• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
تحریر: ڈاکٹرغلام نبی فلاحی۔۔۔لندن
اعلان جنگ مجھے پوری طرح یاد ہے کہ مئی 1980 جمعہ المبارک کا دن تھا اور میں سوپور کے ایک مقامی اسکول میں زیر تعلیم تھا اور آزادی کے حق میں آواز اٹھانے والوں پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑے جارے تھے اسی دوران سوپور کا ایک نوجوان بھارتی فوجیوں کے ہاتھوں شہید ہوچکا تھا، معلوم ہوا کہ سید گیلانی حج کرکے واپس آگئے ہیں اور جامع مسجد سوپور میں انکا خطاب ہے، اللہ تعالی نے سید گیلانی کو ایک فصیح و بلیغ زبان دی ہے اور جب بولتے ہیں تو روانی کے ساتھ بغیر کسی رکاوٹ کے اختتام تک ایک ہی طرز میں اپنی تقریر ختم کردیتے ہیں‘ دور دراز سے لوگ آپ کی تقریر سننے کے لیے حاضر ہوتے ہیں۔ یہ تقریر دراصل بھارت کی بالادستی کے خلاف ایک کھلا اعلان تھا۔ وقت کے لیڈر نے عوام سے کہہ دیا تھا کہ وہ اب بیلٹ کے بجائے بلٹ پر انحصار کریں۔ حکومت وقت کی نظریں مسلسل سید علی گیلانی پر لگی ہوئیں تھیں۔ چنانچہ ان یک شعلہ نوائی اور باغیانہ انداز کو وہ کیسے برداشت کرلیتے۔ اس لیے ایک بار پھر گرفتار کرلیا گیا اور انہیں پاکستانی ایجنٹ قرار دے کر تعذیب کا نشانہ بنایا گیا۔رہائی کے فورا بعد آپ نے سرینگر میں ایک کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے دوٹوک انداز میں کہا ’’تم مجھے سولی پر چڑھادو ، ہمارے گھر جلا دو ، لیکن کشمیر کا بھارت سے الحاق میں نہیں مانتا ، نہیں مانتا،،۔ 13اکتوبر1983ء کو آپ نے سرینگر میں جس تاریخی پریس کانفرنس سے خطاب کیا اس کے تذکرے کے بغیر بات مکمل نہیں ہوتی۔ آپ نے الیکشن پر تبصرہ کرتے ہوئے فرمایا۔ ’الیکشن کشمیر عوام کا استصواب رائے کا نعم البدل نہیں ہوسکتے. ۔ یہ محض ایک انتظامی مسئلہ ہے ، جہاں تک عوام کے مستقبل کا تعلق ہے تو ایسا آج تک کبھی نہیں ہوا، اس لیے ہم مطالبہ کرتے ہیں کہ ریاست کے عوام سے پوری طرح پوچھا جائے ۔ اگر ہندوستان کو پسند کریں گے تو وہ بھی سارے جہاں کے سامنے آئے گا اور اگر بھارت کو کشمیریوں کے جذبات کی ایسی روش پر اعتماد ہے تو وہ استصواب رائے کے مطالبے سے کیوں سیخ پا ہوجاتا ہے۔ سید علی گیلانی نہ صرف کشمیریوں کی حقوق کے لیے جدجہد کے لیے سرگرم رہے بلکہ امت مسلمہ کا درد آپ کے دل میں ہمیشہ موجود تھا یہی وجہ ہے کہ افغانستان کی موجودہ صورت حال پر وہ انتہائی رنجیدہ تھے اامریکہ اور اسکے اتحادیوںپر تبصرہ کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ۔ یہ صورت حال پوری ملت کے لیے بہت بڑا المیہ اور سانحہ ہے ایک ارب سے زائد آبادی رکھنے اور دنیا کے ہر ملک میں آباد ہونے والی ملت ، عالمی سطح پر پیدا ہوجانے والی صورتحال میں کوئی مشترکہ موقف اختیار کرسکنے کے قابل نہ ہو اور دنیا کے دوسرے ممالک ان کو اپنے Dictation پر عمل کرنے پر مجبور کریں درآنحالکہ ان کے پاس بے پناہ مادی اور افرادی قوت اور تیل اور معدنیات کی دولت ہے۔ اہم ترین جغرفیائی پوزشن اور حیثیت ہونے کے باوجود پھر بھی اپنا وزن محسوس نہ کرواسکے۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ سارے مسلم ممالک کی حکومتیں استعماری قوتوں کی دست نگر ہوکر رہ گئی ہیں‘ معاشی لحاظ سے کمزور اور بین الاقوامی اداروں کے قرض پر انحصار رکھتی ہیں۔ نظریاتی لحاظ سے اسلام کے ہدایت بخش نظام سے ذہنا اور عملا کٹ کررہ گئے ہیں۔ باطل اور غیر اسلامی نظریات سے مرعوب ہوچکے ہیں۔ اکثرو بیشتر مسلم ممالک میں حکومتیں اپنے عوام کے جذبات اور احساسات کے علی الرغم چل رہی ہیں۔ وہ محض حکومتی ذرائع اور وسائل کی بنیاد پر عوام پر سوار ہیں۔ ان کے اور عوام کے درمیان کوئی ہم آہنگی اور یکجہتی نہیں ہے۔ 9/11 کے خونین واقعات کے بعد پیدا ہوجانے والی صورت حال نے امت مسلمہ کے اس زوال اور فکر و عمل کے انتشار کو اور زیادہ واضح اور مبرہن کردیا ہے۔ آگے چل کر موصوف لکھتے ہیں کہ طاقت کا بے جا استعمال جیسے11 ستمبر کے واقعہ میں قابل مذمت اور خلاف انسانیت و اخلاق تھا۔ برابر اسی طرح 8 اکتوبر2001ء کے ہوئی حملوں کو بھی دہشت گردی کے بغیر کوئی اور نام نہیں دیا جاسکتا ہے۔ کسی بھی یکطرفہ کاروائی کی اگر پوری دنیا بھی حمایت کرے تو اس کی بنیاد پر اس کو جائز نہیں قرار دیا جاسکتا ہے۔ افغانستان کے ضمن میں پاکستانی موقف اور عوام الناس کے جذبات کی جس طرح ترجمانی سید علی گیلانی کرتے رہے میرے خیال میں خود پاکستانی حکمران بھی اسطرح اپنے ملک کا دفاع کرنے سے معذور نظر آرہے تھے۔ سید علی گیلانی نے بہ بانگ دہل کہا کہ امریکہ پر انحصار رکھتے ہوئے اس مسئلے کے دائمی پائیدار حل کی امید رکھنا60 سالہ تجربات کی بنیاد پر خیال خام ہی قرار دیا جاسکتا ہے ۔ پاکستان نے SEATOاور cento میں امریکہ کا حلیف بن کر روسی استعمار کو اپنے خلاف کرلیا۔ اور اس نے VETO کا استعمال کرکے مسئلہ کشمیر کو جتنا نقصان پہنچایا ہے اس کے بیان کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ سویت یونین نے بھارت کے جابرانہ اور ظالمانہ قبضہ کو جس طرح Legetimacy عطا کردی ہے۔ امریکہ نے کبھی اس طرح کی جرأت مندی کا اظہار کرکے پاکستان کے جائز اور مبنی بر صداقت موقف کی حمایت نہیں کی ہے بلکہ اس کو ہر مرحلے پر اپنی قومی ، معاشی اور سیاسی مفادات کا ہی خیال رہا۔ اس نے کبھی مسئلہ کشمیر کو تاریخی شواہد حق و صداقت اور جموں و کشمیر کے عوام کی غالب اکثریت کی عظیم اور بے مثال قربانیوں کی بنیاد پر اپنا اثررسوخ استعمال کرکے اس کے دائمی اور پائیدار حل میں مدد دینے کی کوشش نہیں کی ہے ۔ آج جب کہ وہ دہشت گردی کا بزعم خویش افغانستان کو مجرم قرار دے رہا ہے اور اس کو اپنی طاقت کا مزہ چکھا نے میں پاکستان کے شانوں پر سوار ہوکر تاخت و تاراج کرنے کی کوششوں میں نہ صرف خود بلکہ پوری دنیا کو اپنی پشت پر کھڑا کردینا چاہتا ہے وہ کیسے چاہیے گا کہ مسئلہ کشمیر اس کے تاریخی پس منظر کی روشنی میں حل ہوکر برصغیر ہندو پاک میں تعلقات استوار ہوجائیں، وہ تو اب بھی اس مسئلے کو اپنے مقاصد کے لیے استعمال کرتا رہے گا۔ پاکستان سے بھی اور بھارت سے بھی اس کے حوالے سے اپنے عزائم کی تکمیل چاہیے گا۔ سید علی گیلانی کی دوراندیشی داد دینے کے قابل ہے انہوں اسی موقع پر کہا تھا کہ امریکہ افغانستان میں تربیتی کیمپ بند کروانے کا مطالبہ کررہا ہے اور اس کے نزدیک یہ دہشت گردی کی تربیت گاہیں ہیں۔