• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

جماعت اسلامی ملک کی ایک قدیم جماعت ہے،اس جماعت کی تنظیم آزادکشمیر سمیت ملک کے چاروں صوبوں میں موجود و فعال ہے۔ اپنے کارکنوں کو متحرک رکھنے اور عوام تک اپنا نام وکام پہنچانے میں اسے ملکہ حاصل ہے۔ اسےجہاںبین الااقوامی ایشوزاُٹھانے میں مہارت حاصل ہے وہاں یہ ملکی و عوامی مسائل جن کیلئے جدوجہد دیگرتمام جماعتوں کیلئے بےمعنی ہے ،ہر وقت سرگرم رہتی ہے، راقم کے نزدیک جماعت اسلامی کو دیگرمذہبی جماعتوں پر اس لئے بھی فوقیت حاصل ہے کہ یہ جماعت دیگر مذہبی جماعتوں کی طرح سائنس و ٹیکنالوجی کو کفر قرار نہیں دیتی،اگرچہ جدید تعلیم کوشجرممنوعہ قراردینے والی جماعتیں پوچھے جانے پر اس سے انکار کرتی ہیں ،لیکن عملی طور پر عالم یہ ہے کہ ان کے مکتب ومدرسوں میں جدید تعلیم کاکوئی بندوبست نہیں، د یگرمذہبی جماعتوں کے مقابل اپنے اس امتیازی وصف کی وجہ سے جماعت میں اعلیٰ تعلیم یافتہ اور ہر شعبے کے ماہرین موجود ہیں ۔ جماعت اسلامی کا قیام 1941ء میں سید مودودیؒ کے اُن دعوتی مضامین کی بنیاد پر عمل میں آیا تھا، جن کی اشاعت 1938 اور 1939 میں ان کے ماہنامے ترجمان القرآن میں ہوئی تھی ۔ ان مضامین میں جماعت اسلامی کے قیام کے اغراض و مقاصد یعنی نصب العین کا اجمال ہے۔ قیام پاکستان کے بعد پہلی بار1951میں کراچی کے اجتماع میں جماعت کے لائحہ عمل کو امیر جماعت اسلامی سید مولانا مودودیؒ نے ایک تقریر کے ذریعے واضح کیا،یہ ایک پمفلٹ کی صورت میں ’مسلمانوں کا ماضی و حال اور مستقبل کا لائحہ عمل‘ کے نام سے موجود ہے۔ اُنہوں نے اسی تقریر میں جماعت کے مقصد و نصب العین کے چاربنیادی نکات بتائے۔ تطہیر و تعمیر افکار، صالح افراد کی تلاش، تنظیم اور تربیت،اصلاح کی سعی (اصلاح معاشرہ)، نظام حکومت کی اصلاح۔اس کے بعد1956میں جماعت اسلامی کے ایک اہل رائے طبقے کی یہ تجویز سامنے آئی کہ ہمیں اپنی قوتیں سیاسی میدان میں جھونکنے کی بجائے عام معاشرے کی اصلاح،دعوت و تبلیغ اور اشاعت دین کے کام میں ہمہ تن مصروف ہوجانا چاہیے۔ اس طرح جیسے جیسے معاشرے کی اصلاح ہوتی جائے گی،سیاسی حالات خود بخود تبدیل ہوتے جائیں گے اور عملی میدان میں خاطر خواہ پیش رفت ہوتی جائے گی۔ اس اختلاف رائے کا جائزہ لینے اور جماعت کے آئندہ کے لائحہ عمل اور جماعت کی پالیسی بنانے کے لئے شوریٰ کی ایک ’’جائزہ کمیٹی‘‘ بنادی گئی، بہرحال 17 تا21فروری 1957کو ماچھی گوٹھ میں اجلاس کے دوران دو مخالف سوچ کےحامل زعماآمنے سامنے تھے،مولانا مودودی اوران کے ہم خیال اصحاب نے انتخابی عمل میں حصہ لینےپر زور دیااور ڈاکٹر اسرار احمد اور مولانا امین اصلاحی صاحب نے اصلاحِ معاشرہ کیلئے کام پر اصرارکیا ،ارکان جماعت نے بہرحال مولانا مودودی کی رائے پر صاد کیا،یوں انتخابی سیاست جماعت اسلامی کی مستقل حکمتِ عملی قرار پا گئی۔ ڈاکٹر اسرار احمد صاحب اور مولانا امین اصلاحی صاحب اور ان کے ہمنواجماعت سے علیحدہ ہوگئےجن میں بڑی تعداد واپس آگئی تاہم جماعت سے علیحدگی کے بعد مولانا امین احسن اصلاحی صاحب نے اپنے آپ کو مکمل طور پر علمی اور فکری سرگرمیوں تک محدود کرلیا جبکہ ڈاکٹر اسرار احمد نے علمی اور فکری سرگرمیوں کے علاوہ عملی جدوجہد بھی جاری رکھی۔آج ہم سے زیادہ جماعت ہی بہتر جانتی ہے کہ موجودہ دور میں معاشرے کو اصلاح کی زیادہ ضرورت ہے یا اسمبلی کی اُن نشستوں کی ، جو جماعت حاصل کر پاتی ہے کیونکہ ماسوائے اُن انتخابات میں جن میں بڑی جماعتوں کو بہ وجودہ انتخابات سے دوررکھاگیاہو،یا بڑی جماعتوں نے حصہ نہ لیا ہو اس جماعت کوکبھی قابلِ رشک کامیابی نہیں ملی۔

موضوع کراچی کے مسائل کے حوالے سے جماعت اسلامی کا کردار وجدوجہد تھا،اور بات کہاں سے کہاں نکل گئی۔ ہم ان سطورمیں اکثر یہ بین کرتے رہتے ہیں کہ مہنگائی کی عفریت ،بے روزگاری کی سفاکی، بیماری کی بے رحمی سمیت اُن ان گنت عوامی مسائل پر وہ سیاسی ومذہبی جماعتیں ایک قدم حرکت نہیں کرپاتیں جن کابراہ راست تعلق نہ صرف یہ کہ عوام سے ہےبلکہ ان کے اُن غریب سیاسی کارکنوں سے بھی ہے جن کی وجہ سے ان کا کاروبارِ سیاست رواں دواں ہے۔جو سیاسی ومذہبی رہنما آئے روز اپنے کارکنوں بلکہ مکتب ومدرسے کے بچوں تک کو سڑکوں پر گھنٹوں کھڑا رکھتے ہیں اور ہفتہ واربنیاد پر اپنے جلسوں ،لانگ مارچوں اور دھرنوں کیلئے کارکنوں کو برسرپیکار رکھتے ہیں وہ متذکرہ مسائل جن سے ان کے یہی جان نثاربھی دیگرلوگوں کی متاثر ہیں، کے حل کیلئے کوئی دھرنا، لانگ مارچ یاجلسہ نہیں کرتے، ایسےذات و جماعت پرورماحول میں جماعتِ اسلامی ایک ایسی جماعت ہے جوعوامی مسائل کے حل کی جدوجہد میں ممتاز ہے۔ان دنوں جماعت اسلامی حقوق کراچی مہم چلارہی ہے،جس کے تحت مردم شماری ،بلدیاتی انتخابات کے انعقاد ،پانی کی قلت ،بجلی کی بندش کیخلاف بڑی شاہرائوں پر ریلیوں سمیت ان مسائل سے متعلق مرکزی دفاترپر دھرنے بھی شامل ہیں۔ یہ جماعت اسلامی ہی ہے جو مہنگائی کے خلاف سراپا احتجاج ہے،نظریاتی وفکری اختلاف کے باوجود میرے نزدیک صرف جماعت اسلامی مہنگائی سمیت عوامی مسائل اُٹھانے کی وجہ سے یہ دعویٰ کرنے میں حق بجانب ہے کہ وہ ملکی عوام بالخصوص غریبوں کی حقیقی ترجمان ہے۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین