عطاء ﷲ مینگل اپنے قبیلے کے ایک باشعور اور انتہائی اصول پسند سردار تھے جو پوری زندگی بلوچوں اور پسے ہوئے طبقوں کے حقوق کی خاطر لڑتے رہے۔ اُنہیں بابائے بلوچستان میر غوث بخش بزنجو سیاست میں لائے تھے۔ وہ پہلی بار مغربی پاکستان کی اسمبلی میں منتخب ہوئے اور ون یونٹ اور سول ملٹری بیوروکریسی کے خلاف اُن کی شعلہ بار تقریروں نے بڑی شہرت پائی۔ اس کی بنیاد پر وہ 1970کے انتخابات میں بلوچستان اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے اور وزیراعلیٰ کے منصب پر فائز ہوئے۔ اُنہوں نے اقتدار سنبھالتے ہی اُردو زبان کو صوبے کی سرکاری زبان قرار دیا اور اُن کی طرف سے یہ حیران کن بیان آیا کہ اگر پنجاب، سندھ اور سرحد کے صوبے پاکستان سے علیحدگی کا اعلان کر دیتے ہیں، تو میں بلوچستان کا نام پاکستان رکھ دوں گا اور اس کی پوری قوت سے حفاظت کروں گا۔ اُن اقدامات اور اعلانات سے اندازہ ہوتا تھا کہ وہ اپنے وطن سے کس قدر محبت کرتے اور لسانی تعصبات سے بالاتر تھے۔
بلوچستان دُوسرے صوبوں کے مقابلے میں بہت زیادہ پس ماندہ ہے۔ اس کی پس ماندگی دور کرنے کے لئے قائداعظم نے اپنے شہرہ آفاق 14نکات میں بلوچستان کو دوسرے صوبوں کے برابر لانے کا مطالبہ شامل کیا تھا۔ وزیراعلیٰ عطاء ﷲ مینگل نے وفاقی حکومت سے صوبائی خودمختاری کا مطالبہ مسلسل اٹھایا جس پر اُن کی وفاقی حکومت کے سربراہ صدر زیڈ اے بھٹو کے ساتھ کشیدگی بڑھتی گئی۔ یہ شوشہ اٹھایا گیا کہ عراقی سفارت خانے کے ذریعے بلوچستان میں اسلحہ بھیجا جا رہا ہے۔ دریں اثنا میرے ساتھ ایک عجیب و غریب واقعہ پیش آیا جو بہت بڑے سانحے پر منتج ہوا۔ اُن دنوں جناب الطاف گوہر روزنامہ ڈان کے ایڈیٹر تھے اور اُن کے ساتھ ہمارا ایک اعتماد کا رشتہ قائم ہو گیا تھا۔ وہ فروری 1973کے اوائل میں لاہور آئے اور اُن سے ملکی حالات پر تفصیلی تبادلۂ خیال ہوا۔ اُن کا تجزیہ تھا کہ پاکستان کے مستقبل کا انحصار چھوٹے صوبوں پر ہوگا، اس لئے ہمیں اُن پر خصوصی توجہ دینی چاہئے۔ اُنہوں نے مجھے فوری طور پر وزیراعلیٰ سردار عطاء ﷲ مینگل سے ملنے اور اُنہیں پنجاب کی حمایت کا یقین دلانے کا مشورہ دیا اور ملاقات کے لئے وقت لے کر دینے کا وعدہ کیا۔
ایک ہفتے بعد اُن کا فون آیا کہ سردار مینگل سے بات ہو گئی ہے۔ اُنہوں نے ملاقات کے لئے 23فروری کی تاریخ دی ہے اور وہ اُس وقت لسبیلہ ریسٹ ہاؤس میں قیام کریں گے اور تمہارے وہاں ٹھہرنے کا انتظام بھی ہو گا۔ اس طرح اُن کے ساتھ بڑی تفصیل سے گفتگو ہو سکے گی۔ میں نے اُن کا شکریہ ادا کیا اور ملاقات کی تیاری شروع کر دی۔ میں نے اپنے بااعتماد ساتھیوں سے مشورہ کیا اور ہم اس نتیجے پر پہنچے کہ بلوچستان کے وزیراعلیٰ سے کامل یک جہتی کا اظہار کرنے کے ساتھ ساتھ اُن کے مسائل اجاگر کرنے چاہئیں۔ 23فروری کی سہ پہر میں اور میرے عزیز دوست جناب نصیر سلیمی کراچی سے لسبیلہ ریسٹ ہاؤس کی جانب روانہ ہوئے جو کراچی سے 209کلومیٹر کے فاصلے پر ہے۔ ہم ریسٹ ہاؤس پہنچے جہاں ڈپٹی کمشنر لسبیلہ نے ہمارا استقبال کیا اور اطلاع دی کہ وزیراعلیٰ صاحب کوئٹہ سے یہاں آنے کے لئے روانہ ہو چکے ہیں۔ ہم نے اُن کا نصف شب تک انتظار کیا۔ صبح سویرے معلوم ہوا کہ سردار عطاء ﷲ مینگل کی حکومت برطرف کر دی گئی ہے، صوبے میں گورنر راج نافذ ہو چکا ہے اور نواب اکبر بگٹی گورنر بنا دیے گئے ہیں۔
