1986ء میں حِسین و جمیل اداکارہ نیلی نے فلمی دُنیا میں جب قدم رکھا، تو اردو فلموں کا وہ سنہرا دور ختم ہوچکا تھا، جو 70ء کی دہائی اور 1984ء تک عروج پر تھا۔ نیلی نے اس مشکل دور میں اپنے فن اداکاری کے ایسے جوہر دکھائے کہ ان کی شہرت اردو اور پنجابی فلموں کے حوالے سے ہر عام و خاص تک پہنچ گئی۔
حیدرآباد سندھ سے گریجویشن کرنے والی نیلوفر جب اپنی فیملی کےساتھ لاہور گئیں تو معروف ہدایت کار یونس ملک سے ایک تقریب میں ان کا تعارف ہوا، ان دِنوں وہ اپنی پنجابی فلم ’’آخری جنگ‘‘ کے لیے دو نئی لڑکیوں کی تلاش میں تھے، نیلوفر کی صورت میں انہیں اپنا مطلوبہ چہرہ مل گیا۔ اس طرح فلم میں وہ ’’نیلی‘‘ کے نام سے اداکار غلام محی الدین کے ساتھ کاسٹ ہوگئیں۔
ان کے ساتھ اداکارہ نادرہ کی بھی یہ پہلی فلم تھی۔ اس دور میں زیادہ تر ڈبل ورژن اور پنجابی فلمیں بن رہی تھیں۔ کردار نگاری کے حوالے سے نیلی کی پہلی فلم کوئی قابل ذکر نہ تھی۔ 1987ء میں ہدایت کارہ سنگیتا نے اپنی اردو فلم ’’منے کی قسم‘‘ میں نیلی کو ایک اہم کردار میں کاسٹ کیا۔ فلم میں محمد علی اور بابرہ شریف جیسے وراسٹائل فن کار بھی شامل تھے۔ نیلی کے ہیرو اداکار فیصل تھے۔ اس فلم میں نیلی کی کردار نگاری کو بے حد پسند کیا گیا، جس کے اعتراف میں انہیں سال کی بہترین معاون اداکارہ کا نگار ایوارڈ دیا گیا۔ فلم کی کام یابی کے ساتھ اردو باکس آفس پر نیلی کی ڈیمانڈ میں اضافہ ہوگیا۔ ہدایت کار اقبال کشمیری کی سپرہٹ میوزیکل ایکشن فلم ’’چوروں کی بارات‘‘ میں وہ ڈبل رول میں بھرپور انداز میں جلوہ گر ہوئیں، فلم کی کاسٹ میں ندیم، ششما شاہی اور شیوا، جس کا تعلق نیپال سے تھا، وہ بھی شامل تھے۔
سلور اسکرین پر نیلی کے سراپا نے ایسے رنگ بکھرے کہ فلم بین ان کے نام اور کام کے دیوانے ہوگئے۔ نیلی کی گہری آنکھیں، تیکھے نقوش خاص طور پر ان کی شیریں آواز، اور چال ڈھال نے دیکھنے والوں پر سحر طاری کردیا۔ حسن و جمال کے ساتھ ان کی شخصیت میں ایک وقار کی جھلک نظر آتی تھی۔ بے حد سلیس اردو بولتی تھیں، باادب اور باذوق تھیں، جو کوئی ان سے ایک بار مل لیتا، ان کا گرویدہ ہوجاتا تھا۔ فلمی ماحول میں اپنے تمام معاملات خود طے کرتیں ، کبھی ان کے ساتھ کوئی سیکریٹری یا منیجر نہیں دیکھا گیا، ایک مکمل پروفیشنل آرٹسٹ جو بڑے اعتماد کے ساتھ فلم سازوں سے بات چیت اور ایگری منٹ کرتی تھیں۔
