رقص و موسیقی ہمیشہ ہی سے فلموں کا اہم جز رہے ہیں، یہی وجہ ہے کہ برصغیر پاک و ہند میں ایک کمرشل فلم میں ان شعبوں کو بڑی اہمیت دی گئی۔ پاکستانی فلمی صنعت میں ایسی بے شمار اداکارائیں آئیں جو فن رقص کی بہت ماہر تھیں۔ ایسی ہی اداکاراؤں میں ایک نام عشرت چوہدری کا بھی ہے، جو 7؍ اگست 1958ء کو لاہور میں پیدا ہوئیں۔ دو بھائیوں کی اکلوتی بہن عشرت نے اپنے فنی کیریئرکا آغاز 1971ء میں ریلیز ہونے والی سپرہٹ پشتو فلم ’’درہ خیبر‘‘ سے کیا۔ ان کا فلموں میں آنے کا واقعہ کچھ یُوں ہے کہ ایک میوزیکل پروگرام میں انہوں نے کلاسیکل کتھک رقص پیش کیا جو ان کی اسٹیج پر پہلی پرفارمنس تھی۔
الحمرا آرٹس انسٹی ٹیوٹ آف پاکستان سے انہوں نے کلاسیکل رقص کی تربیت حاصل کی۔ بہترین ڈانسر کے طورپر اس شو میں انہیں ایک سرٹیفکیٹ ملا۔ ہدایت کار ممتاز علی خان ان دنوں اپنی پشتو فلم درہ خیبر بنارہے تھے، انہوں نے عشرت کو پرفارم کرتے دیکھا اور اپنی فلم میں کاسٹ کرلیا۔ جب اس فلم کی شوٹنگ کے لیے وہ اسٹوڈیو گئیں، تو ان دنوں اداکار مصطفیٰ قریشی اپنی ایک اردو فلم ’’تان سین‘‘ بنارہے تھے، جس کا نام بعد میں چاند اور سورج رکھ دیا گیا، فلم کچھ تاخیر کا شکار ہوگئی اور پھر 1973ء میں ’’ندیا کے پار‘‘ کے نام سے ریلیز ہوئی، یہ عشرت کی پہلی اردو فلم تھی۔
اس فلم میں محمد علی، زیبا اور مصطفی قریشی نے ہم کردارا دا کیے تھے۔ انہوں نے اس فلم میں زیبا کی سہیلی کا کردار ادا کیا تھا ’’ندیا کے پار‘‘ سے پہلے ان کی اردو فلم سہرے کے پھول ریلیز ہو چکی تھی، جس میں ملکہ ترنم نور جہاں کی گائی ہوئی مشہور غزل ’’ان کا ہی تصور ہے محفل ہو کہ تنہائی‘‘ عشرت چوہدری پر فلمائی گئی جوان کی پہچان بن گئی۔ اس غزل میں وہ، عمر خیام کی شاعری کی حسین تصویر معلوم ہوتی تھیں۔
دل کش نقش و نگار، پُرکشش دراز قد اس فن کارہ کو نہ صرف اس دور میں اردو فلموں میں کاسٹ کیا گیا، بلکہ پشتواور سندھی فلموں میں بھی پسند کیا گیا۔ یہ اپنے دور کی پہلی اداکارہ تھیں، جو ہر زبان میں بننے والی فلموں میں یکساں پسند کی گئیں۔ 17؍ اگست 1973ء کو ہدایت کار پرویز ملک کی بلاک بسٹر فلم ’’انمول‘‘ ریلیز ہوئی، اس فلم میں شبنم اور شاہد نے اپنے فنی کیریئر کے ناقابل فراموش رول ادا کیے، اس کی کاسٹ میں عشرت چوہدری کا نام بھی شامل تھا۔ ایک رقاصہ کے کردار کو انہوں نے بہ خوبی نبھاتے ہوئے ایک خوب صورت گیت ’’میں ہوں سپنوں کی رانی‘‘ فلمایا۔
