• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

عورت صنفِ نازک ہے۔ فطری طور پر کمزور تخلیق کی گئی ہے ۔ یہ چھپکلی سے ڈر جاتی ہے۔ بلی کی میاؤں سے حواس باختہ ہو جاتی ہے۔ گھر میں اکیلے رات بسرکرنا اسے خوفزدہ کردیتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ تمام معاشروں نے مرد کو عورت کے محافظ کا کردار سونپا ہے لیکن جب یہی محافظ مرد بھیڑیے کا روپ اختیار کر لے تو جسمانی طور پر مضبوط عورت بھی کمزور ترین مرد کا مقابلہ نہیں کر سکتی۔ عورت کو لاکھ جوڈوکراٹے سکھا دیں۔سیلف ڈیفنس کی جدید تربیت بھی کیوں نہ دے دی جائے، حقیقت مگر یہ ہے کہ ایک عام عورت ایک عام مرد کا جسمانی طور پر مقابلہ نہیں کر سکتی کیونکہ قدرت کی طرف سے یہ تخلیقی امتیاز رکھا گیا ہے۔ ایسے میں جب ہم اسلام آباد میں قتل ہونے والی نوجوان لڑکی نورمقدم کو دیکھتے ہیں جس نے اپنے بچاؤ کے لیے کیا کچھ نہ کیا ہوگا یہاں تک کہ کھڑکی سے چھلانگ لگا دی مگر بظاہر دبلے پتلے نظر آنے والے مرد نے اسے پٹخ پٹخ کر مار ڈالا حتیٰ کہ سر تن سے جدا کر دیا۔ نورمقدم اور اس کا قاتل دوست دونوں نہایت لبرل خاندانوں سے تعلق رکھتے ہیں۔ قتل کے بعد فطری طور پر ہر خاص و عام کی ہمدردیاں نور مقدم کے ساتھ ہیں اور وہ چاہتے ہیں کہ قاتل کو قرار واقعی سزا ملے اور وہ کسی طور دھن، دولت اور اثر و رسوخ کے باعث بچ نہ پائے یہاں تک کہ اس کے والدین کو بھی شریکِ جرم قرار دیا جائے۔ یہ مقدمہ اس وقت تفتیش اور عدالتی مراحل سے گزر رہا ہے، ہم فیصلے سے لاتعلق رہ کر محض سانحے کے معاشرتی و اخلاقی پہلوؤں پر غور کرتے ہیں کہ شاید کسی اور نور مقدم کو بچایا جا سکے۔ قتل اس کہانی کا کلائمیکس تھا جو نور مقدم اور اس کے دوست کے مابین پروان چڑھ رہی تھی۔ قبل ازیں دونوں خوش باش ہوں گے۔ دوستانہ ریلیشن شپ کے تحت زندگی بسر کر رہے ہوں گے ۔شاید سوچتے ہوں کہ مذہبی، اخلاقی و معاشرتی پابندیاں تو پیروں کی زنجیریں ہیں انہیں توڑ کر ہی انسان ترقی سے ہمکنار ہوسکتا ہے۔ وہ غالباً عورت مارچ میں بھی اپنی دبنگ انٹری دے چکی ہوگی۔ شاید وہ میرا جسم میری مرضی جیسے بیانیے کی حامل متعدد این جی اوز کی بھی سرگرم رکن ہو۔ بظاہر ان باتوں میں جدیدیت پسندوں کو کوئی قباحت نظر نہیں آتی۔ ہر شخص کو اپنی زندگی کے فیصلے خود کرنے کا اختیار حاصل ہے تاہم اکثر دیکھا یہ گیا ہے کہ مرد و عورت کے اس آزادانہ کھیل تماشے میں نقصان بالآخر عورت ہی کا ہوتا ہے ۔ عورت کتنی بھی چالاک و ہوشیار ہو جائے آخری نقصان اُس کا اپنا ہی ہوتا ہے۔

مشرقی روایت کے مطابق عورت کی اول وآخر تحفظ گاہ گھر ہے۔ شادی سے قبل والدین کا گھر اور شادی کے بعد شوہر کا گھر۔ دوستوں کے اپارٹمنٹ یا فلیٹ گھر نہیں ہوتے۔ اپنا گھر چھوڑ کر دوست کے ساتھ رہنے کی آخر کیا تُک تھی ؟ عید سے چند روز قبل لڑکی کا دوستوں کے ساتھ اسلام آباد سے لاہور جانے کا بہانہ بنانا اور والدہ کے چپ رہنے کا کیا مطلب ہے؟ جس والد کو معلوم ہو کہ اس کی بیٹی اس وقت کسی نوجوان کے ساتھ رہ رہی ہے اور وہ خاموش رہے تو اس کو آپ کیا کہیں گے ؟ نور مقدم کا قتل ہم روک سکتے تھے جی ہاں ہم یہ قتل روک سکتے تھے اگر لڑکی اور لڑکے کے والدین کی آنکھیں کھلی ہوتیں اگر وہ اپنے بچوں پر نظر رکھتے اگر وہ اچھائی برائی کا مفہوم جانتے اگر وہ لبرل ازم کی حدود بھی پار نہ کر چکے ہوتے ۔ اگر وہ اعتدال کو اپنی زندگی کا امام بناتے اور اپنے بچوں کی روک ٹوک مشرقی والدین کی طرح کرتے۔ جی ہاں یہ قتل روکا جا سکتا تھا مگر کیا کریں کہ ہم ماڈرن بننے کے شوق میں اپنی اقدار سے کوسوں دور ہو چکے ہیں۔ لاکھوں پاکستانی مغرب میں سکونت اختیار کر چکے ہیں جب وہ پاکستان واپس آتے ہیں تو مغرب بھی ساتھ لے کر آتے ہیں۔ یہاں آکر ان کا ٹاکرہ پھر’’قدامت پسندوں‘‘، ’’روایت پسندوں‘‘ سے ہوتا ہے جس سے تصادم جنم لیتا ہے ۔ ہمارا معاشرہ اب مشرقی رہا ہے اور نہ پورا مغربی ہوا ہے بس آدھے تیتر آدھے بٹیر والا معاملہ ہے۔یہ ہماری گاڑی ہے یہ ہم (دوست) ہیں اور یہ ہماری پارٹی ہورہی ہے، اس آئیڈیالوجی کو فروغ دینا ہے یا روکنا ہے؟ آدھے پاکستانی اس کے حق میں ہیں اور آدھے مخالفت میں۔ قارئین کرام اس تصادم کی وجوہات کا سِرا تلاش کرنا ہے تو آج ہی کیجیے ، کوئی عملی قدم اٹھانا ہے تو آج ہی اٹھائیے۔ اس سے قبل کہ مزید دیر ہو جائے اور کوئی دوسری نورمقدم اس آئیڈیالوجی کی بھینٹ چڑھ جائے۔

تازہ ترین