• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

قندھار میں ستمبر 2001 کی ایک اداس سی شام تھی۔ امارتِ اسلامی افغانستان کے سربراہ ملا عمر حسبِ معمول خاموش بیٹھے تھے مگر مطمئن بھی لگ رہے تھے جیسے کسی پیچیدہ مسئلے کا حل مل گیا ہو۔ آنکھوں میں انتظار تھا۔ کچھ ہی دیر بعد مہمان آ گیا۔ عربی لباس میں ملبوس، دراز قد ، متبسم اور متجسس مگر با رعب تھا۔ وہ تمکنت سے آگے بڑھا اور مُلّا عمر سے معانقہ کیا، روایتی انداز میں گال سے گال ملائے۔ مُلّا عمر کے چہرے پہ لمحہ بھر کے لئے خفیف سی مسکراہٹ آئی اور غائب ہو گئی۔ دونوں میں بات چیت شروع ہوئی۔ مہمان سعودی انٹیلی جنس (مخابرات العامہ) کے چیف ترکی الفیصل تھے، جنہوںنے ملا عمر سے مطالبہ کیا کہ اسامہ بن لادن کو ان کے حوالے کر دیا جائے۔ یاد رہے کہ اسامہ بن لادن پہ نیو یارک میں دہشت گرد حملوں میں ملوث ہونے کا الزام تھا۔ امریکہ کو معلوم تھا کہ اسامہ افغانستان میں موجود ہے۔ طالبان سے کوئی دشمنی نہیں تھی۔ مگر اسامہ کی تلاش میں اور اس کے میزبانوں کو سزا دینے کے لئے وہ افغانستان کی اینٹ سے اینٹ بجانے پہ تلا ہوا تھا۔ ایسے میں دوست ممالک ملا عمر کو سمجھا رہے تھے کہ وہ اسامہ کو افغانستان سے نکال دے تاکہ سارا ملک تباہی کی لپیٹ میں نہ آ جائے۔ سعودی انٹیلی جنس چیف سے بھی اسی ضمن میں بات جاری تھی۔ ملا عمر نے کہا کہ اسامہ ہمارا مہمان ہے اور اس کو افغانستان سے نکالنے یا حوالے کرنے سے صاف انکار کر دیا۔ تکرار بڑھی اور اتنی تلخ ہو گئی کہ ملا عمر دفعتاً اٹھے اور کمرے سے باہر نکل گئے۔ تھوڑی ہی دیر میں واپس آئے تو ان کے سر کے بالوں سے پانی کے قطرے گر رہے تھے اور قمیض اور آستینیں گیلی تھیں۔ ملا عمر نے ترکی الفیصل کو کہا “ میں نے باہر جا کر سر پر ٹھنڈا پانی ڈالا ہے تاکہ غصہ ٹھنڈا ہو جائے۔ اگر آپ مہمان نہ ہوتے تو میں آپ کے ساتھ بہت سختی سے پیش آتا”ایک کتاب میں لکھا ہے کہ یہ بات چیت عربی میں ہوئی۔ جب ملا عمر نے انکار کر دیا تو ترکی الفیصل نے کہا کہ تم نے وعدہ کیا تھا اور تم اس وعدے کا پاس نہیں رکھ رہے۔ لگتا ہے تمہاری عربی صحیح نہیں۔ اس پر ملا عمر نے کہا کہ ہو سکتا ہے میری عربی آپ سے بہتر ہو۔ اسامہ ہمارا مہمان ہے ہم اسے کسی کے حوالے نہیں کریں گے۔ آپ جائیے۔ وہ ایسا ہی روکھا اور ٹکا سا جواب پاکستان کے جنرل محمود کو پہلے ہی دے چکے تھے۔ یاد رہے کہ ملا عمر نے جن کو انکار کیا وہ دنیا کے ان تین میں سے دو ملکوں کے نمائندے تھے جنہوں نے طالبان حکومت کو تسلیم کیا تھا اور ان کے مددگار تھے۔ تیسرا ملک متحدہ عرب امارات تھا۔ مگر وقت آیا تو اثر و رسوخ اور احسان کو ہوا میں اڑاتے دیر نہ لگی۔ سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات نے غالباً تب ہی اس واقعہ سے اپنا سبق سیکھ لیا۔ پچھلے تمام عرصہ کے دوران جب طالبان اور اشرف غنی حکومت کے درمیان مذاکرات ہوتے رہے تو ان دونوں ممالک نے خود کو ان معاملات سے الگ تھلگ رکھا اور اب بھی ان سے دور ہی ہیں۔ دودھ کا جلا چھاچھ بھی پھونک پھونک کر پیتا ہے۔ ان کی ایک نظر دنیا کے ردِعمل پہ ہوئی ہے اور دوسری افغانستان کے حالات پہ۔ وہ اپنے مفادات کو سامنے رکھ کر سیاسی و سفارتی اصولوں پر فیصلہ کریں گے۔ سبق یہ ہے کہ کوئی آپ کے اتنا زیرِ تسلط یا زیرِ اثر نہیں کہ آپ کے مفاد کے لئے اپنا مفاد قربان کر دے۔ وہ آپ کو قربان کر دے گا مگر اپنا مفاد نہیں۔ لہٰذا آپ کا مفاد بھی اس میں ہے کہ ریاستوں کے باہمی مفاد کی بنیاد پر تعلقات استوار کریں نہ کہ کسی شخص یا گروہ سے قریب ہو جائے۔ ایسا تعلق عارضی ہو گا۔ پاکستان کا معاملہ قدرے مختلف ہے۔ افغانستان کے ساتھ جغرافیائی قربت اور مذہبی و ثقافتی قرابت کی بنا پر ہمارا کردار اہم ہے۔ مگر ہم نے شاید سبق بھی نہیں سیکھا۔ سبق یہ ہے کہ ہم پر امن اور معاشی طور پر مضبوط افغانستان کے خواہاں ہیں اور کوشاں رہیں گے مگر اس کے لئے عسکری تعلقات پہ انحصار کرنے کی بجائے تجارت اور کاروبار کو ترجیح دینا ہو گی۔ ہمسایہ ہونے کی بنیاد ہر انکو خوراک اور طبی سہولیات فراہم کرنا ہوں گی مگر مزید افغان مہاجرین کو ملک میں داخل ہونے کی اجازت دینے کی بجائے اُن کی مدد کریں۔ تعلیم کی سہولت بھی دے دیں۔ اگرچہ آپ کے اپنے دو کروڑ سے زائد بچے اسکول نہیں جاتے۔ یہ بہت اہم ہے کہ ہمیں ان کا مائی باپ بننے سے گریز کرنا چاہئے۔ مناسب تھا کہ سراج الدین حقانی یا عبدالحق واثق کہتے 'ڈونٹ وری، سب ٹھیک ہو جائے گا۔ افغان سے زیادہ افغان کا خیر خواہ بننے کی کوئی منطق و ضرورت نہیں۔ ماں سے زیادہ بچے سے محبت اور انس کسی اور کو نہیں ہو سکتا۔ وہ اپنی جنگ لڑ سکتے ہیں تو اپنی ترجمانی بھی بخوبی کر سکتے ہیں۔ ویسے بھی افغانوں کا مزاج سمجھیں اور اسکے مطابق ان سے تعلقات رکھیں۔ اصحابِ اقتدار کو اپنی مدتِ ملازمت سے پار سوچنا ہو گا۔ وہ نہ ہوں گے ان کی پالیسیوں کے اثرات و نتائج کئی دہائیوں تک ہوں گے جسے ملک اور آنے والی نسلیں بھگتیں گی۔ جیسا کہ آج تک ہم بھگت رہے ہیں۔ ہم نے افغان سرحد پر خاردار تار لگا دی ہے جو کہ دہشت گردوں کو روکنے کے سلسلے میں بہت مناسب قدم ہے۔ اسکے ساتھ ہی سال ہا سال سے سینہ بہ سینہ چلتی ناکارہ ا سٹرٹیجک ڈیپتھ تھیوری کا بھی خاتمہ ہو گیا۔ اس کو ایسے ہی رہنے دیں اور مردہ گھوڑے کو چابک نہ لگائیں۔ یہ پالیسی کبھی ہمارے کام نہیں آئی۔ بھارت کا افغانستان میں مقابلہ کرنے کا طریقہ بھی بدلنا ہو گا۔ ہاتھ میں ہتھوڑا ہو تو ہر مسئلہ کیل نظر آتا ہے۔بہتر ہو گا کہ ہم ہتھوڑے کی جگہ تعلیم، کھیل، تجارت، فلم اور ٹی وی پروگراموں کا تبادلہ کریں۔ عوام سے عوام کا رابطہ ضروری ہے۔ دو ملین افغان مہاجر رابطہ پل بنیں۔ اس سے طویل المدت ریاستی اور عوامی تعلقات پیدا ہوں گے۔ مزید برآں اس کے لئے افغان حکومت کو یہ باور کرانا ہو گا کہ ان کی سر زمین کسی ملک کے خلاف دہشت گردی کے لئے استعمال نہیں ہو گی۔ پاکستانی دہشت گردوں کو ، جنہوں نے افغانستان میں پناہ لے رکھی ہے، پاکستان کے خلاف محاذ آرائی سے روکا جائے گا۔ ابھی تک افغان حکومت نے ان پر ہاتھ نہیں ڈالا۔ ہمارے لئے پاکستان اور اپنے عوام کی سالمیت سے بڑھ کر اور کوئی شے مقدم نہیں۔ یہ مطالبہ ہمارے ایجنڈے میں سرِ فہرست ہونا چاہئے۔

تازہ ترین