جہاں تک اس کی خود اعتمادی کی بات ہے، تو رات کو دو بجے شوٹنگ سے فارغ ہوکر اکیلی اپنی گاڑی لے کر گھر جاتی تھیں، بعض لوگوں سے فاصلہ بھی رکھتی تھیں، ایسے لوگ اس کے بارے میں منفی پروپیگندہ بھی کرتے تھے کہ وہ نک چڑی ہے، جھگڑالو اور ضدی ہے، لیکن وہ ایسے پروپیگنڈے کی پروا کیے بغیر اپنا کام کرتی رہیں، سینئر اور لیجنڈ ہدایت کار ان کے بارے میں بے حد اچھی رائے کا اظہار کرتے تھے، ان کی نظر میں وہ کردار نگاری کے حوالے سے بہت بڑی پرفارمر تھیں۔ اکثر لوگ ان کے بارے میں یہ کہتے تھے کہ بابرہ شریف کے بعد اگر صحیح معنوں میں کوئی اداکارہ آئی ہے تو وہ نیلی ہے۔ یہ بات خود نیلی کے لیے بہت بڑا اعزازتھا۔
اپنی پہلی فلم آخری جنگ سے آخری فلم صنم کی ریلیز تک تقریباً 104فلموں میں اداکاری کی اور مختلف نوعیت کے کرداروں میں انہوں نے اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوایا۔ سینئر ہدایت کار نذر الاسلام نے نیلی کو اپنی فلم ’’میڈم باوری‘‘ میں ایک ایسا کردار سونپا جو ان کی پہچان بن گیا۔ یہ سپرہٹ فلم 1989ء میں ریلیز ہوئی، جاوید شیخ ، پہلی بار اس فلم میں نیلی کے مد مقابل ہیرو آئے اور اس فلم سے نیلی جاوید شیخ کی جوڑی باکس آفس پر مقبول ہوگئی۔
ان دونوں فن کاروں نے بہ طور ہیرو ہیروئن 31فلموں میں کام کیا۔ رنگیلے جاسوس، امیر خان، انٹرنیشنل گوریلے، کالے چور، خطروں کے کھلاڑی، تین یکے تین چھکے، درندگی، محبت کے سوداگر، عابدہ، زمانہ، آخری مجرا، مشکل، چیف صاحب اور جو ڈر گیا وہ مر گیا کے نام قابل ذکر ہیں۔ اس جوڑی کی مقبولیت بڑی اسکرین سے چھوٹی اسکرین تک بھی پہنچی، جاوید شیخ نے پی ٹی وی کے لیے ایک بہت خُوب صورت میوزیکل سیریل پروڈیوس کی، جس میں نیلی ان کی ہیروئن بنیں۔ 5اقساط پر مبنی یہ میوزیکل سیریل ’’خوبصورت جہاں‘‘ کے نام سے 1994ء میں پیش کی گئی، جس کی عکس بندی اسکاٹ لینڈ لندن کی خوب صورت لوکیشن پر ہوئی۔
1989 میں ریلیز ہونے والی فلم میڈم باوری میں نیلی کی کردار نگاری کو فلم بینوں نے بے حد سراہا۔ اس فلم میں انہیں سال کی بہترین اداکار کا نگار ایوارڈ بھی ملا، فلم کی کام یابی کے بعد وہ ہر دوسری فلم میں کاسٹ ہونے لگیں۔ اپنی ہم عصر اداکارائوں میں وہ اس وقت کی مصروف ترین اداکارہ بن گئیں۔ نیلی نے ہمیشہ فلموں میں کردار کو اہمیت دی۔ وہ صرف ہیروئن بن کر لوگوں کے دلوں میں نہ رہیں، بلکہ مختلف کرداروں میں فلم بینوں نےانہیں پسند کیا۔ ہدایت کار ایم مقبول کی فلم درندگی میں وہ اپنی ہیروئن شپ کو دائو پر لگاتے ہوئے پہلی بار ’’ینگ ٹو اولڈ‘‘ کردار میں نظر آئیں، جب کہ اس دور میں ہیروئن کے کردار کرنے والی اداکارائیں اس طرح کے کرداروں کو اپنے کیئریئر کے لیے رسک سمجھتی تھیں، لیکن نیلی نے اس رسک کو لیتےہوئے اس فلم میں یاد گار کردار نگاری سے شائقین فلم کے دل چیت لیے۔
