• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

(گزشتہ سے پیوستہ)

ہم نے اپنے پچھلے کالم میں ذکر کیا تھا کہ کوٹ لکھپت ریلوے اسٹیشن پر دسمبر 1971 کی پاک بھارت جنگ میں بھارتی طیاروں کی بمباری سے اس تاریخی ریلوے اسٹیشن کی اصل عمارت تباہ ہوگئی تھی۔ بعض حوالوں کے مطابق ایک ہی خاندان کے گیارہ افرادشہید ہوگئے اور کچھ حوالوں کے مطابق اس سے بھی زیادہ شہری شہید اور زخمی ہوئے تھے، ایک اسسٹنٹ اسٹیشن ماسٹر بھی شہید ہوئے تھے۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ ہم نے جب ریلوے کے مختلف لوگوں سے رابطہ کیا تو پہلے تو کچھ نے حیرت کا اظہار کیا کہ1971 میں کوٹ لکھپت ریلوے اسٹیشن پر بمباری ہوئی تھی؟ دوسری طرف ریلوے کے کسی شعبہ کے پاس یہ ریکارڈ نہیں کہ اس بمباری میں کتنے افراد شہید ہوئے تھے۔ جب اس تباہ شدہ ریلوے اسٹیشن کی عمارت کی جگہ نئی عمارت تعمیر کی گئی تو ریلوے والوں کو چاہئے تھا کہ وہ اس عمارت میں 1971 میں شہید ہونے والے ایک ہی خاندان کے گیارہ افراد کی تصاویر یا ان کے نام کسی پتھر پر کندہ کر کے نصب کرتے۔ اس اسسٹنٹ اسٹیشن ماسٹر کی تصویر لگاتے اور اسٹیشن پر بمباری کی تاریخ درج کرتے مگر ریلوے کے کسی فرد کے پاس اس بمباری کی تاریخ تک نہیں ہے۔ ہم بھرپور کوشش کے بعدبھی ریلوے حکام سے یہ معلومات حاصل نہیں کر سکے، ہم خود مختلف جگہوں پر جا کر ریسرچ کر رہے ہیں۔ آئندہ کسی کالم میں بھارتی بمباری کی تاریخ اور حملے میں شہید افراد کے نام بھی تحریر کریں گے ویسے بھی سی بی آئی سسٹم جو کہ لاہور کے مختلف ریلوے اسٹیشنوں پر لگایا جا رہا ہے، اس کے بعد کوٹ لکھپت ریلوے اسٹیشن کو مرکزی حیثیت حاصل ہو جائے گی اور والٹن ریلوے اسٹیشن اور جیا بگا ریلوے اسٹیشن صرف فلیگ ریلوے اسٹیشن رہ جائیں گے،کوٹ لکھپت ریلوے اسٹیشن پر بھارتی فضائیہ کے طیارے نے جو بم پھینکا تھا، اس سے ریلوے اسٹیشن کی قدیم عمارت مکمل طور پرتباہ ہوگئی تھی اور ایک بہت بڑا اور گہرا گڑھا پڑ گیا تھا جس کو ریلوے والوں نے پر کرنے کی بجائے تہہ خانہ بنا دیا ہے، کاش اس وسیع تہہ خانے میں ہی اس ریلوے اسٹیشن پر شہید ہونے والوں کے نام اور تاریخ درج کردی جاتی۔ یہ اگر گوروں کے پاس ہوتا تو وہ یقیناً پوری تاریخ اس ریلوے اسٹیشن پر لکھ چھوڑتے۔ خیر ہمیں تو اندازہ نہیں تھا کہ 40 ، 50 برسوں میں ریلوے اپنی تاریخ اور تمام قیمتی آلات اور اراضی تک کھو چکا ہے جب ہم نے یہ ریلوے اسٹیشن دیکھا تھا۔ یقین کریں ہر مشینری، آلات اپنی جگہ موجود اور نظام بھی بہترین تھا۔

