لندن (سعید نیازی) برطانوی شہریوں کی طرف سے پاکستان میں شادی کی ناکامی پر دی گئی طلاق کو برطانیہ میں بھی تسلیم کرانے کیلئے ہائی کورٹ کے فیصلے کیخلاف سپریم کورٹ تک جائیں گے۔ اس بات کا اظہار عدالت کے فیصلے سے متاثر نازیہ پروین کے وکلاء نے جنگ سے گفتگو کرتے ہوئے کیا ۔واضح رہے کہ ہائی کورٹ نے حال ہی میں یہ فیصلہ دیا تھا کہ پاکستان میں دی گئی اسلامی طلاق کو برطانیہ میں قبول نہیں کیا جانا چاہئے، عدالت نے یہ فیصلہ عاصم حسین اور نازیہ پروین کے کیس میں دیا تھا، عاصم حسین نے یہ موقف اختیار کیا تھا کہ نازیہ حسین کی ان سے 14برس قبل ہونے والی شادی کو منسوخ کردیا جائے کیونکہ وہ اب بھی پہلے شوہر کی منکوحہ ہے اور پہلے شوہر کی طلاق کو برطانیہ کے انگلش قانون کے مطابق تسلیم نہیں کیا جانا چاہئے جب کہ نازیہ پروین کا کہنا تھا کہ پہلے شوہر کی دی گئی طلاق کو پاکستان میں تسلیم کیا جاتا ہے کہ اسے برطانیہ میں بھی تسلیم کیا جائے، نازیہ پروین کی نمائندگی کرنے والے بیرسٹر رشید احمد نے کہا کہ اب اس کیس کو کورٹ آف اپیل میں لے کر جا رہے ہیں، ہمارا موقف ہوگا کہ مجوزہ کیس میں دیا گیا فیصلہ درست نہیں کیونکہ بنیادی طور پر اس کیس کا فیصلہ 1986ء میں ایک کیس آیا تھا، غلام فاطمہ کا؟ ہائوس آف لارڈز نے اس وقت فیصلہ دیا تھا کہ جو آدمی برطانیہ میں طلاق دے اس طلاق کو پاکستان میں تسلیم نہیں کیا جاسکتا اور یہ فیصلہ اس کیس کے تناظر میں دیا گیا ہے، اب ہمارا موقف یہ ہے کہ 1986ء کو اب بہت زیادہ عرصہ گزر چکا ہے، مسلم کمیونٹی دنیا بھر میں پھیل چکی ہے اور اب وقت ہے کہ برطانوی حکومت اپنے اس فیصلے پر نظرثانی کرے، بیرسٹر رشید احمد نے کہا کہ ہو یہ رہا ہے کہ بعض اوقات برطانوی شہری پاکستان جاکر شادی کرلیتے ہیں اور واپس آکر اپنی بیوی کو اسپانسر نہیں کرتے بلکہ طلاق بھیج دیتے ہیں، پاکستان میں تو اس طلاق کو تسلیم کرلیا جاتا ہے لیکن برطانیہ میں اسے نہیں مانا جاتا، اس طرح وہ خاتون دوبارہ کسی برطانوی سے شادی کرکے برطانیہ نہیں آسکتی جو کہ سراسر زیادتی ہے لیکن نازیہ پروین کے کیس میں جج نے 1986ء کے کیس کو مدنظر رکھا ہے، اب بہت وقت گزرنے کے بعد برطانیہ کو پاکستان میں ہونے والی شادی اور طلاق کو تسلیم کرنا چاہئے، برطانیہ کی طرف سے اس ضمن میں مثبت ردعمل نہ دکھانے کا مطلب خواتین کے ساتھ زیادتی کرنے کی اجازت دینے کے مترادف ہوگا، انہوں نے کہا کہ ہائی کورٹ کے فیصلے کے بعد پاکستان سے متعدد وکلاء اور ناظمین نے ہم سے رابطہ کیا ہے ان سب کا یہ موقف ہے کہ اس فیصلے کو چیلنج کرنا چاہئے اور ان کا موقف ہے کہ طلاق اور شادی کا معاملہ تو اللہ کے قوانین کے مطابق ہوتا ہے اور اللہ ہی اس معاملے میں گواہ ہوتا ہے اور برطانیہ کو اس امر کا احترام کرنا چاہئے، انہوں نے کہا کہ غلام فاطمہ کے کیس کے فیصلے کو آئندہ کیسز پر اثرانداز ہونے سے بچانے کیلئے ہماری کوشش ہے کہ ہم براہ راست یہ معاملہ سپریم کورٹ لے کر جائیں، بیرسٹر ذیشان رضا نے کہا کہ 1986ء کو اب بہت وقت گزر چکا ہے دنیا گلوبل ولیج بن چکی ہے، قوانین تبدیل ہوچکے ہیں، برطانیہ پہلے ہی یہ تسلیم کرتا ہے پاکستان میں عورتوں کو متعدد مسائل درپیش ہیں اور پاکستان میں ہونے والی شادی اور طلاق کو برطانیہ میں تسلیم کرکے خواتین کے مسائل کو کم کیا جاسکتا ہے، انہوں نے کہا کہ ہماری کوشش ہے کہ خواتین کو بھی یکساں حقوق حاصل ہوں۔