میرے حافظے میں تو سید محمود خاور صاحب کسی قدر نئے مصنف لگتے ہیں لیکن ان کی ایک نئی تصنیف اتنی پختہ تحریر کی ہے کہ انہیں ایک بہت سینئر صاحب تحریر ہونا چاہئے۔ فی الوقت میں نہیں کہہ سکتا کہ وہ جسمانی طور پر میرے بزرگوں میں ہیں یا خردوں میں لیکن دنیا میں انہیں اپنا بزرگ سمجھ رہا ہوں۔
سچ ہے کہ ان کی تصنیف مینار عظمت ورفعت نواب محمد اسماعیل خان نے مجھے بہت متاثر کیا ہے۔ ایک تو انہوں نے ہماری ایک نئی مگر بڑی مضبوط ہوتی ہوئی رسم توڑی ہے۔ کون سی رسم، یہ کہ اپنے قومی سیاسی علمی بزرگوں پر کچھ نہ لکھا جائے۔ قوم کو پتہ ہی نہیں ہے کہ آج وہ اپنے تمام ”عیوب“ اور کمزوریوں کے باوجود جس قابل تعریف مقام تک پہنچی ہے وہ اس کی اپنی خوبیوں کی وجہ سے بھی سہی لیکن اس میں زیادہ تر ہمارے بزرگوں کی وراثتی کرامات کا ہے وہ ایسے نہ ہوتے جیسے تھے تو آج ہم بھی لگتا ہے کہ ایسے نہ ہوتے جیسے ہیں … اور ہم پر تقابلی مطالعے کے مطابق سب سے پیچھے نہیں نکلیں گے بلکہ بہتوں سے خاصے آگے چل رہے ہیں۔
مگر نہ جانے یہ کوئی مرض ہے یا کوئی بھی رویہ ہے کہ ہم اپنے بے مثال بزرگوں تک کا ذکر عام نہیں رکھتے۔ ملک آزاد ہوئے ساٹھ برس سے زیادہ ہوئے ہمارے ہاں بڑے بڑے لکھاری اور اہل نظر پیدا ہو چکے ہیں مگر بزرگوں کی یاد میں مسبوط کتابوں کا تقریباً قحط ہے۔ اگر میں غلط کہہ رہا ہوں تو برائے خدا فوراً میری تصحیح کر دیجئے میں یہ تصحیح ان کے اسم گرامی اور پتے کے ساتھ اپنے (رسمی) اظہاریئے میں شامل کردوں گا۔
یہ رویہ … یہ قومی رویہ ذہنی طور پر ایک خطرناک مثال شامل تو ہے ہی یہ ایک خطرناک مستقبل بھی تعمیر کر رکھا ہے۔ ہم آج بھی اپنے سیاسی ماضی کو کم کم جانتے ہیں اور اگر وقت یونہی گزر گیا تو اگلی صدی تک ہماری بڑی اکثریت اس (انتہائی ضروری) علم سے محروم رہے تو یہ ملک کیسے بنایا۔ حقیقت میں کس نے بنایا … کیا یہ ہمارے قومی مفاد میں ہو گا؟ نہیں مگر حالات یونہی رہے رویّے یونہی قائم رہے تو ایسا ہونا ناگزیر ہے۔
اس پس منظر میں سید محمود خاور صاحب (جن سے میں ذاتی طور پر واقف نہیں ہوں) یہ کتاب ”مینار عظمت ورفعت“ نواب محمد اسماعیل خان ہمارے قومی سیاسی ادب میں ایک بیش قیمت اضافہ ہے ایک سو اڑتالیس صفحے، مجلہ جلد پر نواب صاحب مرحوم کی نہایت جاذب نظر تصویر اور کتاب کے اندر بھی بڑی خصوصیات ”طرز تحریر اور جہاں ضروری ہو بڑی محنت سے کی ہوئی تحقیق۔ میں سید محمود خاور صاحب کو دست بستہ اس خوبصورت تحریر پر داد دیتا ہوں (یہ داد میں رسماً کسی پر نئے پرانے مصنف تو نہیں دیا کرتا۔)
