سرینگر/اسلام آباد / مظفر آباد (نیوز ایجنسیز / جنگ نیوز)بھارت کشمیری حریت رہنما سید علی گیلانی کی میت سے بھی خوفزدہ ہوگیا اور پاکستانی پرچم میں لپٹا جسد خاکی چھین لیا ، اہل خانہ کی خواہش کے برعکس علی گیلانی کو مزار شہداء میں دفنانے کی بجائے رات کی تاریکی میں زبردستی حیدرپورہ قبرستان میں سپرد خاک کردیا گیا ، علی گیلانی کے نمائندہ خصوصی عبداللہ گیلانی کا کہنا ہے کہ انہیں نہیں معلوم بھارتی فورسز نے علی گیلانی کی تدفین کہاں کی۔
قابض انتظامیہ نے جنازے میں چند اہل خانہ کو شرکت کی اجازت دی ، اس موقع پر آزادی کشمیر اور پاکستان زندہ باد کے نعرے لگائے گئے ، قابض فورسز نے علی گیلانی کے خاندان کے افراد پر تشدد کیا اور انہیں کمرے میں بند کردیا۔ خوفزدہ قابض بھارتی فورسز نے پورا مقبوضہ جموں و کشمیر بند کردیا ، سید علی گیلانی کے گھر اور اہم مقامات کا فوجی محاصرہ کرلیا گیا۔
گشت کرتے ہوئے لوگوں کو متنبہ کیا کیا کہ وہ گھروں سے نہ نکلیں ، مقبوضہ وادی میں کرفیو نافذ اور مواصلاتی رابطے بند ہیں جبکہ جلسہ و جلوس پر بھی پابندی لگادی گئی ہے ۔ کئی حریت رہنماؤں کو بھی گرفتار کرلیا گیا۔ ادھر پاکستان بھر میں جگہ جگہ حریت رہنما سید علی گیلانی کی غائبانہ نماز جنازہ ادا کی گئی۔
پارلیمنٹ ہاؤس کے سبزہ زار میں علی گیلانی کی غائبانہ نماز جنازہ ادا کی گئی جس میں صدرمملکت عارف علوی، چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی، آزادکشمیر کے صدر بیرسٹر سلطان ،آزاد کشمیر کے وزیراعظم عبدالقیوم نیازی اور وفاقی وزراء نے شرکت کی۔ لاہور میں غائبانہ نماز جنازہ امیر جماعت اسلامی سراج الحق نے پڑھائی جبکہ پشاور کینٹ میں بھی نماز جنازہ ادا کی گئی۔
تفصیلات کے مطابق حریت رہنما سید علی شاہ گیلانی طویل علالت کے بعد بدھ کی شب وفات پا گئے تھے۔ ان کی عمر تقریباً 92 برس تھی۔سیدگیلانی عارضہِ قلب میں مبتلا تھے جو سری نگر کے حیدر پورہ علاقے میں واقع اپنی رہائش گاہ پر گذشتہ کئی برس سے نظر بند تھے۔
سید علی گیلانی نے بدھ کی سہہ پہر سینے میں شدید درد کی شکایت کی تھی جس کے بعد شام کو ان کی حالت ابتر ہوئی اور شب دس بجے کے قریب انہوں نے آخری سانس لی۔اگرچہ علی گیلانی کے اہل خانہ چاہتے تھے کہ ان کی تدفین سرینگر کے مزار شہدا ءمیں کی جائے تاہم بھارتی قابض انتظامیہ نے جنازے میں بڑی تعداد میں لوگوں کی شرکت کے خوف سے انہیں اس کی اجازت نہیں دی۔
انہیں حیدر پورہ میں اپنے گھر سے صرف چند میٹر کے فاصلے پر ہی دفن کردیا گیا۔ بہت کم تعداد میں لوگوں جن میں بیشتر اہلخانہ ، قریبی رشتہ دار اور ہمسائے شامل تھے کوان کی نماز جنازہ میں شرکت اور ان کی آخری جھلک دیکھنے کی اجازت دی گئی۔
تاہم سید علی گیلانی کو ان کی رہائش گاہ کے قریب قبرستان میں غیر معمولی انتظامات کے تحت ʼعجلت میں دفن کیا گیا۔انتظامیہ نے صحافیوں کو حیدر پورہ کی طرف جانے کی اجازت نہیں دی۔ وادی کشمیر میں پابندیاں نافذ کر دی گئیں ، انٹرنیٹ اور موبائل سروس معطل ہے۔
سری نگر کے مختلف علاقوں میں مسلح پولیس اور نیم فوجی دستوں کی اضافی نفری تعینات کر دی گئی، جب کہ سکیورٹی فورسز نے حیدر پورہ علاقے کی مکمل ناکہ بندی کر دی ہے۔سوپور، بارہمولہ، کپواڑہ، بانڈی پور، اننت ناگ، پلوامہ، کلگام، ترال اور کئی دوسرے شہروں اور قصبوں میں بھی سخت حفاظتی پابندیاں نافذ کیے جانے کی اطلاعات ہیں۔
ایک اعلی پولیس افسر نے میڈیا کو بتایا کہ سید علی گیلانی کی تدفین جمعرات کی صبح 4بجکر30پر حیدر پورہ قبرستان میں ان کے رشتہ داروں اور ہمسایوںکی موجودگی میں کی گئی۔
سید علی گیلانی کے انتقال کی خبر پھیلتے ہی قابض انتظامیہ نے جنارے میں لوگوں کی بڑی تعداد میں شرکت کو روکنے کیلئے پوری وادی کشمیر میں سخت پابندیاں عائد کر دیں۔
سرینگر اور اسکے نواحی علاقوں کی مساجد سے کئے گئے اعلانات میں لوگوں کو بزرگ حریت رہنما کوخراج عقیدت پیش کرنے کیلئے گھروں سے نکلنے کیلئے کہاگیا ۔ تاہم بھارتی قابض انتظامیہ نے لوگوں کو گھروں سے باہر نکلنے سے روکنے کے لیے سخت پابندیاںنافذ کر دیں۔
مختار احمد وازہ سمیت کئی حریت رہنماں اور کارکنوں کو بھارتی حکام نے حراست میں لے لیا۔کل جماعتی حریت کانفرنس نے کشمیری عوام سے پرزور اپیل کی ہے کہ وہ مقبوضہ علاقے کے کونے کونے میں شہید رہنما کی غائبانہ نماز جنازہ ادا کریں۔