لاہور(نمائندہ جنگ، ایجنسیاں)امیر جماعتِ اسلامی سینیٹر سراج الحق نے کہاہے کہ حسینہ واجد حکومت نے جماعتِ اسلامی کی عوامی مقبولیت سے خائف ہوکر سیاسی میدان میں اُن کا مقابلہ کرنے کے بجائے جماعت اسلای بنگلہ دیش کے رہنمائو ں کو عدالتی انتقام کا نشانہ بناتے ہوئے سزائیں دینا شروع کردیں۔ یہ سزائیں پاکستان،بھارت ،بنگلہ دیش کے درمیان اپریل 1974ءمیں طے ہونے والے سہ فریقی معاہدہ کی کھلم کھلا خلاف ورزی ہے۔حکومت پاکستان مذمتی بیانات سے آگے بڑھے،حسینہ واجد 163پاکستانی فوجیوں کی حوالگی کا مطالبہ کرسکتی ہیں۔پارلیمنٹ کے باہر میڈیا سے گفتگو کر تے ہوئےسینیٹر سراج الحق نے ترک صدر طیب اردگان اور ترک حکومت کا شکریہ ادا کیا کہ انہوں نے بنگلہ دیشی رہنمائوں کی غیر انسانی، غیر قانونی سزائوں کے خلاف احتجاجاً اپنا سفیر واپس بلا لیا ہے۔ اگر ہم آج 1974 کے سہ فریقی معاہدہ کی خلاف ورزی کے معاملہ کو عالمی فورم پر نہیں اٹھائیں گے تو خدشہ ہے کہ حسینہ واجد حکومت نے جن 163 پاکستانی فوجیوں کو مورد الزام ٹھہرایا ہے، کل وہ عالمی فورم پر اُن 163 فوجیوں کی حوالگی کا بھی مطالبہ کرے گی۔ محض مذمت کے الفاظ ادا کرنے سے حق ادا نہیں ہوتا بلکہ حکومت پاکستان کو آگے بڑھ کر سفارتی سطح پر اس مسئلے کو اٹھانا چاہیے۔ شہید مطیع الرحمٰن نظامی کا جرم صرف یہ تھا کہ انہوں نے ہمیشہ متحدہ پاکستان کی حمایت کی۔2010سے بنگلہ دیش میں نام نہاد جنگی ٹریبونل قائم کیا گیا، جس کا واحد نشانہ جماعتِ اسلامی اور بنگلہ دیش کی دیگر سیاسی جماعتوں کے قائدین کو سزائیں اور پھانسیاں دینا ہے۔ علی احسن مجاہد، عبدالقادر ملا، صلاح الدین چوہدری کی پھانسیاں اور پروفیسر غلام اعظم جیسے انتہائی ضعیف العمر سیاسی رہنما کی جیل میں دوران قید شہادت اسی بدنامِ زمانہ جنگی ٹریبونل کی کارستانیاں ہیں۔