فلم سازوں کو عشرت چوہدری کی صورت میں ایک ایسی اداکارہ مل گئی، جونہ صرف فن رقص کی ماہر تھیں، بلکہ وہ اپنے یونانی حسن و دل کشی کی وجہ سے فلم بینوں میں قلوپطرہ کہلائیں۔ اس دور میں وہ ہر دوسری فلم کی کاسٹ میں شامل ہونے لگیں۔ ایک طرف وہ تیرا غم رہے سلامت، بانو رانی، دلہن رانی، دنیا گول ہے، میں بنی دلہن، بات پہنچی تیری جوانی تک، صبح کا تارا، پردہ نہ اٹھائو، پھول میرے گلشن کا، لیلیٰ مجنوں اور بھول جیسی کام یاب اور یادگار فلموں میں نظر آئیں، تو دوسری طرف پنجابی فلموں میں ان کی سوہنا ویر، آن، ڈاکو تے انسان، منجھی کتھے ڈاہواں، نادرا، نوکر ووہٹی دا، جوگی اور دس نمبری کے نام شامل ہیں، جب کہ ان کی پشتو فلموں میں علاقہ غیر، مفرور، جوارگر، رحمداد خان، باغی، باز او شہباز، زرتاجہ، کوچوان اور غازی کاکا کے نام قابل ذکر ہیں۔
عشرت چوہدری نے جب پہلی بار کیمرے کا سامنا کیا، تو وہ بے حد صحت مند اور فربہ تھیں، اردو فلموں میں جب انہیں کاسٹ کیا گیا تو انہوں نے اپنا وزن کم کرنےکے لیے باقاعدہ جِم جوائن کیا۔ اپنے دور کے مقبول ہیروز محمد علی، وحید مراد اور ندیم کے ساتھ جب انہیں کسی فلم میں کاسٹ کیا جاتا، تو ان کی خوشی کا ٹھکانا نہ ہوتا، کیوں کہ وہ فلم کی اداکارہ بننے سے پہلے ان ہیروز کی بے حد فین تھیں اور اکثر خوابوں میں خود کو ایک اداکارہ کے طور پر دیکھتی تھیں۔
جب بہ طور اداکارہ ان کو اپنے خوابوں کی تعبیر ملی، تو وہ خوشی سے نہال ہوگئیں، انہیں اپنے کام سے اس قدر شوق اور جنون تھا کہ وہ صبح سویرے اسٹوڈیو پہنچ جایا کرتی تھیں، اس وقت اسٹوڈیو میں کوئی بھی نہیں ہوتا تھا، یہاں تک کہ جو صفائی کا عملہ تھا، وہ بھی سورج نکلنے کے بعد آتا تھا اور وہ لوگ انہیں دیکھ کر کہتے ’’میڈم آپ تو ہم سے پہلے پہنچ جاتی ہیں۔ ‘‘۔
1974ء میں ہدایت کار اقبال اخترنے فلم ’’پھول میرے گلشن کا‘‘ میں انہیں ندیم کے مدِ مقابل ہیروئن کا کردار دیا۔ اس فلم میں زیبا، محمد علی، سائرہ، وحید مراد نے مرکزی کردارادا کیے تھے، جب کہ تیسری جوڑی میں ندیم اور عشرت چوہدری تھے۔ یہ ایک ملٹی اسٹار سپرہٹ فلم تھی۔ اس فلم میں انہوں نے ثابت کیا کہ وہ نہ صرف ایک بہترین رقاصہ ہیں، بلکہ وہ ایک اچھی اداکارہ بھی ہیں۔
اقبال اختر نے فلم ’’کوشش‘‘ میں انہیں ویمپ کے کردار میں پیش کیا۔ فلم کوشش ایک گھریلو اور نغماتی فلم تھی ، جس میں ممتاز، ندیم، دیبا، قومی اور لہری نے اہم کردارادا کیے تھے۔ عشرت نے اس فلم میں نازلی نامی ایک ایسی عورت کا کردار ادا کیا ، جو اپنے بے ایمان شوہر لہری کےساتھ مل کراداکار قوی سے جھوٹی محبت کا ڈراما رچا کر اسے بلیک میل کرتی ہے۔ اسی سال بہ طور ہیروئن ان کی پہلی پنجابی فلم ’’دوغلا‘‘ ریلیز ہوئی، جس میں پنجابی فلموں کے سپر اسٹار سلطان راہی نے ہیروکا کردار ادا کیا۔ فلم کے ہدایت کار رضا زیدی مرحوم تھے۔
