آخر پنجاب کا قصور کیا ہے کہ ایک مرتبہ پھر اقتدار کی جنگ کی ابتدائی صف بندی شروع ہوتی نظر آ رہی ہے۔ ابھی دن ہی کتنے ہوئے ہیں پانچویںچیف سیکرٹری اور ساتویں آئی جی کو تعینات کئے ہوئے۔ مجھے ایک ڈپٹی کمشنر نے بتایا کہ چیف سیکرٹری نے آتے ہی انتظامی افسران سے تو میٹنگز کی ہی ہیں لیکن اس کے ساتھ ہی صوبائی وزراء کو ٹیلی فون کرکے انہیں ہرطرح کے انتظامی و اخلاقی تعاون کی یقین دہانی بھی کروائی ہے اور اراکین پارلیمان کو بھی پیغام دیا ہے کہ عوام کے مسائل کے فوری حل کے لئے ان کے دفتر کے دروازے ہر وقت اور ہمیشہ کھلے ہیں۔ ماضی میں تو ایک بات واضح طور پر دیکھنے میں آئی ہے کہ جب بھی یہ بات زبان زد عام ہوئی کہ چیف سیکرٹری اور وزیر اعلیٰ ایک پیج پر ہیں تو اس کے چند دن بعد ہی چیف سیکرٹری کا تبادلہ گیا۔ میجر (ر) اعظم سلیمان خان سے بڑی جپھیاں ڈالی جاتی تھیںلیکن پھر چپکے سے اسلام آباد جا کران کی شکایتیں بھی کی جاتی تھیں۔ حال ہی میں وزیر اعلیٰ سیکرٹریٹ کے 4ڈپٹی سیکرٹریوں کو آن پے سکیل پر پرنسپل سیکرٹری برائے وزیر اعلیٰ کی طرف سے پنجاب رولز آف بزنس کی خلاف ورزی کرتے ہوئے ایڈیشنل سیکرٹری بنا دیا گیا جس کی ماضی میں کوئی مثال نہیں ملتی۔ قانون کے مطابق گریڈ 19تک کے افسران کی ترقیوں کے لئے مجاز اتھارٹی چیف سیکرٹری ہے جن کی منظوری کے بعد گریڈ 19 تک ترقیوں کا نوٹیفیکیشن محکمہ ایس اینڈ جی اے ڈی جاری کرتا ہے۔ گریڈ 20 اور اس سے اوپر پوسٹنگ ٹرانسفر کے لئے وزیر اعلیٰ کی منظوری چاہئے ہوتی ہے۔
فہم سے باہر ہے کہ پنجاب رولز آف بزنس کی خلاف ورزی کرتے ہوئے ازخود ڈپٹی سیکرٹریوں کو ایڈیشنل سیکرٹری کیوں بنایا گیا۔ کیا اس کا مطلب کسی کو شرمندہ کرنا ہے؟ محکمہ ایس اینڈ جی اے ڈی میں تو یہ حوصلہ نہیں کہ وہ وزیر اعلیٰ کے اس فیصلے کے خلاف جائے لیکن ان ترقیوں کے نتیجے میں متاثر ہونے والے افسران عدالت جا سکتے ہیں۔ ایس اینڈ جی اے ڈی تو خاموش ہے اور اگر اس اقدام سے کسی کو (EMBARRASS)کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے تو یہ افسوسناک ہے۔ پرنسپل سیکرٹری برائے وزیراعلیٰ عامر جان ایک سمجھدار اور منجھے ہوئے افسر ہیں انہیں اس معاملے پر نہ صرف قانونی صلاح دینی چاہیے تھی بلکہ قائل کرنا چاہیے تھا کہ رولز آف بزنس کی خلاف کسی صورت درست اقدام نہیں۔ سوال یہ ہے کہ ایسا کرنے کی کیا ضرورت تھی؟ کیا یہ افسران (EXCEPTIONAL)تھے؟ کیا ایس اینڈ جی اے ڈی سے ان افسران کے بارے میں کسی قسم کی زیر التواء نیب یا محکمانہ انکوائریوں، اےسی آرز کی رپورٹس اور ریکارڈ سمیت دیگر معلومات لینا ترقیوں کے لئے ضروری نہیںتھا؟ میرے خیال میں اگر کسی قانونی پراسس کو ختم کرکے ترقیاں دی جائیں تو پھر بیوروکریسی (POLITICISE) ہو جاتی ہے۔ حکومتی مشینری کو چلانے کے طریقے کار ہوتے ہیں۔ چیزوں کو شتر بے مہارنہیں چھوڑا جا سکتا۔ کسی قسم کی عزت اور توقیر نہیں رہ گئی جس کی وجہ سے سول سروس کا بیڑہ غرق ہو رہا ہے۔ واقعات اس بات کی غمازی کر رہے ہیں کہ نظام بہتری کی بجائے ابتری کی طرف جا رہا ہے۔ سمبڑیال اور سیالکوٹ میں معطلیوں کے طوفان سے اسلام آباد کو سگنل دیا جا رہا ہے کہ وہ طاقتور چیف ایگزیکٹو ہیں۔ سابق وزیر اعلیٰ شہباز شریف نے بھی اپنے پہلے (TENURE) میں افسران کو معطل کرکے سگنل دیئے کہ وہ پاور فل وزیر اعلیٰ ہیں لیکن دوسری مرتبہ وزیر اعلیٰ بننے کے بعد انہوں نےبہت کم لوگوں کو معطل کیا۔ ایک طرف چیف سیکرٹری پنجاب کی گورننس ٹھیک کرنے آئے ہیں اور دوسری طرف گورننس کا بیڑا غرق ہوتا دکھائی دے رہا ہے۔ میں پھر پوچھتا ہوں کہ آخر پنجاب کا قصور کیا ہے؟ ہر چیف سیکرٹری کے چارج سنبھالتے ہی بڑی تعداد میں چھوٹی بڑی پوسٹوں پر تقرر و تبادلے ہوئے ہیں لیکن تاحال ماسوائے ایڈیشنل چیف سیکرٹری کے کوئی بڑا تبادلہ نہیں ہوا۔ فہرستیں توبہرحال بنائی جاتی ہیں لیکن ایسا معلوم ہوتا ہے کہ تبادلو ںکے حوالے سے دونوں اطراف کے شاید کوئی تحفظات ہیں جو دور کرنےکی کوشش کی جارہی ہے۔پنجاب میں ڈمیوں کے ذریعے حکومت چلانے کی کوششیں کی جاتی رہی ہیں لیکن یہ چیف سیکرٹری تو ڈمی بننے سے رہے۔ اب سوال یہ ہے کہ پھر سے کوئی نئی گیم آن ہو چکی ہے؟ صرف پنجاب میں ہی آئے روز اقتدار کی جنگ کی صف بندیاں کیوں شروع ہو جاتی ہیں؟
نئے چیف سیکرٹری ابھی چیزوں کو سمجھنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ 12 کروڑ عوام کے صوبے کی گورننس کو راتوں رات ٹھیک کرنا بہت مشکل ہے۔ افسر شاہی کا خیال ہے کہ اگر موجودہ چیف سیکرٹری جو کہ محنتی، دیانتدار اور چیلنجز سے نمٹنے کی پوری صلاحیت رکھتے ہیں کو کام کرنے کا موقع نہ دیاگیا تو پھر پنجاب کی بدقسمتی کو خوش قسمتی میں بدلنے کے مواقع معدوم ہو جائیں گے۔ آپ کرپشن کے خاتمے کے لئے ضرور اقدامات کریں۔ مختلف اضلاع میں سرپرائز وزٹ بھی کریں لیکن یہ تاثرہرگز نہ دیں کہ آپ ایگزیکٹو کے کام پر کسی قسم کا حق جتا رہے ہیں۔ پورے ضلع اور تحصیل کی انتظامیہ ختم کرنے کے اندھا دھند اقدامات کی بجائے پہلے لوگوں کوسخت وارننگ دی جائے جس طرح ایڈیشنل چیف سیکرٹری پنجاب کی تعیناتی میں ڈیکورم کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے آپ کے اختیارات کا خیال رکھا گیا اس طرح آپ بھی کوشش کریں کہ قاعدے اور قوانین کے تحت ہر کسی کو حاصل اختیارات کو ملحوظ خاطر رکھا جائے۔ پنجاب کی افسر شاہی میں جو انحطاط پذیری اپنی آخری حدوں کو چھو رہی ہے ایسے میں اب آپ کی ذمہ داری ہے کہ گڈگورننس کے خواب کو پایۂ تکمیل تک پہنچانے کے لئے فوری طور پر اس اثر کو زائل کریں جس سے افسر شاہی کو یہ تاثر ملے کہ اختیارات کی جنگ کی نئی صف بندی نہیں ہورہی ۔