• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

جاپان کو اُبھرتے سورج کی سرزمین کہا جاتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ دنیا میں دن کا آغاز سب سے پہلے جاپان میں ہوتا ہے۔ صنعتی ترقی کے میدان میں بھی جاپان کو اُبھرتے سورج کی حیثیت حاصل ہے۔ جاپان صنعتی لحاظ سے ایک انتہائی ترقی یافتہ ملک ہے، جہاں بے شمار بڑے کارخانے قائم ہیں۔ ان کارخانوں میں لاکھوں افراد کام کر رہے ہیں۔ یہ کارخانے زیادہ تر خود کار آلات سے لیس ہیں، جن میں موٹر سائیکلیں، بڑے بڑے بحری جہاز، بجلی پیدا کرنے والے جنریٹرز، کمپیوٹر، لوہے اور فولاد کی مشینیں، کیمیائی سامان اور اعلیٰ معیار کی اشیائے صرف مثلاً گھڑیاں، ٹیلی ویژن سیٹ، الیکٹرونک کیلکیولیٹرز، موبائل فون، ساکت کیمرے اور ویڈیو کیمرے تیار کیے جاتے ہیں۔ 

جاپان میں موٹر سازی کی صنعت نے انتہائی تیز رفتاری کے ساتھ ترقی کی ہے۔ 1985ء میں ایک کروڑ بائیس لاکھ ستر ہزار گاڑیاں سالانہ تیار کرکے جاپان موٹر سازی کی صنعت میں پہلے نمبر پر آگیاتھا۔ موٹر سائیکلوں کی تیاری میں بھی جاپان سرفہرست ہے۔ 1959ء سے جاپان بحری جہاز تیار کرنے والا دنیا کا سب سے بڑا ملک ہے۔ 1981ء میں جاپان نے دنیا کا سب سے بڑا بحری جہاز ’’سی وائز جائنٹ‘‘ تیار کیا جس کا وزن 564,763ٹن تھا۔

گھریلو استعمال کی اشیا مثلاً ریفریجریٹرز، کپڑے دھونے کی مشینوں، ویکیوم کلینرز، بجلی کے پنکھوں اور ایئر کنڈیشنرز کی پیداوار میں جاپان نے عظیم ترقی کی ہے۔ کیمیائی صنعت بھی جاپان کی ایک اہم صنعت بن چکی ہے اور جدید صنعت میں استعمال ہونے والے کیمیائی خام مال کی تیاری میں جاپان کا شمار دنیا کے صفِ اوّل کے ممالک میں ہوتا ہے۔

جاپان کی معیشت میں گزشتہ دہائی میں جو تیز رفتار ترقی ہوئی، اس میں اگرچہ اب کمی آگئی ہے اور آئندہ بھی ترقی کی رفتار سست رہنے کی پیش گوئی کی گئی ہے لیکن ماہرین کا خیال ہے کہ جاپان کی یہ معاشی ترقی مستحکم اور مسلسل جاری رہے گی۔ جاپان میں ایسی اشیا تیار کرنے پر زور دیا جاتا ہے جن کی پیداوار میں زیادہ توانائی اور قدرتی وسائل کی ضرورت نہ پڑے بلکہ جدید ترین ٹیکنالوجی اور مہارت کا استعمال ہو۔ جاپانی مصنوعات کی دنیا بھر میں مقبولیت اور ان کی طلب کا اصل کریڈٹ جاپانی کارکنوں کو جاتا ہے، جن کی محنت، شوق اور لگن کی وجہ سے دنیا بھر کے لوگ جاپانی مصنوعات پر اعتماد کرتے ہیں۔

دوسری جنگ ِ عظیم تک جاپان کایہ حال تھا کہ ’میڈاِن جاپان‘ کا لفظ جس چیز پر لکھا ہوا ہو، اس کے متعلق پیشگی طور پر سمجھ لیا جاتا تھا کہ یہ سستی اور ناقابلِ اعتماد ہوگی۔ مغربی ممالک کے تاجر جاپانی ساخت کا سامان اپنی دکان پر رکھنا ہتک سمجھتے تھے۔ پھر صرف 40سال کے اندر جاپان نے کس طرح ایسی انقلابی ترقی حاصل کی؟ ایک امریکی اسکالر ولیم اویو جی کے الفاظ میں اس کا راز، ’جاپانی کارکنوں کے اندر ترغیب پیدا کرکے انھیں بہتر سے بہتر معیار کی اشیا تیار کرنے پر اُبھارنا ہے‘۔ 1949ء میں جاپان میں ایک صنعتی سیمینار منعقد کیا گیا، جس میں امریکا کے ڈائریکٹر ایروڈ ڈلیمنگ کو خصوصی دعوت نامہ بھیج کر بلوایا گیا، جنھوں نے اپنے لیکچر میں اعلیٰ صنعتی پیداوار کا ایک نیا نظریہ پیش کیا۔

