• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

مودی کے دورہ امریکا پر تنقید، اڈانی کے معاملے پر جواب نے توجہ حاصل کرلی

کراچی ( رفیق مانگٹ )نریندر مودی کے امریکی دورے پر کافی تنقید اور ردعمل سامنے آرہا ہے ،جہاں ان کے حامیوں، بشمول بی جے پی کے حامیوں، نے دورے کے اسٹرٹیجک نتائج کو اجاگر کیا، کچھ نے مودی کی دفاعی اور توانائی کے معاہدوں کو سراہا، تاہم، یہ حمایت سوشل میڈیا پر تنقید کے مقابلے میں کم نمایاں تھی ۔

اڈانی کے معاملے پر مودی کے جواب نے اپوزیشن اور میڈیا کی توجہ حاصل کرلی۔ تنقید کی جارہی ہے کہ امریکا نے اربوں ڈالر کے دفاعی سودے، امریکی مصنوعات پر محصولات کم کرنے کا فیصلہ، روسی تیل کی جگہ امریکی تیل اورہندوستان کی مزید بے دخلیوں کا وعدہ جبکہ ہندوستان نے ایک مطلوب شخص کی حوالگی اور تجارتی ہدف کا اعلان حاصل کیا۔

ناقدین کا کہنا ہے کہ تارکین وطن سے ناروا سلوک پر مودی نے خاموشی اختیار کی، بھارتی وزیراعظم نے اڈانی کو بچانے کے لئے ملک کو بیچ دیا ہے۔

 ٹرمپ-مودی مشترکہ پریس کانفرنس میں بھارتی صحافیوں کی غیر پیشہ ورانہ اور غیر سنجیدہ رپورٹنگ ، امریکی صحافیوں نے اسے حماقت کا تماشہ قرار دیا۔ 

سی این این کے مطابق ٹرمپ بھی نہیں جانتے کہ ایلون مسک مودی سے کیوں ملے۔ اے بی سی ٹی وی کے مطابق واشنگٹن سے خالی ہاتھ واپس لوٹنے والے مودی ٹیرف میں چھوٹ حاصل کرنے میں ناکام رہے، اڈانی کے معاملے پر مودی کے جواب نے اپوزیشن اور میڈیا کی توجہ حاصل کی، مودی سے گوتم اڈانی کے خلاف امریکی عدالت میں بدعنوانی کے الزامات کے بارے میں سوال کیا گیا، تو انہوں نے اسے ’’ذاتی معاملہ‘‘ قرار دے کر جواب دینے سے گریز کیا اور کہا کہ ذاتی مسائل رہنماؤں کے درمیان زیر بحث نہیں آتے۔ 

راہل گاندھی نے اس ردعمل کی شدید تنقید کی، الزام لگایا کہ مودی بھارت میں اس معاملے پر خاموش رہتے ہیں لیکن بیرون ملک اسے ذاتی معاملہ کہہ کر اڈانی کی حفاظت کرتے ہیں۔

گاندھی نے کہا کہ مودی اپنے دوست کو بچانے کے لیے پردہ ڈال رہے ہیں انہوں نے کہاکہ وہ اڈانی کے بدعنوانی کے الزامات کو چھپانے کی کوشش کر رہے ہیں۔کانگریس رہنما جیرام رمیش نے ڈیپورٹیز کے ساتھ "غیر انسانی" سلوک پر مودی کی خاموشی پر سوال اٹھائے۔ 

سوشل میڈیا پوسٹس سے ظاہر ہوتا ہے کہ مودی کے امریکا کے دورے سے عوام میں کافی عدم اطمینان پایا جاتا ہے۔ بہت سے لوگوں نے مودی پر تنقید کی کہ انہوں نے اڈانی کو بچانے کے لیے ملک کو بیچ دیا، اور خدشہ ظاہر کیا کہ تجارتی جنگ اور محصولات کی رعایتوں سے بھارت کے متوسط طبقے کو نقصان ہوگا۔ 