سینئر اداکارہ و ہدایت کارہ شمیم آرا نے اس فلم میں ان کی اداکاری سے متاثر ہو کر اپنی فلم ’’آخری مجرا‘‘ میں انہیں ایک بار پھر ’’یوینگ ٹو اولڈ‘‘ کردار میں کاسٹ کیا۔ یہ ایک طوائف کا کردار تھا، جس میں وہ فن کی ان بلندیوں پر نظر آئیں، جہاں کبھی صبیحہ خانم فلم شکوہ اور رانی فلم انجمن میں نظر آئیں ۔1994ء میں اس فلم میں عمدہ کردار نگاری کے لیے انہیں سال کی بہترین اداکارہ کا نگار ایوارڈ ملا۔
ہدایت کار رضا میر نے اپنی فلم ’’انہونی‘‘ میں نیلی کو ندیم کے مقابل کاسٹ کیا۔ یہ ایک اعلیٰ معیاری فلم تھی، لیکن اس کی کہانی میں کچھ ایسی الجھنیں تھیں، جو عام شائقین فلم سمجھ نہ پائے اور فلم ناکام ہو گئی۔ اداکارہ سونیا نے بھی اس فلم میں ایک اہم کردار ادا کیا تھا۔ ہدایت کار محمد جاوید فاضل نے جب ماضی کی کام یاب گھریلو فلم بزدل دوبارہ ’’زمانہ‘‘ کے نام سے بنائی تو نیلی اور جاوید شیخ نے اس میں مرکزی کردار کیے۔ نیلی کی کردار نگاری اس فلم کی ہائی لائٹ ثابت ہوئی اور انہوں نے سال کی بہترین اداکاہ کا نگار ایوارڈ اپنے نام کر لیا۔
1995 میں جاوید شیخ کی ذاتی پروڈکشن ’’مشکل‘‘ ایک لاجواب منفرد اور اصلاحی فلم تھی، جس میں نیلی اور جاوید شیخ نے اپنی عمدہ اور فطری اداکاری سے عوام کے دل جیت لیے تھے۔ معصوم بچوں کے اغوا کے موضوع پر بننے والی اس فلم کے بارے میں بین الاقوامی شہرت کے حامل سماجی رہنما عبدالستار ایدھی مرحوم نے جاوید شیخ کی بے حد تعریف کی تھی۔ سینما ہائوسز میں فلم دیکھتے ہوئے خواتین کے آنسو نِکل آئے تھے۔اوربعض جذباتی مناظر دیکھ کر فلم بینوں کے بھی دِل دہل گئے تھے۔اس فلم کا شمار پاکستان کی کلاسیکل فلموں میں ہوتا ہے۔ اسی سال نمائش ہونے والی ہدایت کار اقبال کشمیری کی فلم ’’جو ڈر گیا وہ مر گیا‘‘ میں نیلی نے عورت کا منفی کردار کر کے سب کو چونکا دیا۔ اس فلم میں عتیقہ اوڈھو، ندیم اور جاوید شیخ بھی اہم کرداروں میں دیکھے گئے۔
اس سال کی تیسری اہم فلم ’’جیوا‘‘ تھی، جس میں انہوں نے ایک سکھنی کا شوخ و چنچل لڑکی کا کردار ادا کر کے فلم بینوں سے خوب داد وصول کی۔ معروف ہدایت کار سید نور نے فلم میں نیلی کے مقابل غلام محی الدین کو کاسٹ کیا۔ ہدایت کار الطاف حسین نےاداکارہ نیلی سےاپنی فلم ’’مرد جینے نہیں دیتے‘‘ میں بہت اعلیٰ کردار نگاری کروائی، اس فلم کاشمار ان کی یادگار فلموں میں ہوتاہے۔
نیلی نےجن دیگر فلموں میں اپنی عمدہ اور فطری کردار نگاری کا مظاہرہ کیا، ان میں چیف صاحب ،انسان ہوتو ایسا، بختاور، چوہدری دی رانی، تحفہ، حسینہ 420، انسانیت کے دشمن،کالےچور، عابدہ، خواہش،سخی بادشاہ ،ہر جائی، محبت کے سوداگر، دلہن بنتی ہیں نصیبوں والیاں کے نام شامل ہیں۔