یہ ’کوالٹی کنٹرول‘ کا نظریہ تھا۔ جاپانیوں نے امریکی پروفیسر کی بات کو پوری طرح اپنا لیا اور اپنے صنعتی نظام کو کوالٹی کنٹرول کے رُخ پر چلانا شروع کردیا۔ جلد ہی ایسا ہوا کہ جاپانیوں کے کارخانے بے نقص سامان تیار کرنے لگے، دنیا بھر میں جاپانی مصنوعات پر بھروسہ کیا جانے لگا۔ جاپانی، امریکا سے کوالٹی کنٹرول کا مذکورہ نسخہ حاصل کرکے امریکی منڈیوں پر چھا گئے۔ امریکا کا اَپالو دوئم جب چاند پر گیا تو اس کے اندر رکھنے کے لیے بہت چھوٹے ٹیپ ریکارڈر کی ضرورت تھی۔ اتنا چھوٹا اور بالکل صحیح کام کرنے والا ریکارڈر صرف جاپان فراہم کرسکتا تھا۔ اپالو دوئم کے ساتھ جاپانی ساخت کا ریکارڈر چاند پر روانہ کیا گیا۔

جاپان میں ایک ایسا کلچر رائج ہے، جس میں کارکنوں کو اس بات کا ہر وقت احساس رہتا ہے کہ ان کے ہاتھوں تیار شدہ مال سمندر پار ممالک کو برآمد کیا جائے گا اور اگر اس کا معیار خراب ہوا تو جاپانی اشیا کی اہمیت کم ہوجائے گی، نئے آرڈر موصول ہونا بند ہوجائیں گے اور اس کے خراب اثرات جاپانی معیشت کو تباہ کردیں گے۔ جاپانی معیشت کا سارا دارومدار برآمدات پرہے۔ ہر جاپانی کارکن کے لیے کم از کم دو گھنٹے اوور ٹائم کرنا لازمی تصور کیا جاتا ہے۔ تیز کام کرنے کے ساتھ ساتھ جاپانیوں کے کام کی استعداد بھی دیگر قوموں کے مقابلے میں زیادہ ہے۔ امریکی جنرل موٹرز میں سالانہ فی کارکن اگر گیارہ گاڑیاں تیار کی جاتی ہیں تو جاپان کی مزدا موٹرز کا سالانہ اوسط 33گاڑیاں فی کارکن ہے۔

میڈاِن جاپان کا دوسرا مطلب ’اعلیٰ معیار، پائیداری اور سب سے بہتر‘ لیا جاتا ہے۔ دنیا کے کسی بھی حصے میں چلے جائیں، کوئی گھر ایسا نہیں ملے گا، جہاں ’میڈاِن جاپان‘ والی کوئی شے موجود نہ ہو۔ اتنی بڑی کامیابی صرف محنت اور دیانت داری کے بل پر ہی حاصل کی جاسکتی ہے۔ جاپان کی ترقی کا رازاس حقیقت کا اعتراف ہے کہ اس نے دوسری جنگِ عظیم میں شکست کے بعد نا ہی جھوٹی اَکڑ دِکھائی اور نا ہی بے فائدہ سوگ میں اپنا وقت برباد کیا، بلکہ ازسر نو جدوجہد کی۔ اس نے اپنے دشمن کے خلاف الفاظ کی بے مقصد جنگ میں پڑنے سے اجتناب کیا اور اپنی ناکامی کا اعتراف کیا، اسی ناکامی سے ہی ان کو ترقی کی راہیں ملیں اور اسی ناکامی نے ہی جاپانی قوم کو تعلیم و صنعت کے میدان میں کامیابی سے ہمکنار کیا۔

تازہ ترین