• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
آج ملک میں عقلی تذبذب پھیلا ہوا ہے جسے کم ہی توجہ ملتی ہے، یہاں تک کے کلیدی مسائل پر یہ عوامی تصورات کو دھندلا رہا ہے اور ملک کو درپیش چیلنجز سے نبردآزمائی میں روڑے اٹکا رہا ہے۔ ریاض محمد خان نامی پاکستانی مصنف نے اپنی حالیہ کتاب ’افغانستان اور پاکستان‘ میں اس کا سنجیدہ طور پر جائزہ لیا ہے۔ اگرچہ یہ اس کتاب کا مرکزی موضوع نہیں ہے، ریاض خان نے کتاب میں جدت کے حوالے سے ہمارے معاشرے کے رویّے پر تفصیل سے بحث کی ہے، جو کہ ایک عقلی بحران کی نشاندہی کرتی ہے۔ اس کا ثبوت قومی پالیسیوں، سیاست اور ترجیحات پر عوامی گفتگو میں غیر معقولیت، پریشانی اور شدت سے ملتا ہے۔
چیلنجز اور مسائل پر ایک متوازن نقطہ نظر مرتب کرنے کی عقلی استعداد اور اس لئے فیصلہ کرنا اور واضح تجزیہ ایک مخصوص تنزلی کا شکار ہوا ہے۔ ان کے مطابق پاکستانی دانشور ایک حجت کرنے والے کے طور پر سمٹ کر رہ گئے ہیں، الیکٹرونک میڈیا اسے تقویت دے کر عوامی گفتگو کو پُرشور بنارہا ہے لیکن ضروری نہیں کہ یہ عقلمندی پر بھی مبنی ہوں۔ اگر ہم فی الوقت دانشورانہ منظرنامے کا سرسری جائزہ لیں تو سابق سیکریٹری کا تذکرہ اس ذلت آمیز حقیقت میں خاصی صدائے بازگشت کی گونج سناتا ہے۔ حقائق اور معلومات پر مبنی دلائل عوامی گفتگو میں بمشکل ہی نظر آتے ہیں۔ اس کے بجائے کئی مسائل پر عوامی سوچ دھندلاجاتی ہے۔ کھوکھلی گفتگو کو اکثر تقریر کے طور پر پیش کیا جاتا ہے اور نشریاتی میڈیا پر ہونے والا گروہی مباحثہ پیچیدہ حقائق کو درخشاں کرنے کے بجائے مبہم بناتاہے۔ معقول توجیہات کی کمی دھندلے تصورات اور نقصان دہ غلط فہمیوں کوجنم دیتی ہے جو کہ بدلے میں ایک ایسا ماحول بناتا ہے جو کہ اچھی پالیسی کے ارتقاء میں رکاوٹیں پیدا کرتا ہے۔
موجودہ عوامی گفتگو کے کم از کم چار اہم پہلو ہیں جو کہ زیادہ تر ایک دوسرے سے مشابہت رکھتے ہیں، اس تکلیف دہ مظہر کی نشاہدی ہوتی ہے۔ ملکی مسائل کے حل کیلئے پہلے پہلو کا جھکاوٴ اندرونی طور تلاش کئے جانے کے بجائے بیرونی طرف ہے۔ یہ موقف بیرونی طرفداری کا عکاس ہے، یہ نیا نہیں بلکہ گزشتہ برسوں میں کئی دفعہ بیان کیا گیا ہے۔ مخصوص طبقے کا جو طرز بیان ہوا کرتی تھا اب وہ متاثرہ عوامی رویے اور میڈیا مباحثوں میں سرائیت کرچکی ہے۔
اس قسم کی سوچ ایک ایسے طرز فکر سے پیدا ہوئی جسے منحصری طرز کا کہا جاسکتا ہے، جس میں زیادہ توجہ اس سوچ کو دی جاتی ہے کہ دوسرے ہمارے لئے کیا کرسکتے ہیں، بجائے اس کے کہ ہم اپنے خود کیلئے کیا کرسکتے ہیں۔ بیرونی امداد کو اضافی مدد کے طور پر دیکھنا ایک بات ہے لیکن جب اسے متبادل کے طور پر دیکھا جاتا ہے تو اس کے ضرر رساں نتائج مرتب ہوتے ہیں۔ اس سے یہ تاثر فوقیت پاتا ہے کہ اس کے بغیر پاکستان ترقی نہیں کرسکتا اور ہمارے ملک کی اہمیت کی بنا پر دنیا ہمیں قرض دے کر یہ یقینی بناتی ہے کہ ہم ناکام نہ ہوں اور یہ ناگزیر حقیقت ایک طرف ہو جاتی ہے کہ کوئی قوم اپنی کوششوں کے علاوہ ترقی نہیں کرسکتی۔ اس مظہر کی ایک عملی مثال ٹی وی پر ہونے والے مباحثے ہیں، جہاں پاکستان کی خارجہ پالیسی پر تجزیہ ہمارے مفادات اور اصولوں کی اصطلاح میں ہونے کے بجائے اس تناظر میں کیا جاتاہے کہ کونسا ملک ہمیں کتنی امداد دے رہا ہے۔ اس ضمن میں قومی قائدین کے سمندر پار کے دورے اہم سند کے طور پر دیکھے جاتے اور اسی طرح کی حیثیت ہمارے ملک میں ہونے والے بیرونی حکام کے دورے کو بھی دی جاتی ہے۔بیرونی امداد کے حوالے سے ایک تصور ہے کہ یہ قومی تبدیلی کا موجب بن کر اسے دوسرے ملکوں کی مہربانی کا عجز گزار اور رعایا بنادیتی ہے جو کہ درحقیقت ان کی جانب سے اپنے مفادات کو حاصل کرنے کیلئے اثرورسوخ حاصل کرنے کی سعی سے زیادہ اور کچھ نہیں۔ بیرونی ممالک پر انحصار معاشرتی ناراضی کو جنم دیتا ہے، اس لئے دوسری جانب بیرونی انحصار سے بیرونی تسلط کے خلاف دشمنی پنپتی ہے۔ بیرونی ذرائع پر ضرورت سے زائد انحصار منفی ضرب کار کا بھی کردار ادا کرتا ہے، قومی خودداری میں کمی ہوتی ہے اور یہ ملکی کمزوری کی علامت بنتا ہے لیکن بہت زیادہ تذبذب عوامی گفتگو میں پایا جاتا ہے یہاں تک کہ بیرونی انحصار پر تنقید کرنے والوں کو بھی اکثر یہ کہتے سنا گیا ہے کہ ان کے ملک کے حکمرانوں نے بیرونی معاہدوں میں اپنی بہت ہی کم قیمت لگائی۔ یہ بحث ایک لازمی نقطہ نظر اختیار کر بیٹھتی کہ بین الاقوامی امداد نہیں بلکہ قومی کاوش ملک کی تقدیر بدل سکتی ہے۔دوسری سوچ جس نے کئی عرصے سے خدشات و توقعات کو جنم دیا ہے کہ ریاست کو خدمت کرنے چاہئے لیکن ریاست وسائل ہمارے بل بوتے پر جمع نہ کرے۔ مثال کے طور پر جو لوگ ٹیکس دینے کی اہلیت رکھتے ہیں وہ اس کی ادائیگی میں مزاحمت کرتے اور ریاست سے نامعقول مطالبات کرتے ہیں لیکن مقامی وسائل بروئے کار لائے بغیر ریاست کا گزارہ نہیں ہوسکتا ہے، نہ ہی قیمت ادا کئے بغیر بنیادی سہولتوں کی فراہمی ہوسکتی ہے۔
پھر بھی عوامی گفتگو میں ان افراد کی جانب کم ہی توجہ دی جاتی ہے جن کے پاس ریاست کی آمدنی میں مناسب حصّہ جمع کرانے کی اہلیت ہے۔ ٹیکس کلچر کی عدم موجودگی اس تشریح کی وجہ اور نتیجہ دونوں ہیں جس کے مطابق ریاست کو فنڈز فراہم کرنے کی ذمہ داری ادا کئے بغیر ریاست سے صرف سہولتوں کی توقع رکھنا، جس کی وجہ سے ریاست اپنی پالیسیوں پر عمل پیرا ہوتی ہے۔ یہ تشریح ان ذاتی مفاد پرستوں کو فائدہ پہنچاتی ہے جو ٹیکس دینے سے انکار کرتے ہیں اور ٹیکس اصلاحات کی مخالفت کرتے ہیں۔ اس کا سب سے بڑا ضرر رساں نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ شہریوں پر بھی ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں اس خیال کی نفی ہوتی، اور کھاتے پیتے طبقے پر تو زیادہ ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں۔
غور کیجئے کہ وسائل جمع کرنے کے حکومتی اقدامات کو میڈیا عام طور پر پیش کرتا ہے، یہ اس طرح پیش کئے جاتے ہیں کہ جیسے عوام پر بم گرا دیئے گئے ہوں، یہ سمجھانے کے سلسلے میں کوئی کوشش نہیں کی جاتی کہ یہ اقدامات کیوں ضروری ہیں۔ ریاست کے کم ہوتے وسائل کے سیاق و سباق میں ٹیلی وژن مباحثوں میں ایسی پالیسی فیصلوں کو کم ہی جگہ ملتی ہے اور اسے بدلنا کیوں ضروری ہے۔ اس کے نتیجے میں ہونے والی گفتگو حقائق کے حوالے سے ہمارے فہم کو واضح کرنے کے بجائے مبہم بناتی ہے۔ ان اقدامات کے حوالے سے حکومتوں پر ذہنی انتشار طاری ہوجاتا ہے اور وہ عوامی ردعمل سے خوفزدہ ہو کر اصلاحات سے اجتناب میں ہی عافیت جانتی ہیں۔ اس مثال سے واضح ہوتا ہے کہ کس طرح ایک لاعلم گفتگو سرکاری پالیسی کو پیچیدہ بنادیتی ہے۔ عوامی گفتگو میں ایک عام تاثر ہوتا ہے کہ ملک کے زیادہ تر مسائل کسی اور کے تخلیق کردہ ہیں۔ مسائل کی وجوہات کا تعین کرکے انہیں حل کرنے کے بجائے ایک گروہ یا ادارے کی جانب سے دوسرے پر الزام تراشی کرنے سے اس رجحان کو تقویت ملتی ہے۔ سازشی کہانیاں گڑھنا عام ہوگیا ہے، تیزی سے پھیلتی ہیں اور شوق سے ان پر یقین کیا جاتا ہے اور یہ تکلیف دہ حقیقت کی تشریح کیلئے موزوں گردانی جاتی ہیں۔ دہشت گردوں کی جانب سے بم دھماکے کرنا ہم میں سے کسی ایک کا نہیں بلکہ کسی اور کا ہوگا۔ سازشی آراء کی حدود پر کم ہی سوالات کئے جاتے ہیں، ایک مسئلے کا الزام دوسرے پر ڈالنا ذمہ داریوں سے فرار کا طریق بن جاتی ہیں۔ درحقیقیت سازشی آراء اپنا درد سر دوسروں پر ڈالنے کا ذریعہ ہیں جن کی وساطت سے کام نہ کرنے کے بہانے بنائے جاتے ہیں۔ یہاں یہ کہنا مقصود نہیں کہ سازشیں اور فریب کاریاں پاکستان کی تاریخ میں نہیں دیکھی گئیں، لیکن ہر تقریباً مسئلے کو سازشوں سے تعبیر کرنا مسئلے کے حل کیلئے معاون ثابت نہیں ہوتا۔ یہ بے اختیار کئے جانے کی تشریح کو جلا بخشتا ہے۔ وجوہات کے بجائے قربانی کے بکروں کی تلاش مسائل کے حل کو ناممکن بنادیتی ہے۔چوتھا رجحان ملک کیلئے موافق پیشرفت کو تیزی سے تسلیم کرنے کی جانب یا کسی اور چیز پر فخر کرنے کی طرف جھکاوٴ ہے۔ عوام کی خوش مزاجی مقصدیت کی راہ میں سب سے بڑی دشمن ہے۔ ایسی قنوطیت عوامی مایوسی کی غماز ہے، جس سے موجودہ معاشی فضا کے باعث مزید اضافہ ہوا ہے جبکہ ملک میں توانائی صورتحال اور سیکورٹی خطرات پہلے ہی عوام کے صبر کا امتحان لے رہیں ہیں لیکن قنوطیت کے کلچر سے خود یقینی اور خود اعتمادی کے درمیان خلیج کی عکاسی ہوتی ہے۔ یہ امر خطرناک ہے کیونکہ یہ معاشرے کی مسائل حل کرنے کی اور بحرانوں سے نکلنے کی صلاحیت چھین لیتی ہے۔ مشکل وقت سے گزرنے کیلئے ذاتی اعتماد ضروری ہے لیکن اس کا نتیجہ یہ ہے کہ منفی رویے معاشرتی خصوصیات بن جاتے ہیں اور مایوسی اور محتاجی سے راہ فرار اختیار کرنے نہیں دیں گے۔
یہاں تک کہ ملالہ یوسف زئی بھی اندھیرے میں روشنی کی اہمیت کا اندازہ کرسکتی ہے، جس کا اندازہ ان کے اقوام متحدہ میں کئے جانے والے خطاب سے لگایا جاسکتا ہے۔ اگر امید اعتماد کو جنم دیتی ہے اور خود کو تبدیل کرنے کے ذرائع فراہم کرتی ہے تو یہ پاکستان کے سیاسی قائدین اور ممتاز دانشوروں پر اس مثبت تشریح کیلئے زور دے گی جو کہ موجودہ شک کی فضا پر سبقت لے جائے گا اور قومی بیداری کیلئے نفسیاتی ماحول کی راہ ہموار کرے گا۔کچھ حلقے خوف کے اس ماحول میں اس تشخیص کو غیر حقیقی اور ناقابل عمل قرار دے کر رد کردیں گے لیکن اس کا متبادل کیا ہے؟ ملک کی تقدیر بدلنے کا موقع اسی وقت ملے کہ جب عوام حالات بدلنے کیلئے اپنی قابلیت پر بھروسہ کریں۔ اس کے لئے تذبذب اور انکار کی موجودہ حالت کو خود کو درست کرنے اور ایمانداری سے تبدیل کرنے کی ضرورت ہے۔
تازہ ترین