصاف کو سدھارنا ہوگا ۔
شر م و حیا پر بہت بات ہوچکی ۔ یہ بھی کہ خواتین کو کیا پہننا اور کیا نہیں پہننا چاہیے ۔ یا اُن کا طرزعمل کیسا ہو؟لیکن یہ تخصیص صرف عورتوں کے لیے ہی کیوں ؟ کیا شرم و حیا کی مردوں کو ممانعت ہے ؟ ہمیں لفظ ’’حجاب‘‘ کی روح کو سمجھنا ہوگا، گرچہ اس پر بہت بات کی جاتی ہے ۔ جہاں تک میں اسے سمجھا ہوں، حجاب کا حکم سب سے پہلے دو آدمیوں کے درمیان نازل ہوا تھا : نبی آخر زماں ﷺ اور صحابہ کرام ؓ میں سے ایک کے درمیان ۔ مسجد نبوی میں آنحضرت ﷺ کی کھانے کی دعوت کے بعد جب باقی رخصت ہوگئے تو چار اصحاب ٹھہرگئے اور آپﷺ سے گفتگو جاری رکھی ۔ کچھ دیر بعد سید البشر ﷺ کھڑے ہوگئے اور رخصت ہونے کا اشارہ کیا ۔ ایک صاحب اشارہ سمجھنے میں ناکام ہوگئے اورآپ ﷺ کے پیچھے چلتے گئے یہاں تک کہ ذاتی خلوت گاہ میں داخل ہونے لگے ۔ اس موقع پر نازل ہونے والے ارشاد ربانی کا مفہوم ہے کہ خدا نے اُن کے درمیان حجاب تان کر اُنہیں جدا کردیا ۔ میں نے اس مقام پر غور وفکر کیا ہے ۔ جو مفہوم میں سمجھ پایا ہوں اس کے مطابق حجاب کا مطلب خلوت گاہ اور نجی زندگی ہے۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)