• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پنجاب حکومت نے گڈ گورننس اور حکومتی پالیسیوں پر عملدرآمد کا عمل تیز کرنے کیلئے سیکرٹریوں، کمشنروں اور ڈپٹی کمشنروں کے تبادلے کئے ہیں۔ چیف سیکرٹری جواد رفیق ملک نئی ٹیم کے ذریعے سروس ڈلیوری کو بہتر بنانے کیلئے کوشاں ہیں۔ وزیراعظم عمران خان کا حالیہ دورہ لاہور کافی دن پہلے متوقع تھا لیکن چیف سیکرٹری کوکورونا ہونے کی وجہ سے اس میں تاخیر اور ان کی صحت کے بعد گرین سگنل ملتے ہی وزیراعظم لاہور پہنچےجن کو او ایس ڈی بنایا گیا، ان پر صاف ستھرا نہ ہونے کے الزامات ہیں لیکن صاف ستھرے کون ہوتے ہیں، اُس کی تشریح اور توجیہہ صرف حکومت ہی کر سکتی ہے۔ پنجاب کی بیوروکریسی میں حالیہ تبادلوں اور چیف سیکرٹری کی نئی ٹیم کے حوالے سے مختلف آراء پائی جا رہی ہیں۔ سب سے پہلے ڈپٹی کمشنر لاہور کی ہی بات کر لیتے ہیں۔ 32ویں کامن کے مدثر ریاض ملک کو ہٹا کر ان کی جگہ گریڈ 18کے 37ویں کامن کے جونیئر افسر عمر شیر چٹھہ کو ڈی سی لاہور لگایا گیا ہے۔ جونیئر افسر کو ڈی سی لاہور لگانے پر تنقید شہباز شریف دور میں بھی ہوئی تھی جب گریڈ 18کے احد چیمہ کو لاہور کا ڈپٹی کمشنر تعینات کیا گیا تھا۔ چند سینئر افسران کا خیال ہے کہ احد چیمہ جونیئر افسر ہونے کے باوجود (DOER) تھے اور حکومتی پالیسیوں پر عملدرآمد کرانا خوب جانتے تھے۔ لاہور کو چلانا مشکل کام ہے اور جونیئر افسر بسااوقات پریشر کو برداشت نہیں کر سکتا۔ لاہور میں پورے صوبے کی بیوروکریسی کے علاوہ وزیراعلیٰ، کابینہ اور پنجاب اسمبلی موجود ہے۔گریڈ 18کے افسر بطور ڈپٹی کمشنر دوسرے اضلاع میں تو چل جاتے ہیں لیکن لاہور اور دیگر ڈویژنل ہیڈ کوارٹرز میں ڈی سی اکثر گریڈ 19کے ہی لگائے جاتے ہیں۔ اب دیکھتے ہیں کہ عمر شیر چٹھہ بطور ڈی سی میانوالی وزیراعظم عمران خان کے اعتماد پر پورا اُترنے کے بعد تخت لاہور اور عوام کی توقعات پر کس حد تک پورا اُترتے ہیں؟ گوجرانوالہ کے سابق ڈپٹی کمشنر سہیل خواجہ جن پر الزامات لگتے رہے کہ وہ دو تین کروڑ روپے دے کر ڈی سی تعینات ہوئے ہیں اور طاہر خورشید (ٹی کے) کے دست راست ہیں، کی جگہ گریڈ 19کے سابق ڈی سی لاہور دانش افضال کو تعینات کیا گیا ہے۔ حکومت کی نظر میں ان کی شہرت اچھی ہے کیونکہ انہوں نے بطور ڈائریکٹر فوڈ تعیناتی کے دوران گندم کے حوالے سے کرائسز پر اچھے طریقے سے قابو پایا جس میں بلاشبہ انہیں سیکرٹری خوراک اسد الرحمٰن گیلانی جو کہ انتہائی شریف النفس اور ایماندار افسر ہیں، کی رہنمائی حاصل رہی۔ گوجرانوالہ لاہور کی نسبت کافی چھوٹا ضلع ہے۔ دانش افضال کے پاس ڈی سی لاہور اور سرگودھا کا تجربہ ہے، اس لئے انہیں گوجرانوالہ ضلع چلانے میں کوئی خاص دقت پیش نہیں آئے گی۔ میرے لئے ان تبادلوں میں جو ایک چیز قدرے حیران کن ہے ‘وہ سیکرٹری پرائمری ہیلتھ سارہ اسلم کی بطور کمشنر ڈیرہ غازی خان تعیناتی ہے۔ اُن کی یہ تعیناتی سزا کے طور پر ہے یا ڈیرہ غازی خان میں درپیش چیلنجوں کا مقابلہ کرنے کے لیے یہ تبادلہ کیا گیا ہے یا پھر سابق سیکرٹری پرائمری ہیلتھ اور موجودہ کمشنر لاہور کیپٹن (ر) محمد عثمان کی سارہ اسلم کے خلاف لابی اپنا کام کر گئی ہے ، ان حقائق کو نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔ پنجاب کی افسر شاہی میں یہ بات بہت زیادہ مشہور ہے کہ سارہ اسلم کی بطور سیکرٹری ہیلتھ تعیناتی کمشنر لاہور کو سخت ناگوار گزری کیونکہ انہیں ہٹا کر سارہ اسلم کو لگایا گیا۔ ویسے تو پہلی مرتبہ پنجاب کے دو ڈویژنوں سرگودھا اور ڈیرہ غازی میں خواتین کمشنر تعینات ہو گئی ہیں لیکن بیوروکریسی میں یہ خیال پایا جاتا ہے کہ سارہ اسلم بطور سیکرٹری پرائمری ہیلتھ بہت اچھا کام کر رہی تھیں، انہیں ہٹانا زیادتی ہے۔ مجھے ایک سینئر افسر نے بتایا کہ سارہ اسلم تبادلے پر خوش نہیں تاہم چیف سیکرٹری کا اس میں کوئی کردار نہیں لیکن وہ اپنی نئی ٹیم بنانے میں مکمل بااختیار ہیں تو تبادلہ روک بھی سکتے ہیں۔ پاکستان ایڈمنسٹریٹو سروسر کی مریم خان جو ایڈیشنل سیکرٹری سٹاف برائے چیف سیکرٹری تھیں کو سیکرٹری کوآرڈی نیشن برائے وزیر اعلیٰ تعینات کیا گیاہے۔ مریم خان پرنسپل سیکرٹری برائے وزیر اعلیٰ عامر جان، جو محکمہ داخلہ میںایڈیشنل سیکرٹری جوڈیشل کام کر چکے ہیں، کے ساتھ ڈپٹی سیکرٹری جوڈیشل کام کر چکی ہیں۔ کمشنرملتان جاوید اختر محمود کواو ایس ڈی بنا دیا گیا ہے۔

وزیراعظم کے کلین اینڈ گرین پاکستان کے ویژن کے تحت انہوں نے ریکارڈ شجر کاری کروائی۔ کمشنرکی سطح پر پہلی مرتبہ عوام کیلئے اوپن ڈور پالیسی رکھی جو پہلےکبھی دیکھنے میں نہیں آئی۔ بورڈ آف ریونیو کی تمام ریفارمز اور دیگر انشی ایٹوز میں ملتان ڈویژن صوبے میں پہلے نمبر پر رہا، سینئر ممبر بورڈ آف ریونیو کی جمع بندیوں سے زمینوں کے مالکان کے نام نکال کر کمپیوٹرائرزڈ ریکارڈ میں درج کرنے جیسا کٹھن کام ہو یا پھر لاہور کے بعد صوبے میں پہلی مرتبہ گردوں کی پیوندکاری اور آنکھوں کے کارنیا کا ٹرانسپلانٹ، ملتان ڈویژن پنجاب میں پہلے نمبر پر رہا۔ عوام کو ریلیف دینے کیلئے صرف 11ماہ تعیناتی کے دوران ریکارڈ 309عدالتی فیصلے کئے۔ پنجاب حکومت نے گریڈ 19کے ایڈیشنل سیکرٹری اور صوبائی سول سروس کے افسر عابد کریم کو ڈپٹی کمشنر تعینات کیا ہے۔ وہ اس سے قبل شہباز شریف کے (BLUE EYED)پی ایس او رہے ہیں۔ان کا تعلق بوریوالہ سے ہے۔ جیسے ٹی کے گروپ پر پیسے بنانے کے الزامات تھے اسی طرح ان کے بھائی پرہائوسنگ کالونیاں بنا کر ان کی مد دسے مال بنانے کے الزامات لگائے جا رہے ہیں۔ میں پہلے ہی کہہ چکا ہوں کہ کون کتنا صاف ستھرا ہے‘ یہ اللہ اور حکومت ہی جانتی ہے۔ اب ذراسٹیبلشمنٹ ڈویژن کی طرف سے سرکاری ملازمین کو گورنمنٹ سرونٹس کنڈکٹ رولز 1964میں لگائی گئی قدغنوں کےتحت وارننگ دی گئی ہے جس میں سرکاری ملازمین کو سوشل میڈیا اور دیگر ذرائع ابلاغ ایسےبیانات جاری کرنے جن پر حکومت کو شرمندگی اٹھانا پڑے، پاکستان کی آئیڈیالوجی، سالمیت، حکومتی پالیسیوں اور فیصلوں کے خلاف بات کرنے، قومی سلامتی اور غیر ملکیوں کے ساتھ تعلقات خراب کرنے، تواہین عدالت یا ان بیانات میں فرقہ وارانہ تشہیر نظر آنے پر سخت انضباطی کارروائی کی جائے گی۔ یہ پالیسی پہلے جولائی 2020میں آئی تھی لیکن اس حوالے سے کوئی واضح ہدایات نہیں تھیں۔ اب اس پالیسی کی وضاحت کی گئی ہے۔ سرکاری ملازمین کو ایک طرف سوشل و دیگر میڈیا پر روکا گیا ہے اور ساتھ ہی تعمیری خیالات ظاہر کرنے کی حوصلہ افزائی بھی کی گئی ہے، لیکن یہ فیصلہ کیسے ہو گا کہ یہ بات تعمیری ہے یا تخریبی ہے؟ اس طرح کی وارننگز معاملے کاحل نہیں۔ مانیٹرنگ میکنزم اور ریگولیشنز کی عدم موجودگی میں اس کا شاید فائدہ نہ ہو۔ سرکاری ملازمین کے سوشل میڈیا میں حصہ لینے کے لیے یا تو نئے رولز بنائے جائیں یا پھر گورنمنٹ سرونٹس کنڈکٹ رولز 1964میں ترامیم کرنا ہوں گی۔ سوشل میڈیا کے ڈائنامکس کو سمجھنا ہو گا اس جدید دور میں کیا بیوروکریٹس سے یہ امید کی جا سکتی ہے کہ وہ سوشل میڈیا پر کچھ نہیں کریں گے؟ سوشل میڈیا پالیسی اور ریگولیشنز بناکر تمام سٹیک ہولڈرز سے شیئر کی جائیں۔ اسٹیبلشمنٹ ڈویژن کی یہ وارننگ اور پالیسی مبہم ہے جو لانگ ٹرم نہیں چل سکتی‘ اس کے لئے جامع پالیسی کی ضرورت ہے۔

تازہ ترین