دراصل اس کتاب میں موٴلف صاحب نے (سید محمود خاور، خود بھی اپنے آپ کو موٴلف قرار دیا ہے (اور آج کے خود پرست ماحول میں یہ ایک بہت اچھی آزاد اور ایماندارانہ خود تعارفی ہے) انہوں نے ایک سو ستائیس چھوٹے بڑے مصنفین کے تاثرات نواب صاحب مرحوم کے بارے میں بڑے سلیقے سے جمع کئے ہوئے ہیں اور لکھنے والوں میں بعض بڑے تین بہت بڑے کام بھی شامل ہیں اور کیوں نہ ہوں نواب صاحب مرحوم ہمارے ”بڑے“ آدمیوں میں بھی بہت بڑے آدمی تھے۔ موٴلف محترم نے خاص لکھنے والوں کے نواب صاحب کے بارے میں جو افکار یا تاثرات جمع کئے ہیں اور آخر میں نواب صاحب کی بعض تصاویر سے اقتباسات بھی دیئے ہیں جن سے نواب صاحب کی قابلیت ، اہلیت، قوم پرستی اور دوراندیشی کی کچھ جھلکیاں جھلکتی ہیں۔ انہوں نے ایک صفحے پر نواب صاحب کا مختصر حیات نامہ بھی دے دیا ہے جو ان کی قابلیت اور نظر پردال ہے۔ خود میں نواب صاحب مرحوم کے عاشقوں میں سے ہوں ان کے متعلق اتنا کچھ معلوم نہیں تھا جو اس ایک صفحے نے بتا دیا ہے کتاب کی قیمت چار سو پچانوے روپے ہے جو آج کل کی قیمتیں دیکھتے ہوئے زیادہ نہیں۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ نواب اسمٰعیل خان یوپی کے مشہور شہر کے باشندے ہوتے ہوئے جسے کسی عنوان پاکستان میں شامل نہیں ہونا تھا۔
تحریک پاکستان میں قائداعظم کی اور اہم ارکان تحریک کی مرضی سے آل انڈیا مسلم لیگ میں قائداعظم کے بعد بھی لیگ میں نمبر دو پوزیشن کے حامل رہے جبکہ انہیں پاکستان بننے کے بعد پاکستان نہیں آنا تھا اور حقیقت بھی یہ ہے کہ پاکستان بننے کے بعد وہ پاکستان مستقل قیام کیلئے نہیں آئے (جبکہ کوئی نہیں آتا) بلکہ بھارت میں ہی رہ کر باقی عمر بھارتی مسلمانوں کی خدمت اور قیادت میں گزار دی۔ مجھے ان کے پاکستانی دورے میں ان سے ملنے کا اعزاز میسر ہوتا تھا۔ ایک بار میں نے جرأت کر کے پوچھا۔ حضرت قبلہ بڑے بڑے بھارتی مسلمان پاکستان بننے کے بعد پاکستان آگئے۔ آپ کے تینوں بیٹے بھی پاکستان آگئے لیکن آپ نہیں آئے جبکہ سنا ہے کہ خود قائداعظم نے اور وزیراعظم نوابزادہ لیاقت علی خان نے بھی آپ کو بار بار ادھر ہجرت کرنے کا مشورہ دیا اور یہاں آپ کو بڑے سے بڑا سرکاری عہدہ بھی وزارت اور گورنری مل سکتی تھی مگر آپ نہیں آئے کیوں نہیں آئے آپ نے تو اس کے قیام کے لئے اپنی جان ومال کی بڑی قربانی بھی کی تھی محض لیڈری ہی نہیں کی۔ آپ یقین کیجئے کہ وہ مسکرائے بولے میاں اگر سب چلے آتے تو سات کروڑ ہندوستانی مسلمانوں کی ضرورت کون پوری کرتا۔ ہم نے پاکستان صرف اپنے لئے تو نہیں بنایا تھا، مسلمانوں کے لئے بنایا تھا اور پاکستان بننے کے بعد بھی تقریباً سات کروڑ مسلمان بھارت میں رہ گئے تھے ان کی خدمت کون کرتا (اس وقت بھارت میں تقریباً دس کروڑ مسلمان تھے تقریباً ساڑھے تین چار کروڑ پاکستان صوبفوں میں آرہے تھے باقی مسلمانوں کو تو بھارت میں ہی رہنا تھا)۔
اور پاکستان بننے کے بعد جس طرح انہیں ہندو کانگریس نے ستایا اس کی تفصیل آج بھی تمام پاکستانیوں کو معلوم نہیں ہے (کیونکہ مورخین پاکستان اگر ہیں تو) یہ تفصیلات بتاتے نہیں۔
نواب صاحب کے تینوں بیٹے پاکستان آگئے تھے (چھ بیٹیوں میں سے غالباً چار بیٹیاں بھی پاکستان آگئی تھیں۔ بیگم کا انتقال پاکستان بننے سے پہلے ہی ہو گیا تھا وہ پچاس کی دہائی میں غالباً دو بار اپنے بچوں سے ملنے کراچی اور لاہور آئے)۔
لکھئے خدارا لکھئے
نواب محمد اسمٰعیل خان پر ایک کتاب تو آگئی۔ تحریک پاکستان کے سرکردہ بزرگوں میں پورے بھارت کے سرکردہ مسلمان شامل تھے۔ انہوں نے تحریک میں بڑی مصیبتیں بھی سہیں۔ بڑے بڑے مالی اور مادی نقصانات بھی اٹھائے ان میں زیادہ تر زمیندار تھے ان کی فصلیں تیار ہوتے ہوئے تباہ کر دی جاتی تھیں۔ شہروں میں ان کے گھروں پر حملے کئے جاتے تھے۔ ہر طرح ان کا جینا حرام کیا جاتا تھا مگر وہ تحریک میں شامل رہے، قربانیاں دیتے رہے ان میں سے کچھ پاکستان بننے کے بعد یہاں آگئے بیشتر نہیں آئے۔ انہوں نے بھارت میں ہی رہ کر پاکستان بنانے کا مزا چکھا۔
خدا رحمت کندایں عاشقان پاک طینت را
(اللہ ان پاک طینت عاشقوں پر رحم فرمائیں۔ آمین)
میں سیاسی لکھنے والوں سے موٴدبانہ عرض کرتا ہوں کہ آپ کی مصروفیات اپنی جگہ تحریک پاکستان آپ سے اپنا حق مانگتی ہے یہ اسے اب تک نہیں ملا۔
ہاشم رضا زیدی صاحب کی بے مثال خدمت
میں انتہائی ممنون ہوں جناب ہاشم رضا زیدی صاحب ایڈمنسٹریٹر بلدیہ عظمیٰ کراچی کا جنہوں نے بلدیہ کے نامساعد مالی حالات کے باوجود انجمن ترقی اردو پاکستان کے حالات کو دیکھتے ہوئے اور اردو زبان سے محبت کا ثبوت پیش کرتے ہوئے انجمن کی گزشتہ برس کی بقایا گرانٹ 75 لاکھ روپے میں سے 12 لاکھ روپے انجمن ترقی اردو کے معاون انتظامی ڈاکٹر جاوید منظر کے حوالے کئے۔ یوں انجمن ترقی اردو کے تحقیقی، تنقیدی، ادب، لسانیات، تراجم کے ساتھ ساتھ ماہانہ رسالہ قومی زبان اور سہ ماہی ”اردو“ جریدے کی اشاعت کے لئے رقم فراہم کر کے ایک قومی فریضہ ادا کیا۔
ہم یہاں جناب ہاشم رضا زیدی کے علاوہ ان کے رفقاء کار جن کی کوششوں سے 12 لاکھ روپے کا چیک انجمن ترقی اردو پاکستان کو فراہم ہوا ان رفقائے کار میں شعیب وقار صاحب سینئر ڈائریکٹر بلدیہ عظمیٰ کراچی، خالد محمود شیخ فنانشل ایڈوائزر بلدیہ عظمیٰ کراچی اور خورشید شاہ صاحب ڈائریکٹر کلچر بلدیہ عظمیٰ کراچی شامل ہیں۔
ہم جناب ہاشم رضا زیدی سے یہ بھی گزارش کرتے ہیں کہ 75 لاکھ اب گزشتہ برس کے گرانٹ میں سے 12 لاکھ روپے وصول ہونے کے بعد بھی 63 لاکھ روپے بقایا ہے۔ ڈاکٹر جاوید منظر نے یہ خوشخبری بھی سنائی ہے کہ خالد محمود شیخ صاحب فنانشل ایڈوائزر نے جناب ہاشم رضا زیدی کے حکم کی تعمیل کرتے ہوئے فرمایا ہے کہ گزشتہ برس کی بقایا رقم اگست 2013ء میں انجمن ترقی اردو پاکستان کوجاری کردی جائے گی اللہ جناب ہاشم رضا زیدی اور ان کے رفقاء کو سلامت رکھے جنہوں نے قومی زبان اردو کی محبت اور خدمت کرتے ہوئے اس گرانٹ کے مسئلے کو حل کرنے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