اس سے قبل 6ستمبر 1965 کی پاک بھارت جنگ میں پہلے ہی روز بھارتی فضائیہ نے وزیر آباد ریلوے اسٹیشن پر مسافر ٹرین پر بمباری کر دی تھی جس میں ڈاکٹر طوسی شہید ہوگئیں تھی ہم نے جب ریلوے کے بعض افسروں کو بتایا تو وہ حیرت زدہ رہ گئے۔ امریکہ اور یورپ کے کئی ممالک میں ریلوے کی تاریخ کا جائزہ لیںتو وہاں آج بھی سو سو برس قدیم اسٹیم انجن چلائے جا رہے ہیں۔ ہمارے ہاں میاں میر چھائونی کے میاں میر ریلوے اسٹیشن پر 1944کا اسٹیم انجن کھڑا ہے جو آج بھی استعمال کے قابل ہے، اس کو ضائع کیا جا رہا ہے۔ پچھلے ہفتے ہم بتا رہے تھے کہ جیا بگا اور لاہور کے دیہاتی اسٹیشنوں سے جو گجر دودھ لاتے تھے اور ہر ا سٹیشن ماسٹر اور اسسٹنٹ اسٹیشن ماسٹر کو سیر دو سیر دودھ بھی دیتے تھے جس سے اس چھوٹے اسٹیشن کا عملہ دن بھر چائے بنا کر پیا کرتا تھا۔ سو یہ گجر لاہور ریلوے ا سٹیشن کے پلیٹ فارم پر پانی کی ٹونٹیوں سے دودھ میں پانی ملا کر دودھ پورا کر لیا کرتے تھے۔پھر ریلوے کے ایک جی ایم نے گوجروں پر پابندی لگا دی کہ وہ اپنے ولٹویوں کے ساتھ سفر نہیں کرسکتے۔ حالانکہ ان گوجروں سے ریلوے کو اچھی خاصی آمدنی ہوتی تھی۔بہر حالجیابگا ریلوے اسٹیشن کے بعد ہم رائے ونڈ کے تاریخی ریلوے اسٹیشن پر چلے گئے۔ ہم کوئی چالیس برس بعد یہاں آئے تھے، سارے علاقے کا نقشہ ہی بدل چکا تھا۔ دنیا کے تمام ممالک نے پچھلے چالیس برس میں بہت ترقی کی اپنے اپنے علاقوں، دیہاتی شہری علاقوں اور سفری سہولتوں کو بہتر سے بہترین بنایاجبکہ ہم نے ان 40 برس میں اپنے تمام علاقے غلیظ ترین اور سفری سہولتیں بدترین کر دی ہیں۔ ہم جب رائے ونڈ کے تاریخی ریلوے اسٹیشن پر پہنچے تو ہمارا خیال تھا یہاں کی سڑکیں صاف ستھری ہوں گی کیونکہ یہاں برس ہا برس سے تبلیغی اجتماع ہو رہا ہے مگر ٹوٹی پھوٹی سڑکوں کے بعد ہم رائے ونڈ ریلوےا سٹیشن کی نئی بدشکل لال اینٹوں والی عمارت پر پہنچے، اس نئی عمارت میں لاہور ریلوے اسٹیشن کی خوبصورت عمارت کو بھونڈے انداز میں کاپی کرنے کی کوشش میں صرف دو مینار بنائے گئے ہیں حالانکہ رائے ونڈ جنکشن ریلوے اسٹیشن کی قدیم عمارت جو کہ اس نئی بدنما عمارت کے بالکل سامنے ہے، زیادہ خوبصورت اور دلکش ہے، جو 1922 میں انگریزوں نے بنائی تھی۔ یہ اب لاہور کا واحد ریلوے ا سٹیشن رہ گیا ہے جس کا کیبن روم انگریزوں کے دور کا آج بھی اصل حالت میں ہے۔ یہ سارا کمرہ اور اس کی چھت تک لکڑی کی ہے۔ اس طرح خوبصورت کیبن روم اب ختم ہو چکے ہیں اور اس کی جگہ ریلوے نے بدنما کیبن رومز بنا دیئے ہیں۔ رائے ونڈ جنکشن ریلوے ا سٹیشن پر نئی عمارت بنانے کی بالکل ضرورت نہیں تھی۔ اس قدیم خوبصورت کے سامنے ریلوے کا پرانا بکنگ آفس اور اکانومی کلاس کا ویٹنگ روم ہے جس کی دیکھ بھال نہیں کی گئی اور یہ تاریخی عمارت بھی قریباًآدھی زمین میں دھنس چکی ہے۔ آج بھی اس تاریخی عمارت پر لکڑی کی انتہائی خوبصورت جالیاں لگی ہوئی ہیں۔ (جاری ہے)

تازہ ترین