• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

زرداری منجھے ہوئے سیاستدان ہیں انکا تجربہ بہت زیادہ ہے، پرویز الٰہی


کراچی(ٹی وی رپورٹ)جیو نیوز کے پروگرام ”ایک دن جیو کے ساتھ“میں میزبان سہیل وڑائچ کے ساتھ گفتگو کرتے ہوئے رہنما ق لیگ اسپیکر پنجاب اسمبلی چوہدری پرویز الٰہی نے کہا ہے کہ آصف زرداری منجھے ہوئے سیاستدان ہیں انکا تجربہ بہت زیادہے۔

ہمیں جتنی تکلیفیں دیں وہ شہباز شریف نے دیں، نواز شریف کا قصور یہ ہے کہ انہوں نے منع نہیں کیا،جہانگیر ترین وہ لوگ ہیں جو ہمیں عمران کے قریب نہیں آنے دے رہے تھے، چوہدری نثار کا کہنا تھا کہ سیاست میں کوئی کام بھی آسان نہیں ہے آپ نے1985ء کی اسمبلی کور کی ہے ۔

جب میں ادھر اسپیکر بنا دوسری دفعہ اس میں آپ نے دیکھا کہ دس ووٹوں کا فرق اور کس طرح ٹینشن تھی ساری اسمبلی کی ایک طرف بلکہ میرے تو گلے پکڑتے رہے ہیں۔ 

ایک دن میں نے کہا جو کرتے ہیں کرنے دیں پھر انہوں نے کافی سامان توڑا کافی کچھ کیامیں نے پھر ان کو جنہوں نے کیا تھا ایک مہینے کیلئے نکال دیا اور یقینی بنایا کہ وہ اندر نہیں آئیں گے۔ 

پھر آہستہ آہستہ ہم نے ایک ہم آہنگی بنائی اس کا فائدہ کیا ہوا ہم نے کے پی کے اسمبلی کے برابر قوانین بنائے جبکہ ان کے پاس دو تہائی اکثریت ہے۔ پروڈکشن آرڈر کے حوالے سے مخالفت کی جاتی ہے اور دباؤ بھی ڈالا جاتا ہے اور باقاعدہ کنوے کیا جاتا ہے۔ 

مینار پاکستان میں جس طرح کا واقعہ ہوا اس سے تربیت کی کمی نظر آئی۔ ممبر کے پری ویلیج کے قانون کے حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ یہ قانون ہم نے اس لئے بنایا ہے کہ ہم ان کو بیورو کریٹس کو بلاتے تھے یہ نہیں آتے تھے۔ قومی اسمبلی اور سینیٹ ان کو بلاتے ہیں تو یہ چلے جاتے ہیں۔ 

پھر ہم نے ریسرچ کی تو پتہ چلا کہ 1988ء میں یہی ایکٹ کے پی کے اسمبلی نے پاس کیا ہوا ہے وہاں کسی نے اعتراض نہیں کیا۔ اس کے بعد ہم نے قومی اسمبلی اور سینیٹ کا منگوایا تو انہوں نے وہاں سزا رکھی ہوئی ہے۔ 

آرٹیکل66 میں صاف لکھا کہ ہر اسمبلی اپنی قانون سازی کرے گی۔ میں نے چار ماہ مسلسل میٹنگ کیں 1122 کے سارے لوگ چھوڑ کر جارہے تھے ہماری ایمبولینس سروس ناکام ہورہی تھی۔ 

شہباز شریف ایک ایڈیشنل سیکرٹری لگا کر گئے تھے ان کے لگائے ہوئے بندے تبدیل نہیں ہورہے تھے اور کام نہیں ہورہے تھے۔ آصف زرداری منجھے ہوئے سیاستدان ہیں ان کا تجربہ بہت زیادہ ہے۔ 

یہاں ہمیں اس لئے مسائل آئے ہماری طرف سے کوئی مسئلہ نہیں تھا کیونکہ ہمیں یہ تھا کہ ہم ان کے ساتھ ہیں تو ہمیں ان کے ساتھ رہنا ہے اور ساتھ مل کر بہتری لے کر آنی ہے لیکن شروع شروع میں پتہ نہیں کیا ہوا کہ کسی نے باور کرادیا کہ ان کو تو آپ فارغ کریں۔ 

