اسلام آباد (جنگ نیوز / آن لائن) قومی اسمبلی کی ذیلی کمیٹی برائے اطلاعات کا اجلاس کنوینر مریم اورنگزیب کی صدارت میں ہوا۔ کمیٹی نے وزارت اطلاعات و نشریات سے فیک نیوز کی تعریف اور تمام تنظیموں سے پی ایم ڈی اے کے حوالے سے تجاویز تحریری طور پر طلب کر لیں۔
پاکستان براڈکاسٹرز ایسوسی ایشن نے کمیٹی کے سامنے خدشات کا اظہار کیا جبکہ سی پی این ای کے نمائندے نے پی ایم ڈی اے کو ماننے سے انکار کردیا۔ اجلاس سے خطاب میں مریم اورنگزیب نےکہا کہ پہلے کہا گیا مسودہ ہے، پھر کہا تجویز ہے، کیا کوئی مسودہ موجود ہے یا نہیں؟ کیا دنیا میں ایسی کوئی اتھارٹی ہےجہاں الیکٹرانک، پرنٹ، سوشل میڈیا، فلم سب ایک چھتری تلے ہوں؟ کسی ملک میں ایک کمیشن اور اتھارٹی کے چھتری تلے سب نہیں ۔
پیپلز پارٹی کی نفیسہ شاہ بولیں فیک نیوزکا معاملہ ہے تواس میں پیکا کا قانون موجود ہے،حکومت خود کلیئرنہیں، حکومت کوجب کچھ پتا نہیں توکیا بحث کریں۔ پی بی اے کے نمائندے کا کہنا تھا کہ جب حکومت کہے زیادہ چینل ملک کو غیرمستحکم کریں گے۔
الیکٹرانک میڈیا 5؍ سال میں بند ہوگا، اشتہارات سوشل میڈیا کودیں گے، تو نیت پرشک نہ کرنا بڑا مشکل ہے، یہ بھی کہا گیا جو بل کو تسلیم نہیں کرتا اس کے اشتہارات بند کریں۔ پی بی اے کے نمائندے نے تجویز دی کہ ریگولیٹری باڈیز کو ایک چھتری میں لانےکی بجائے موجود قوانین میں بہتری لائی جائے، پیمرا اور پیکا کیلئے تجاویز دینے کیلئے تیار ہیں۔
تفصیلات کے مطابق قومی اسمبلی کی ذیلی کمیٹی برائے اطلاعات و نشریات کا اجلاس کنوینر مریم اورنگزیب کی صدارت میں پیمرا ہیڈ کوارٹر میں منعقد ہوا جس میں رکن کمیٹی نفیسہ شاہ اور کنول شوزب،وزیر مملکت فرخ حبیب ، اے پی این ایس،سی پی این ای،پی بی اے ،پی ایف یو جے،آر آئی یو جے،پی آر اے ،ایمنڈ کے عہدیداران نے شرکت کی، اجلاس میں تمام صحافتی تنظیموں نے پاکستان میڈیا ڈویلپمنٹ اتھارٹی کو مسترد کر دیا ۔
کمیٹی نے وزارت اطلاعات و نشریات سے فیک نیوز کی تعریف اور تمام تنظیموں سے پی ایم ڈی اے کے حوالے سے تجاویز تحریری طور پر طلب کر لیں،وزیرمملکت فرخ حبیب نے بتایا کہ پاکستان میڈیا ڈویلپمنٹ اتھارٹی کا کوئی مسودہ نہیں ہے اور نہ ہی اس حوالے سے کوئی آرڈیننس لایا جارہا ہے۔
ہم ریگولیٹری باڈیز پر چار ارب خرچ کرتے ہیں اب ہم ایک اتھارٹی بنانے جارہے ہیں ہم چاہتے ہیں سب معاملات کو ایک چھتری تلے لے آئیں۔مریم اورنگزیب نے کہا کہ تجاویز پہلے دے دی گئی ہیں بات بعد میں کی جا رہی ہے ایک مسودہ شیئر کر دیا گیا اور اس کو تسلیم نہیں کیا جا رہا بتایا جائے کہ کوئی مسودہ ہے یا نہیں کسی ملک میں یہ سب کچھ ایک اتھارٹی کے نیچے نہیں ہو رہا پرنٹ میڈیا کو اٹھارویں ترمیم کے بعد صوبے دیکھتے ہیں۔
رکن کمیٹی کنول شوزب نے کہا کہ اطلاعات و نشریات کی کمیٹی میں یہ سب کمیٹی بنی ہے مریم اورنگزیب نے قانون موجود ہی نہیں تو اس کو کالا قانون کہا ہے میرا اعتراض ہے کہ اس کمیٹی کو دوبارا بننا چاہیے اب میڈیا نے بہت ترقی کی ہے اور ملک کا سوچتے ہوئے اچھی تجاویز آئیں گی تو مناسب طریقے سے آگے بڑھ سکیں گے۔
رکن کمیٹی نفیسہ شاہ نے کہا کہ میری پارلیمانی زندگی میں کبھی نہیں ہوا کہ کسی بل کے لانے کے حوالے سے پاکستان میڈیا ڈویلپمنٹ اتھارٹی کے حوالے سے حکومت خود کلیئر نہ ہو میڈیا کے معاملات کو ایک چھتری کے نیچے لانے کی کوشش کی جارہی ہے اس میں پیکا کا قانون بہت اہم اس میں وہ موجود نہیں ہے اس پر بات کیا کریں اگر کوئی مسودہ ہی نہیں ہے ایشوکو حکومت خود سامنے لائی جس پر رد عمل آیا ہے ۔