جس زمانے میں نیلی فلموں میں مصروف تھیں، تو انہیں ٹی وی پر ڈراموں اور کمرشل کی بہت آفرز ہوئیں، مگر فلمی مصروفیات کی وجہ سے وہ کام نہ کر پائیں۔ اپنی فلموں کی سینچری مکمل کرنے والی اداکارہ نے 29 اردو، 34 پنجابی، 36ڈبل ورژن فلموں کے علاوہ ایک پشتو فلم ’’دمر نو بادشاہ‘‘ جو ان کی اردو فلم معصوم گواہ کا ڈبنگ پشتو ورژن تھی، اس طرح ایک سندھی فلم دریا خان جسے پنجابی، ورژن میں بھی نمائش کی گئی۔
انہوں نے بے شمار ایوارڈ اپنے نام کیے۔1988 ، انہیں حسینہ 420ا ور1991 میں فلم بختاور، میں بہترین اداکارہ کے نیشنل ایوارڈ بھی ملے۔ فربہ اور موٹی تازہ ہیروئنز کے دور میں نیلی نے ایک اور دل کش تصور فلمی اسکرینز پر دیا۔ ان کی شوخی ،سراپا ،متانت اور قدو قامت نے باکس افٓس کی ایک مستند ہیروئن کے طور پر بنوایا۔
انہوں نے انپے دور کے مقبول ہیروز کے مقابل ہیروئن کے کردار کیے، جن میں سلطان راہی ،یوسف خان ،ندیم، جاوید شیخ، غلام محی الدین، اسماعیل شاہ، اظہار قاضی، شان اور فیصل کے نام شامل ہیں، جب کہ ہدایت کار اقبال کاشمیری،الطاف حسین، نذر الاسلام ، رضا میر، جان محمد، محمد جاوید فاضل، دائود بٹ ،ایس سلیمان اور وحید ڈار جیسے سنیئر کے ساتھ کام کرنے کاموقع ملا۔
نیلی کو جولوگ قریب سے جانتے ہیں، ان کی رائے یہ ہے کہ بہ طورآرٹسٹ وہ مکمل پروفیشنل مزاج کی حامل رہیں، کبھی زیادہ پیسوں کی لالچ میں، انہوں نے اپنی کمٹمنٹ کےخلاف کوئی فیصلہ نہیں کیا۔ کمرشل اور ماڈلنگ میں انہیں فلموں سے زیادہ معاوضے کی آفر تھی،لیکن فلمی ایگریمنٹ کی وجہ سے وہاں کام کرنے کی ہامی نہ بھر سکیں۔
نیلی24جون 1966میں ملتان میں پیدا ہوئیں، ان کی فیملی حیدرآباد شفٹ ہوگئی۔ اسکول اور کالج تک تعلیم انہوں نے حیدر آباد میں حاصل کی۔ فلمی دنیا میں عروج پا گئیں۔ ان کی زندگی میں 1966میں کراچی کے ایک تاجر سرفراز مرچنٹ کا نام جب ایک اسیکنڈل کی صورت میں آیا، تو فنی زندگی اس قدر متاثر ہوئی کہ وہ اپنے عروج کے دور میں فلمی زندگی سے علیحدہ ہو کر گمنام ہو گئیں۔
کہا جاتا ہے کہ معروف ہدایت کار اقبال یوسف کی بیگم نے نیلی کو سردار مرچنٹ سے پہلی بار متعارف کروایا تھا۔ اس اسکینڈل نے نیلی کی پرسکون زندگی کو بہت متاثر کیا، اب وہ فلمی دنیا اور تقریبات سے بہت دور ہو کر رہ گئیں۔ اطلاعات ہیں کہ لاہور میں اپنی خالہ کے ساتھ ایک اچھی اور پرسکون زندگی گزار رہی ہیں۔ نیلی نے بذات خود اپنے آپ کو شوبز کی دنیا سے دور کر دیا ہے، لیکن آج بھی باکس آفس اور شوبز کی دُنیا ان کی آمد کی منتظر ہے۔