حکومت اور بعض قومی اداروں میں تصادم کے بڑھتے ہوئے خدشات کسی بھی طرح ملکی مفاد میں نہیں ہیں یہی صورتحال پاکستان پیپلز پارٹی اور پھر مسلم لیگ(ن) کے ادوار میں بھی پیدا ہوتی رہی ہے لیکن ان کا ہدف کچھ اور ہوتا تھا، موجودہ حکومت کا ہدف فی الحال الیکشن کمیشن ہے، آگے پتہ نہیں۔ اس لڑائی کو سیاسی ناپختگی قرار دیا جا رہا ہے۔ اس حوالے سے بعض حلقوں کا خیال ہے کہ اس جھگڑے کو بڑھانے کی ضرورت نہیں بلکہ وزیراعظم عمران خان حکمت کے ساتھ اپنی پارٹی یا بعض حکومتی حکام کی طرف سے غلط فہمی کی بنیاد پر پیدا ہونے والے معاملات کا حل نکالیں، اس لئے کہ پاکستان کی ہر روز بدلتی ہوئی موجودہ سیاسی صورتحال قطعی طور پر حکومت کے حق میں نہیں جا رہی،حکومت کو کنٹونمنٹ کے انتخابات میں شکست بھی اسی وجہ سے ہوئی ہے۔ کیا حکومت نے اس کی وجوہ جاننے کی کوشش کی؟ وہ صرف ایک ہی نظر آ رہی ہےجو کہ بڑھتی ہوئی مہنگائی ہے۔ اگر یہ سلسلہ آگے بھی جاری رہا تو آئندہ الیکشن میں PTI کیلئے خاصی مشکلات پیدا ہو سکتی ہیں۔ ایسی صورتحال میں جہاں 2022کے اوائل میں الیکشن کرانے کی باتیں ہو رہی ہیں وہاں 2023کے الیکشن میں کچھ عرصہ تاخیر کے امکانات پر اشاروں کنایوں میں باتیں ہو رہی ہیں۔ اسلام آباد میں اس حوالے سے بند کمروں میں جو تبصرے ہو رہے ہیں مگر کیا حکمران جماعت یا PTI کی قیادت کو اس کا علم نہیں ہے؟ اس پسِ منظر میں حکومت اپنی ساکھ بحال کرنے کیلئے اکنامک گورننس کو پہلی ترجیح بنا کر عوام کو تکلیف نہیں ریلیف دینے کی حکمت عملی تیار کر لیں ورنہ مزید کچھ عرصہ مہنگائی پر قابو نہ پایا جا سکا تو پھر اپوزیشن تو عوام کو سڑکوں پر شاید نہ لا سکے بلکہ غربت کے مارے لوگ خود ہی سڑکوں پر آ جائیں گے جو پہلے ہی کورونا کی بےجا پابندیوں کی و جہ سے ذہنی اور مالی طور پر پریشان ہیں جس سے اگر اپوزیشن نے کوئی فائدہ اٹھانا بھی چاہا تو نہیں اٹھا سکے گی کیونکہ حقیقت میں ہماری اپوزیشن اب ٹی وی اسکرینوں پر زیادہ متحرک نظر آ رہی ہے۔ عملی طور پر صورتحال اس کے برعکس ہے۔ ایک تو بدقسمتی سے متحدہ اپوزیشن کا نہ ہونا، دوسرا مسلم لیگ(ن) کے اندرونی معاملات پر بڑھنے والی کنفیوژن بھی عوام کی رائے پر اثر انداز ہو رہی ہے، اس لئے اب ایک بہترین موقع ہے کہ وزیراعظم عمران خان اپنی سیاسی حکمتِ عملی پر از سر نو غور کریں اور زرعی شعبہ سے لے کر ہر شعبہ سے اپنے روابط بڑھائیں۔ سیکورٹی اور کورونا کے نام پر محفوظ طریقے سے اسلام آباد کا نظام تو چلایا جا سکتا ہے لیکن اس خطہ اور پاکستان میں سیاست کرنے کے لئے عوام کے پاس جانا پڑتا ہے اور اس سے پہلے ان کے معاشی تحفظ، روٹی اور سیکورٹی کے بڑھتے ہوئے مسائل حل کرنے پڑتے ہیں۔
یہ تو سب جانتے ہیں کہ حکمران وقت کے ساتھ ساتھ اپنے آپ کو دوسروں سے الگ کر لیتے ہیں اور اُنہیں اپنے عوام کے حقیقی مسائل اور مخالفین کی کسی بھی بات کا ادراک نہیں ہوتا بلکہ وہ روزانہ اپنے سیکرٹریٹ سے ملنے والے بریف پر انحصار کرنا شروع کر دیتے ہیں۔ مطلب یہ کہ وہ اقتدار کی مضبوطی اور ہر مسئلہ، ایک تقریر سے حل ہونے کے خواب دیکھنا شروع کر دیتے ہیں۔ یہی صورتحال ماضی کی دو حکومتوں میں بھی رہی لیکن اب تو صورتحال ہی نرالی ہے۔ مثال کے طور پر غیرمناسب پالیسیوں کی وجہ سے عوام کی نہ صرف قوتِ خرید بتدریج کم ہو رہی ہے بلکہ غربت، بےروزگاری اور خودکشی کے رجحانات اور جرائم کی شرح میں اضافہ تشویشناک صورت اختیار کرتا جا رہا ہے۔ یہ سب مسائل معاشی عدم استحکام اور 90فیصد سے زائد عوام کی معاشی مشکلات کا نتیجہ ہے۔ حکومت کو اب سمجھ لینا چاہئے کہ اقتدار کے آخری مہینوں میں عالمی ادارے تو اپنے مقاصد کے حوالے سے سوچنا شروع کر دیتے ہیں لیکن اس خطہ اور خاص کر پاکستان کے عوام کی سوچ تبدیلی کے اس راستے پر چل پڑتی ہے جس سے حکمران جماعتوں کے پاس پچھتاوے کے سوا کچھ نہیں رہتا۔ اس صورتحال کا بہترین تقاضا ہے کہ حکمران سیاسی بصیرت کا مظاہرہ کرتے ہوئے صرف اقتصادی اور سماجی مسائل کے چیلنجز کو حل کرنے کے لئے اپوزیشن سے پہلے ٹیلی فونک رابطہ کر کے مشاورت کا آغاز کریں۔ یہ وقت انا کی بنیاد پر سوچنے کا نہیں، حکمت اور تدبر سے ملک کو آنے والے خطرات سے نکالنے کا ہے۔ معاشی طور پر کمزور ممالک کو نقصان پہنچانے کے لئے دشمن ہر وقت تیار رہتا ہے۔ یہ صرف بھارت، اسرائل یا کسی اور ملک کا ایجنڈا نہیں ہے بلکہ اندرون ملک ان عناصر کا بھی ہے جو ان کے اشاروں پر متحرک رہتے ہیں۔ اس لئے حالات کی نزاکت کا احساس کیا جائے اور ملکی سلامتی اور یکجہتی کے لئے مشاورتی عمل اور ملکی معیشت چلانے والے اسٹیک ہولڈرز کو اعتماد میں لیا جائے ورنہ ہرا بھرا میدان ویرانی کی تصویر بن سکتا ہے۔