کل کو امریکہ پاکستان سے کہے گا کہ جموں و کشمیر کے آزاد حصے میں آزادی کی سرگرمیاں ختم کردی جائیں ، کیونکہ وہ بھارت کو بھی راحت پہنچانا چاہتا ہے۔ اس لیے کہ بھارت اس کے لیے تجارت کی بہت بڑی منڈی ہے مسئلہ کشمیر حل کرنے کے لیے مسلح جدوجہد کو سدراہ قرار دیکر مذاکرات کے ذریعہ اس کو حل کروانے میں مدد کرنے کا وعدہ کریگا ۔ آج سید گیلانی کی یہ باتیں سچ ثابت ہورہی ہیں۔ سید علی گیلانی نہ صرف کشمیر بلکہ عالم اسلام کے لیے ایک دردمند دل رکھتے ہیں انہوں چچنیا، بوسنیا،فلسطین، سوڈان وغیر ان تمام مملک کے حق میں ہمیشہ اپنی آواز بلند کی جنہیں غیروں نے ظلم و ستم کا نشانہ بنایا۔ الیکشن کا آخری معرکہ سید گیلانی نے مسئلہ کشمیر کو اجاگر کرنے کے لیے اور کشمیریوں کو انکے حقوق دلوانے کے لیے ہر طرح کے طریقے اختیار کئے۔1987ء میں جب ایک بار پھر الیکشن بجا تو آپ نے اپنی شبانہ روز محنتوں سے ریاست کی اسلام پسند جماعتوں اور تحریک آزادی سے متعلق گروپوں کو مسلم متحدہ محاذ کے پلیٹ فارم پر جمع کیا۔ اس اتحاد نے بھارتی سامراج کی نیدیں اچاٹ کرکے رکھ دیں۔ جب بھارت پہ یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہوگئی ہے کہ مسلم متحدہ محاذ بھاری اکثریت سے جیت جائے گا۔ اس کی جیت کے نتیجہ میں کیا ہونے والا ہے‘ اس سوال کا جواب بھی بھارتی استعمار کو نوشتہ دیوار کی طرح سامنے نظر آرہا تھا۔ انتخابات ہوئے لیکن بھارت سرکار اور کٹھ پتلی انتظامیہ نے رسوائی سے بچنے کے لیے وہ شرمناک دھاندلی کی کہ شیطان بھی شرماکررہ گیا۔ نتائج کے اعلان سے قبل ہی محاذ کے تمام اہم رہنمائوں کو گرفتار کرلیا گیا۔ اس کے باوجود بھارت کے حکمران عوامی جوش و جذبے اور زبردست قوت کی وجہ سے سید علی گیلانی کو نہ ہراسکی۔ صاف نظر آتا تھا کہ کشمیر میں ووٹ کے محاذ پر یہ آخری معرکہ تھا۔ اس کے بعد بلٹ کا دور شروع ہوگیا جو فطری طور کے راستے کے بعد شروع ہوتا ہے۔ تاریخی خطاب سید علی گیلانی اس کے بعد پھر میدان میں آئے اور عوام الناس سے کہہ دیا کہ اب یہ دور ختم ہوچکا ہے ہم نے اسمبلی میں دیکھا، انتخابات اور پرامن ذرائع سے بھی ہم اپنی بات نہیں منواسکے۔ بیلٹ کا دور ختم ہوگیا۔ چونکہ نوجوان بھی بے قابو ہوچکے تھے ۔ عوام بھی بھارت اور کشمیری حکمران طبقے سے نالاں تھا۔ اس موقع پر سوپور میں ایک جم غفیر کے سامنے تقریر کرتے ہوئے آپ نے ملت اسلامیہ کشمیر کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ، آپ کب تک صابروں میں شمار ہوتے رہیں گے۔ یہ فلک بوس سینما ہال، یہ عریاں رقص و سرود کی محفلیں، تمہاری تہذیب و روایات تم سے چھینی جارہی ہے۔ نوجوانوں کی روح کس نے قبض کرلی ہے۔ تمہیں کب تک اپنی کرسیوں کے لیے گولیاں کھانے اور قربانیاں دینے کے لیے چارے کے طور پر استعمال کیا جائے گا؟ کیا آپ میں مومنانہ بے تیغ لڑے کا جذبہ اور عزم ختم ہوگیا ہے۔ یاد رکھئیے کہ’’ غلامی کی ہزار سالہ زندگی سے بہتر ہے کہ آدمی آزادی اور اسلام کی خاطر ایک دن کی زندگی قبول کرے،،۔ آپ نے ایک طرف تو کشمیری نوجوانوں کو مزاحمت کے لیے تیار کیا اور جدوجہد میں مصروف تنظیموں کو باہم متحد کرکے بھارت کے خلاف کھڑا کردیا۔ دوسری جانب جدو جہد کی حمایت اور سیاسی سطح پر مسئلہ کشمیر کو اجاگر کرنے کے لیے تحریک حریت کشمیر کے نام سے ایک اتحاد کو منظم کیا۔ مگر تھوڑے عرصہ کے بعد ہی اتحاد کی پوری قیادت کو حوالہ زندان کردیا گیا اور حکومت وقت نے اپنے ایجنٹوں کے ذریعہ اس نومولود اتحاد بکھیرنے میں کوئی قصر نہیں چھوڑی جسکی بنا پر یہ نومولود اتحاد زیادہ دیر قائم نہ رہ سکا۔ اس کے بعد جیل کے اندر ایک اور اتحاد قائم ہوا جو کہ حریت کانفرنس کے نام سے کشمیر کی سرزمین اپنی جڑیں مضبوط کرتا رہا مگر دشمنوں نے اس اتحاد سے بھی خوف کھایا اور یہ بھی پارہ پارہ ہوگیا۔ گویا سید گیلانی نے راہ حق میں عمر قید سے بھی زیادہ مدت جیل کی بلند و بالا اور آہنی زنجیروں اور کنکریٹ دیواروں کے پیچھے گزار دی۔ بار بار آپ کو نعرہ حق ، حق خودارادیت سے باز رہنے کے لیے مختلف قسم کی پیش کش بھی کی گئیں‘ مگر آپ نے ان تمام ترغیبات کو پائے استحقاق سے ٹھکرا دیا اور فرمایا میں کوئی شیخ عبداللہ نہیں جو بک جائو۔ اس پیرانہ سالی میں بھی سید علی گیلانی کا نام مقبوضہ کشمیر میں بھارتی تسلط کے خلاف تحریک مزاحمت کی علامت کی حیثیت اختیار کرگیا ہے۔ اس حقیقت کا اعتراف دوست اور دشمن دونوں کرتے ہیں۔ریاست جموں و کشمیر کی حدتک شیخ محمد عبداللہ مرحوم کے بعد اگر کوئی فردا اٹھا تو وہ سید گیلانی ہی ہیں جن کے عزم و ہمت کو کوئی توڑ نہ سکا۔ یہ الگ بات ہے کہ لوگوں نے انکو نہ پہچانا بلکہ انہی اپنوں کے تنز و تیروں کا نشانہ بننا پڑا۔سید گیلانی صاحب کی بہت سی باتوں سے اختلاف ممکن ہے۔ مگر ان کی استقامت اور پامردی قابل داد ہے۔ آپ نے بھارتی سامراج کے خون آشام اور جبری ہتھکنڈوں کے خلاف مزاحمت کے دوران جس جرات و بے باکی اور عزیمت و استقامت کے انمٹ اور درخشاں نقوش چھوڑے ہیں وہ نہ صرف کشمیر کی تاریخ کا حصہ ہے بلکہ حریت پسندی کی پوری تاریخ کا ایک ناقابل فراموش باب ہے۔ برصغیر کی تاریخ مرتب کرنے والوں کے لیے اس نابغہ روزگار شخصیت کا اپنی شاہ سرخیوں جگہ دینے کے علاوہ اور کوئی چارہ نہیں۔ موصوف نے جیل کے اندر بھی اپنی قوم اور وطن کی آزادی کے لیے لڑتے رہے اور مسلسل اپنے قلم سے اپنی جدوجہدد جاری رکھے ہوئے ہیں۔ کشمیر کے ضمن میں انہوں نے کئی کتابیں تحریر کی ہیں۔ جن میں قصہ درد اور انکی آپ بیتی ولر کنار کے تین حصے قدرے مشہور ہیں۔ آج جبکہ وہ ہم سے رخصت ہوئے ہین مگر انہوں نے پوری قوم کو یہ پیغام دیا کہ ’’ میں جانتا ہوں کہ موت ایک اٹل حقیقت ہے جس سے چھٹکارا ممکن نہیں ۔ مگر میں نے اپنی زندگی مسئلہ کشمیر کے لیے تج دی ہے۔ بہر کیف ایسے افراد قوموں اور ملتوں کا سرمایہ ہوتا ہے جن کی قدردانی ان کے چلے جانے کے بعد ہی کی جاتی ہے۔ مجھے یہ کہنے میں کوئی باق نہیں کہ سید علی گیلانی اس صدی کے ایک ایسے ہیرو ہیں جو بار بار پیدا نہیں ہوتے ہیں۔ ان کا صرف یہ جرم تھا کہ وہ ایک اسلام پسند تحریک سے وابستہ تھے۔ اور وہ ایک مظلوم و مقہور قوم کے حقوق کے لیے میدان عمل میں سرگرم رہے۔ اللہ تعالیٰ انہیں جنت الفردوس میں اعلی مقام عطا فرمائے اور ان کا خواب شرندہ تعبیر ہو۔
تازہ ترین