مریم شہزاد
دنیا میں فی زمانہ اگر کسی کے معیارزندگی کا اندازہ لگانا ہو تو اس کی تعلیمی قابلیت کے بجائے، بینک بیلنس اور اس کے پاس موجود مادی اشیاء سے لگایا جاتا ہے۔ یہ بھی ایک سچ ہےکہ زیادہ تر طالب علم اچھی ملازمت اور پُر آسائش مستقبل کے خواب دیکھتے ہیں، جس میں وہ خود کو ٹائی لگائے ایئر کنڈیشنڈ آفس میں بیٹھے فائلوں کی ورق گردانی کا تصور کر رہے ہوتے ہیں۔ یہ سب ناممکن تو نہیں، مگر سچ یہ ہے کہ ایسا صرف کچھ نوجوانوں کے لیے ہی ممکن ہو پاتا ہے، جب وہ ڈگری لے کر عملی میدان میں قدم رکھتے ہیں، تب انہیں پتہ چلتا ہے کہ حقیقت کیا ہے۔
نوکری کی تلاش میں دھکے کھانے کے بعد آخرکار اس نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ اپنی مرضی چھوڑو، بس کوئی بھی کام مل جائے جس سے چار پیسے ہاتھ میں آئیں اور بے روزگار ہونے کے طعنے سے جان چھڑاسکیں۔ یہ ایک کڑوا سچ ہے کہ، بڑھتی آبادی، توانائی کی کمی کے پیش نظر مستقبل کی منصوبہ بندی کے سبب روزگار کے مواقع دن بہ دن کم ہو تے جارہے ہیں۔ اسی تناظر میں ایک واقعہ نذرِ قارئین ہے۔ جسے پڑھ کر شاید وہ نوجوان جو روزگار سےنا اُمید اور مایوس ہوچکے ہیں، ان کے اندرکچھ کرنےحوصلہ ہوجائے۔
فارعہ اور عاشر بہن بھائی ہیں۔ فارعہ نے گریجویشن کرنے کے بعد گھر پر بچوں کو پڑھاتی ہے، جب کہ عاشرڈبل ایم اے کرکے روزگار کی تلاش میں مارا مارا پھر رہا تھا۔ وہ روزانہ نوکری کے لیے گھر سے نکلتا اور مایوس واپس لوٹتا۔ ایک دن جب وہ صبح کا گیا شام گئے تھکا ہارا گھر آیا تو اس کے چہرے سے پریشانی عیاں تھی۔
ماں اور بہن فارعہ اُسے دیکھتے ہی سمجھ گئیں کہ، نوکری نہیں ملی لیکن مصلحتاََ انہوں نےعاشر سے کچھ نہ پوچھااور کہا، ہم تمھاراہی انتظار کر رہے تھے، جلدی فریش ہوکر آجاؤ، پھر کھانا کھائیں گے۔ عاشر جی بہتر کہہ کر کمرے میں چلا گیا چند منٹ بعد کپڑے بدل کر آیا تو امی اور فارعہ کھانے پر اس کا انتظار کر رہے تھے کھانا کھاتے ہوئے امی نے عاشر کی طرف دیکھ کر کہا، بیٹا " ایک بات کہوں"؟
" یہ کیا بات کی امی آپ نے ، آپ کو بات کرنے کے لئے اجازت کی ضرورت نہیں ہے " عاشر نے کہا ۔
" تم ابھی تھکے ہوئے آئے ہو ناں اور بات تمہاری نوکری سے متعلق ہے اس لئے پوچھا ہے۔ "
" نہیں امی، آپ بھی میری وجہ سے پریشان ہیں ،آپ کہیے میں سن رہا ہوں "۔
" بیٹے! تم کوئی کاروبار کرنے کا کیوں نہیں سوچتے"؟
" امی جی! کاروبار کے لئے سرمایہ کہاں سے آئے گا"؟اور پھر اتنی تعلیم کا فائدہ " ۔
ماں نے کچھ سمجھاتے، کچھ حوصلہ بڑھاتے ہوئے کہا،" تمہاری تعلیم کے لئے بھی تو پیسے نکال رہی تھی، اگر تم اور تمہارے دو تین دوست مل کر چاہیں تو کوئی کاروبار کر لو‘‘۔
اس کا مطلب ہے کہ یقیناً آپ نے میرے لیے کوئی نہ کوئی کام سوچ رکھا ہے۔ جب ہی آپ نے یہ بات کی ہے " عاشر جانتا تھا کہ امی نے ضرور کچھ سوچ کر بات کی ہے۔ سوچا تو ہے، بیٹے غور کرو آج کل کھانے پینے کی دکانیں بہت کھل رہی ہیں، ہر طرف چائے پراٹھہ ،پیزا، برگر، فرائز بریانی وغیرہ یاپھر گلی گلی ٹیوشن سینٹر، تم بھی ایسا ہی کچھ کر لو۔
تمہارے سامنے سارے آپشن ہیں ، سوچنا تمہارا کام ہے " ۔ ماں نے یہ کہتے ہوئے بیٹے کے چہرے پر نظر ڈالی تو انہیں لگا کہ بیٹا راضی ہےلیکن اس نے کوئی جواب نہیں دیا اور کھانے کے بعد خاموشی سے کمرے میں چلا گیا۔ پھر رات بھر سوچنے کے بعدصبح اُس نے ماں سے کہا، اپنے بے روزگار دوستوں سے بات کرتا ہوں ، وہ راضی ہوگئے تو پھر کچھ کریں گے۔ چند دن بعد عاشر نےاپنے دودو ستوں کےساتھ جو اُسی کی طرح بے روز گار تھے،’ کافی شافی‘ کے نام سے ایک چھوٹی سی دکان کھول لی، جس میں کچھ اور چیزیں بھی متعارف کرائیں۔
ابتدا میں خاطر خواہ نتائج نہیں نکلے ۔ عاشر کی امی نے کہا، ’’ ہمت نہیں ہارنا، ہمت سے کام لو ، ایک دن ترقی تمھارے قدم چومے گی۔ ماں کی بات عاشر نے گرہ میں باندھ لی اور دیکھتے ہی دیکھتے ان کی چھوٹی سی کافی شاپ نے ایک ریستوراں کی شکل اختیار کرلی۔ تینوں دوستوں کی ان تھک محنت اور ماں کی حوصلہ افزائی نے انھیں ترقی کی راہ پر گامزن کیا ۔
آج اگر نوجوان نسل تعلیم کو صرف نوکری کے حصول کا ذریعہ نہ سمجھے بلکہ کوئی چھوٹا موٹا کاروبار کر کے بھی آگے بڑھا جاسکتا ہے۔ اگر آپ تعلیم یافتہ اور بے روز گار ہیں تو دفتر کی کرسی پر بیٹھ کر دستخط کرنے کے خواب نہ دیکھیں، اپنی اپنی محنت سے وقت کے تقاضوں کو مدِ نظر رکھتے ہوئے کچھ نہ کچھ کام کر سکتے ہیں۔
یاد رکھیں کوئی بھی کام معمولی نہیں ہوتا، بس کام ہوتا ہے، اُسے کس طرح فروغ دینا ہے یہ آپ کی ذہانت پرہے۔ کچھ نوجوان اپنے باپ دادا کے کام کوحقیر سمجھتے ہیں مثلاََ اگر وہ درزی ہیں یا تھے، جنرل اسٹور کے مالک تھے تو آپ بھی اُن کے کاروبار کو جدید تقاضوں کے تحت آگے بڑھاسکتے ہیں ۔ تعلیم یافتہ نوجوان کاروبار کو جدید ٹیکنالوجی سے بھی آگے بڑھاسکتے ہیں۔ بےروز گار کوئی نہیں ہوسکتا ، بشرطیکہ وہ کام کرنا چاہیں اور کام کوئی چھوٹا، بڑا نہیں ہوتا۔
متوجہ ہوں!
قارئین کرام آپ نے صفحہ ’’نوجوان‘‘ پڑھا آپ کو کیسا لگا؟ ہمیں اپنی رائے سے ضرور آگاہ کریں۔ اگر آپ بھی نوجوانوں سے متعلق موضوعات پر لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور اپنی تحریریں ہمیں بھیجیں۔ ہم نوک پلک درست کرکے شائع کریں گے۔
ہمارا پتا ہے:
صفحہ ’’نوجوان‘‘ روزنامہ جنگ، میگزین سیکشن،
اخبار منزل،آئی آئی چندریگر روڈ، کراچی۔