لندن (پی اے) اگست کے دوران برطانیہ میں افراط زر کی شرح نمایاں اضافے کے ساتھ3.2 فیصد ہوگئی، جس سے مہنگائی میں اضافہ ہوا، خاص طورپر اشیائے خورد و نوش کی قیمتوں میں اضافہ ہوگیا، افراط زر کی شرح میں اضافے کی یہ شرح 1997 کے بعد سے سب سے زیادہ ہے۔ قومی شماریات دفتر کے مطابق جولائی کے دوران کنزیومر پرائس انڈیکس میں افراط زر کی شرح 2 فیصد ریکارڈ کی گئی تھی جس کی وجہ سے اشیائے خوردونوش کی قیمتوں میں اضافہ ریکارڈ کیا گیا تھا، اب افراط زر کی شرح بینک آف انگلینڈ کی مقررہ حد 2 فیصد سے بھی تجاوز کرگئی ہے۔جولائی میں ملبوسات اور جوتوں کی قیمتیں کم رہنے کی وجہ سے ضروریات زندگی کی اشیاء کی قیمتوں میں زیادہ اضافہ محسوس نہیں کیا گیا لیکن گزشتہ ماہ کھانے اور مشروبات کی قیمتوں میں اضافہ ریکارڈ کیا گیا۔ قومی شماریات دفتر کے مطابق اگست میں ماہانہ بنیاد پر افراط زر کی شرح میں سب سے زیادہ اضافہ ریکارڈ کیا گیا۔ اس سال اگست کے دوران ٹرانسپورٹ کے کرائے میں بھی اضافہ ہوا، پیٹرول کی قیمتیں اوسطاً 134.6 پنس فی لیٹر تک پہنچ گئیں جبکہ ایک سال قبل جب لاک ڈائون کی وجہ سے لوگ سفر بہت کم کر رہے تھے، پیٹرول 113.1 پنس فی لیٹر پر دستیاب تھا، تاہم یہ سب کچھ عارضی معلوم ہوتا ہے۔ برطانیہ کے سینئر ماہر معاشیات رتھ گریگری کا کہنا ہے کہ اگست میں جن اشیاء کی قیمتوں میں اضافہ ہوا، اس اضافے کو روکناممکن نہیں تھا، کیونکہ گزشتہ سال ہر چیز رعایتی شرح پر دستیاب ہورہی تھی۔ انھوں نے کہا کہ افراط زر کا سا ل بہ سال کے اعتبار سے جائزہ لیا جائے تو ہر سال افراط زر کی شرح پہلے سے زیادہ نظر آئے گی، ان میں سے کچھ اضافے کے حقیقی عوامل ہوتے ہیں، مثال کے طورپر فی الوقت عالمی سطح پر شپنگ کے کرائے میں اضافہ ہوچکا ہے اور عملے کی کمی کی وجہ سے کھانے پینے کی اشیاء کی قیمتوں میں پر لگ رہے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ افراط زر کی شرح میں اضافے کا یہ سلسلہ جاری رہنے اور اضافے کی شرح نومبر تک4 فیصد تک پہنچنے کے خدشے کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ کیپٹل اکنامکس کا کہنا ہے کہ افراط زر کی شرح میں اگلے سال تیزی سے کمی ہوگی جبکہ بینک آف انگلینڈ کی مالیاتی کمیٹی کی جانب سے 2023 تک سود کی شرح میں اضافہ کئے جانے کا کوئی امکان نہیں ہے۔ مرکزی بینک کے ڈپٹی گورنر بین براڈ بینٹ نے جولائی میں اس بات پر زور دیا تھا کہ قیمتوں میں اضافے کے باوجود معیشت کی بحالی کی کوششیں نہیں رکیں گی۔ انھوں نے کہا تھا کہ ہمیں معلوم ہے کہ اگلے مہینوں کے دوران افراط زر کی شرح میں مزید اضافہ ہوگا، اشیاء کی قیمتوں میں اضافے کا بڑا سبب تیل کی قیمتوں میں اضافہ اور سپلائی چین کے مسائل ہیں۔ انھوں نے کہا تھا کہ افراط زر کی شرح میں اگلے سال کے اوائل میں کمی آجائے گی لیکن بدھ کو افراط زر کی شرح بینک آف انگلینڈ کے ہدف سے بڑھ جانے کے بعد اب بینک آف انگلینڈ کو خط لکھ کر چانسلر رشی سوناک سے وضاحت طلب کرنا پڑے گی کہ وہ قیمتوں میں استحکام کیلئے کیا اقدامات کررہے ہیں۔ ریٹیل اکنامکس کی جانب سے ایک سروے کے دوران کم وبیش 2,000 افراد سے بات چیت کی گئی، ان میں سے کم وبیش 50 فیصد نے اشیائے صرف کی قیمتوں میں اضافے پر تشویش کا اظہار کیا۔مارکیٹ ریسرچ فرم نے اپنی رپورٹ میں بتایا ہے کہ معیار زندگی اور اخراجات زندگی کے بارے میں پیداہونے والی تشویش کی شرح گزشتہ 5 سال کے مقابلے میں بہت زیادہ بڑھ چکی ہے۔