مسٹر بھٹو جمہوریت کا بہت بڑاعلمبردار ہونے کا دعویٰ کرنے کے باوجود ا ختلاف رائے برداشت کرنے کے خوگر نہیں تھے اور وُہ طاقت کے استعمال سے اپنے اہداف حاصل کرنا چاہتے تھے۔ جس وقت اُنہوں نے بلوچستان کی حکومت برطرف کی تو اُس کے ساتھ اظہار یک جہتی کے لئے صوبہ سرحد کے وزیراعلیٰ مولانا مفتی محمود مستعفی ہو گئے جبکہ دستور پر اَرکان اسمبلی کے دستخطوں کی تقریب کی تاریخ 10؍اپریل طے ہو چکی تھی۔ بلوچستان میں ا س نوع کی آوازیں اٹھ رہی تھیں کہ ہم دستور پر دستخط نہیں کریں گے۔ اُن آوازوں نے میری نیند حرام کر دی تھی کہ پہلے ہی بلوچستان میں علیحدگی کے رجحانات پائے جاتے ہیں اور اگر وفاق کی ایک پوری اکائی کے نمائندے اگر دستور کی آخری منظوری میں شامل نہیں ہوں گے، تو آگے چل کر علیحدگی کے جواز میں یہ دلیل پیش کی جائے گی کہ ہم آئینی اعتبار سے وفاق میں شامل ہی نہیں ہیں۔ ا س بارے میں مَیں نے جناب مصطفیٰ صادق (مرحوم) سے مشورہ کیا جو آئین کی ابتدائی منظوری میں بڑے فعال رہے تھے۔ معاملے کی سنگینی کے پیش نظر ہم کوئٹہ پہنچے اور میر غوث بخش بزنجو سے ملے جن سے اسلام آباد میں آئین کے مسئلے پر ہماری ملاقاتیں ہوتی رہتی تھیں۔ اُن سے حرفِ مدعا بیان کیا، تو اُن کے چہرے پر گہری تشویش اُبھرتی گئی۔ اُنہوں نے سب سے پہلے سردار عطاء ﷲ مینگل کو فون پر فوری طور پر اپنی طرف آنے کے لئے کہا۔ وہ آدھ گھنٹے میں آ گئے اور مجھ سے معذرت کرنے لگے کہ میں وعدے کے مطابق ریسٹ ہاؤس نہیں پہنچ سکا تھا۔ بزنجو صاحب نے کہا ا س وقت ہمیں بہت بڑے بحران کا سامنا ہے اور ا سے حل کرنے میں تم کلیدی کردار اَدا کر سکتے ہو۔ پوری بات سن لینے کے بعد وہ گویا ہوئے کہ میری برطرفی سے بلوچستان کے ارکان قومی اسمبلی کو دستور پر دستخط کرنے سے ہرگز انکار نہیں کرنا چاہئے۔ دستور ہو گا، تو ہم اپنی جمہوری جدوجہد کسی نہ کسی صورت جاری رکھ سکیں گے۔ پھر وہ ہمارے ساتھ ایک ایک رکن اسمبلی سے ملے اور آٹھ ارکان میں سے سات ارکان نے 1973کے دستور پر دستخط کیے۔ سردار عطاء ﷲ مینگل نے بڑی عظمت کا ثبوت دیا تھا اور اُن کا یہ عظیم کارنامہ سنہری حروف سے تاریخ میں لکھا جانا چاہئے۔
اگلے کالم میں ہم اُس تقریب کا تفصیلی ذکر کریں گے جو شہدائے وطن کو خراج تحسین پیش کرنے کے لئے جی ایچ کیو راولپنڈی میں منعقد ہوئی۔ اُس نے پوری قوم کے اندر وطن کی عظمت پر ہر شے قربان کرنے کا عظیم جذبہ پورے ملک میں بیدار کر دیا ہے اور د فاع پاکستان کے وہ نئے تصورات سامنے آئے ہیں جن کے مطابق جمہوریت اور د فاع کے مابین بہت گہرا تعلق ہے۔