ہم نے ان کو بتایا کہ آپ کے ساتھ وہ لوگ ہیں جن کو میں نے مشیر اور وزیر بنایا۔ پنجاب میں تحریک عدم اعتماد کا کوئی امکان نہیں ہے۔ میری اور شہباز شریف کی سوچ مختلف ہے میں کسی کو دکھ دے کر تکلیف دے کر اور وعدہ خلافی کرکے خوش نہیں ہوتا مجھے خود تکلیف ہوتی ہے وہ خوش ہوتے ہیں میرا ان کے ساتھ تجربہ ہے۔ 

ہمیں جتنی تکلیفیں دی ہیں وہ شہباز شریف نے دی ہیں نواز شریف کا یہ قصور ہے کہ انہوں نے منع نہیں کیا ان کو منع کرنا چاہئے تھا۔ جب میں وزیراعلیٰ تھا ہم نے ان کا کون سا کام نہیں کیاآتے ہی میرے خلاف اور مونس کے خلاف کوئی ڈھائی سو پرچے کاٹے گئے۔ 

دس سال اس نے تباہی کی اور ادارے برباد کئے ہیں۔ اس کی سوچ منفی ہے اور وہ سوچ اسے کہیں لے کر نہیں جائے گی میرا ایمان ہے اور یہ بات تاریخ کا حصہ ہوگی کہ انشاء اللہ شہباز شریف کسی جگہ آپ کو آگے نظر نہیں آئیں گے۔ 

میں اسپیکر نہیں بن رہا تھا میرا دل نہیں تھا خان صاحب نے خود کہا کہ ہمارے پاس بندہ نہیں ہے صرف دس ووٹوں کا فرق ہے آپ اس کو سنبھالیں ۔ 

پھر ہمارا طے ہوا کہ ہمارے دو وزیر صوبے کے ہوں گے دو وفاقی ہوں گے ۔عمران خان کے میرے بارے میں خیالات پہلے سے کافی بہتر ہوئے ہیں ۔

ابھی انتخابات میں دو سال رہتے ہیں ہم اکٹھے ہی چلیں گے انتخابات کے قریب مشورے سے فیصلے کریں گے۔وزیراعلیٰ عثمان کے والد شروع میں میرے ساتھ تھے یہ اس وقت تحصیل ناظم تھے ہمارا تعلق تو پرانا ہے۔ 

ان کے والد نے بھی کہا تھا کہ ان کا خیال رکھنا ہے ایمانداری کی بات ہے میری کوشش یہی ہے اور رہے گی کہ میں نے ان کے والد سے جو وعدہ کیا تھاوہ پورا ہو۔ان کی جانب سے کوئی موقعوں پر بڑی زیادتی بھی ہوئی لیکن اب بہتری ہے۔ جہانگیر ترین نے اب کوئی اور بانسری پکڑی ہوئی ہے جسے بجا رہے ہیں انہوں نے کوئی نیا سر نکالا ہے۔ 

یہ وہ لوگ ہیں جو ہمیں عمران خان کے قریب نہیں آنے دے رہے تھے۔ یہ تھے علیم خان تھے ان کی کوشش یہی رہی کہ ہمارا ان سے کوئی تعلق نہ بنے مگر نیت ٹھیک ہو تو اللّٰہ کی طرف سے مدد ہوتی ہے۔ہماری نیت ہر ایک کے ساتھ ٹھیک رہی ہے ہر ایک کا فائدہ ہی کیا ہے نقصان نہیں کیا ہے۔ 

وہ خود بخود ایکسپوز ہوتے گئے اور ایسے ایسے بندے ایکسپوز ہوئے ہیں کہ ہم آپ نہیں سوچ سکتے۔ 

مونس الٰہی نے کہا کہ آپ وزارت کے لئے میرا نام نہ لیا کریں اگر وزیراعظم جس کے ساتھ میں نے کام کرنا ہے وہ آرام دہ نہیں تو مجھے نہیں بننا چاہئے اب انہوں نے خود ہی وزارت دی ہے۔ گورنر کے ساتھ میرے تعلقات بہتر ہیں۔

تازہ ترین