ہدایت کار مسعود اصغر کی پنجابی فلم ’’گاما بی اے‘‘ میں انہوں نے سینئر ادکار الیاس کاشمیری کے مقابل ہیروئن کا کردار ادا کیا۔ فلم کوشش میں بہ طور ویمپ ان کی اداکاری بے حد پسند کی گئی۔ فلم ساز، انہیں اپنی فلموں میں ویمپ کے کرداروں میں کاسٹ کرنے لگے۔ پاکستانی فلموں کی ویسٹرن اسٹائل اداکارہ حسنہ جنہوں نے ویمپ کے کرداروں میں شہرت پائی، وہ ان دنوں فلمی دنیا کو چھوڑ چکی تھیں، حسنہ کی جگہ عشرت چوہدری، ان کا کام یاب نعم البدل ثابت ہوئیں۔ انسان اور فرشتہ، راستے کا پتھر، ثریا بھوپالی، سجن کملا، دھڑکن، وارنٹ، ملن، آگ اور زندگی، آپ سے کیا پردہ، گن مین، مہربانی، پوستی میں وہ بہ طور ویمپ ان کی قابل ذکر فلمیں تھیں۔
1977ء میں بہ طور ہدایت کار محمد جاوید فاضل کی پہلی فلم ’’گونج‘‘ ریلیز ہوئی، اس فلم میں عشرت اور شاہد نے لیڈنگز رولزکیے، اس ایکشن فلم کی تکمیل کے دوران دونوں کی فلمی محبت کے مناظر فلم بند کرتے ہوئے حقیقی محبت کا رنگ اپنالیا۔عشرت چوہدری نے شاہد سے شادی کی، لیکن کچھ ہی عرصے میں دونوں میں طلاق ہوگئی۔1977ء میں عشرت چوہدری کی پہلی سندھی فلم ’’غیرت جو سوال‘‘ نے کراچی سمیت سندھ کے تمام شہروں میں کام یابی حاصل کی۔ اس فلم میں اداکار کیفی نے ہیروکا کردار ادا کیا تھا۔ فلم کے ہدایت کار یونس راٹھور تھے، یہ فلم پہلے پنجابی زبان میں ’’شہ زور‘‘ کے نام سے ریلیز ہوچکی تھی، اس سندھی فلم کے علاوہ وہ ’’دھرتی دل وارن جی‘‘ اور ’’پوتی ء پگ‘‘ میں بھی کام کرچکی تھیں۔
عشرت چوہدری نے چند پنجابی اور پشتو فلموں میں بھی لیڈنگز رولزکیے۔ انہوں نے اپنے ابتدائی چند سال میں بہ طور رقاصہ فلموں میں کام کیا۔ 1975ء میں ہدایت کر مسعود پرویز نے جب ماضی کی سر ہٹ فلم ’’پاٹے خان‘‘ کا ری میک ’’میرا ناں پاٹے خان‘‘ کے نام سے بنایا، تو اس فلم میں انہیں ایک بھرپور اور جاندار کردار دیا، جو ماضی میں بننے والی فلم پاٹے خان میں اداکارہ مسرت نذیر نے کیا تھا۔