امریکی صحافیوں نے ٹرمپ-مودی مشترکہ پریس کانفرنس میں بھارتی صحافیوں کی غیر پیشہ ورانہ اور غیر سنجیدہ رپورٹنگ پر حیرت کا اظہار کرتے ہوئے اسے ’حماقت کا تماشہ ‘قرار دیا۔ 

بھارتی صحافیوں کے سوالات اور طرز عمل نے پریس کانفرنس کو سنجیدہ سفارتی مکالمے کے بجائے ایک مضحکہ خیز تماشے میں بدل دیا۔ اس رویے پر سوشل میڈیا پر بھی شدید ردعمل دیکھنے میں آیا، جہاں صارفین نے صحافتی معیار پر سوالات اٹھائے۔مصنف سنجے جھا نے اڈانی کے حوالے سےمودی کے جواب کو ایک شاہکار قرار دیا۔

ان کا کہنا ہے کہ بھارتی میڈیا، جسے وہ گودی میڈیا کہتے ہیں، بی جے پی اور مودی کی حمایت میں دن رات کوشاں ہے اور انہیں الیکشن جیتنے میں مدد دیتا ہے۔

سنجے جھا نے اس بات پر بھی توجہ دلائی کہ وزیر اعظم مودی نے گزشتہ 11 سالوں میں کوئی پریس کانفرنس نہیں کی، جس کی وجہ اب ظاہر ہو گئی ہے۔

 ٹرمپ نے بھارت کے زیادہ محصولات کی تنقید کی، اسے "ہائی ٹیرف ملک" قرار دیا اور جوابی محصولات کا اعلان کیا۔ 

مودی نے تجارتی جنگ سے بچنے کے لیے محصولات میں کمی کی تجویز دی اور امریکا سے توانائی اور دفاعی درآمدات بڑھانے کا وعدہ کیا۔ ایکس پر لکھا گیا،مودی نے ٹرمپ کے جارحانہ موقف اور بنگلہ دیش پر امریکی کردار کی وضاحت پر احتجاج نہیں کیا۔

تجارتی تعلقات کو بہتر بنانے کے لیے مودی نے 18ہزار غیر قانونی ہندوستانیوں کو واپس لینے کا فیصلہ کیا ہے۔

ٹرمپ نے ٹیرف کے نام پر ہندوستان کو دھمکی دی ہے، جس پر مودی کی خاموشی کو ہندوستان کی کمزور پوزیشن کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔

ٹرمپ کی سخت امیگریشن پالیسیوں کے بعد، ہندوستان کو امریکا کے ساتھ تجارتی تعلقات برقرار رکھنے کے لیے یہ اقدامات اٹھانا پڑ رہے ہیں۔ 

رپورٹ میں کہا گیا مودی نے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے ساتھ دو طرفہ بات چیت کے لیے امریکا کا دورہ کیا، جو ٹرمپ کے دوسرے دور صدارت کے آغاز کے بعد ان کا پہلا سرکاری دورہ تھا۔ 

ہمندوستان ٹائمز کے مطابق اس دورے کا مقصد بھارت-امریکا تعلقات کو مضبوط بنانا تھا، خاص طور پر تجارت، توانائی، دفاع، اور ٹیکنالوجی کے شعبوں میں ۔اہم نتائج میں امریکا سے بھارت کو تیل اور گیس کی برآمدات بڑھانے، محصولات کے تنازعات حل کرنے، اور دفاعی تعاون کو بڑھانے کے معاہدوں شامل تھے۔

 دی ہندو کے مطابق دونوں رہنماؤں نے 2030 تک دو طرفہ تجارت کو 500 بلین ڈالر تک دگنا کرنے کے لیے "مشن-500" کا آغاز کیا ۔

 انڈیا ٹوڈے کے مطابق مودی نے ایلون مسک، ویویک راماسوامی، اور تلسی گبارڈ جیسے نمایاں شخصیات سے ملاقات کی، جن میں جدت، ٹیکنالوجی، اور سٹریٹجک شراکت داری پر زور دیا گیا ۔

ٹرمپ نے 2008 کے ممبئی دہشت گرد حملے سے منسلک طہور رانا کی بھارت کو حوالگی کا اعلان کیا۔

اہم خبریں سے مزید