میرا ناں پاٹے خان کا کردار منورظریف مرحوم نے کیا، جب کہ ان کی ہیروئن بابرہ شریف بنی تھیں۔ شاہد کے ساتھ عشرت چوہدری اور نیلو کی جوڑی بنائی گئی،اس فلم میں انہیں یونانی حسینہ قلوپطرہ کی طرح گیٹ اپ کروایا گیا، جو اس فلم کی ہائی لائٹ ثابت ہوا۔ مسعود پرویز وہ پہلے ہدایت کار تھے، جنہوں نے قلوپطرہ کے روپ میں عشرت کو پیش کیا۔ ان کے بعد ہدایت کار وحید ڈار نے اپنی پنجابی فلم انجام میں انہیں ایک مشرقی لڑکی کا کردار دیا، جسے حالات کلب ڈانسر بنادتے ہیں۔ اس فلم میں بابرہ شریف منور ظریف، شاہد اور آسیہ بھی شامل تھے۔
ہدایت کار حیدر چوہدری کی کام یاب پنجابی فلم’’وارنٹ‘‘ میں کلب ڈانسر کے کردار میں ان کے رقص اور اداکاری کے بڑے چرچے ہوئے ۔ ہدایت کار عارف خان نے انہیں اپنی فلم انتقام کے شعلے میں بڑا اہم کردار سونپا۔ ہدایت کار سید کمال کی پنجابی فلم ’’اج دیاں کڑیاں‘‘ میں ان پر فلمایا گیا گیت ’’یہ کیا ہوا مجھے اوئی ماں‘‘ اپنے دور میں بے حد مقبول ہوا۔ ہدایت کار ایم اے رشید کی گولڈن جوبلی فلم ’’ملن‘‘ میں انہوں نے اپنے منفی کردار میں بے حد کام یاب رہیں۔ 1979ء میں ہدایت کار پرویز ملک کی پلاٹینم جوبلی فلم ’’پاکیزہ‘‘ میں انہوں نے اپنی اداکاری کے انمٹ نقوش چھوڑے۔
اس فلم میں ان کا کردار ایک ایسی طوائف کا تھا جو فلم کی ہیروئن شبنم کی ایک قتل کے سلسلےمیں مدد کرکے اسے بے گناہ ثابت کرانے میں اہم کردارادا کرتی ہے۔ شبنم پر فلمائے گئے ایک گیت ’’اس دنیا میں کم ہی ملیں گے ہم جیسے دیوانے لوگ‘‘ میں عشرت نے لاجواب رقص پیش کیا۔ اس فلم سے ملتا جلتا ایک کردار فلم نیا انداز میں بھی انہوں نے ادا کیا۔ ہدایت کار کے خورشید کی یہ فلم عشرت کے فنی کیریئر کی ایک اہم فلم ثابت ہوئی۔ سنگیتا نے اپنی فلم ’’تھوڑی سی بیوفائی‘‘ میں عشرت کی فنی صلاحیتوں سے بھرپور فائدہ اٹھاتے ہوئے انہیں ایک کرسچین ’’نن‘‘ کا کردار دیا۔ یہ کام یاب فلم 1982ء میں نمائش پذیر ہوئی۔ 1983ء میں ظفر شباب نے انہیں اپنی مزاحیہ فلم ’’دیوانگی‘‘ میں شبنم کی بڑی بہن کا کردار دیا، جو موسیقی کا شوق رکھتی ہے۔
کراچی میں بننے والی ہدایت کار گوہر علی کی نغماتی رومانی فلم ’’مانگ میری بھردو‘‘ کا شمار بھی عشرت چوہدری کی چند یارگار فلموں کے طور پر ہوتا ہے۔ فلم کی روایتی ہیروئن کا کردار شبنم نے ادا کیا تھا، جب کہ کہانی کی ہیروئن عشرت تھیں۔
عشرت کی ریلیز شدہ فلموں کی تعداد 164؍ ہے ،جن میں 59 اردو، 80؍ پنجابی، 32؍ پشتو اور تین سندھی فلمیں شامل ہیں۔ ان کی آخری ریلیز فلم ہدایت کارہ شمیم آراء کی ’’چپکے چپکے‘‘ تھی، یہ فلم 1998ء میں ریلیز ہوئی تھی۔ فلمی صنعت میں ان کا زیادہ تر آنا جانا ادارہ بہار بیگم کے ہاں رہا، جنہیں وہ اپنی باجی کہتی ہیں۔ ان دنوں وہ لاہور کے ایک پوش علاقے میں رہائش پذیر ہیں۔