• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

افغانستان کی صورت حال سے لے کر عالمی مستقبل کے اُن واضح تقاضوں پر اگرچہ کوئی ابہام نہیں کہ دنیا بھر کے لوگوں کو اقوامِ متحدہ کے عالمی منشور کے تحت مساوات، انصاف اور بنیادی انسانی حقوق کے مطابق امن و آشتی سے رہنے اور ترقی کرنے کے یکساں مواقع حاصل ہونے چاہئیں مگر اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی کے 76ویں اجلاس میں منگل 21ستمبر سے شروع ہونے والی اعلیٰ سطح کی عمومی بحث سے لے کر مشرق و مغرب سے آنے والے بیانات اور بعض اقدامات، بالخصوص افغانستان و پاکستان اور آس پاس کے ملکوں پر مشتمل پورے خطّے میں جن خطروں اور امکانات کی نشاندہی کررہے ہیں، ان کے گہرے اور محتاط تجزیے کے ساتھ فعال، متحرک اور تخلیقی سفارتکاری کی ضرورت بڑھ گئی ہے۔ نیویارک میں منعقدہ اقوامِ متحدہ کے جنرل اسمبلی اجلاس میں صدر جوبائیڈن نے امریکہ کے اہم ترین منصب پر فائز ہونے کے بعد اپنے پہلے خطاب میں متواتر جنگوں کا دور گزرنے، تواتر سے سفارتکاری کا دور آنے، امریکہ کے نئی سرد جنگ یا تقسیم شدہ دنیا کا خواہاں نہ ہونے کی جو باتیں کہیں ان سے اچھی امیدیں پروان چڑھتی ہیں مگر ایشیائی اور افریقی ملکوں کے مشترکہ چیلنجوں کے حوالے سے انڈیا، آسٹریلیا، جاپان کے ساتھ چار ملکی پارٹنر شپ کے حوالے سے جو اشارے دیے گئےان سے کئی سوالات ابھرتے محسوس ہورہے ہیں۔ منگل ہی کے روز اقوامِ متحدہ کے سیکرٹری جنرل نے اس خدشے کا اظہار کیا کہ دنیا تیزی سے منقسم ہونے کی طرف بڑھ رہی ہے۔ اس باب میں ان کی یہ تجویز برمحل ہے کہ امریکہ اور چین کے درمیان مذاکرات ہونے چاہئیں۔ صدر جوبائیڈن کی اس بات میں خاصا وزن ہے کہ موجودہ عشرہ دنیا کے مستقبل کا تعین کرے گا۔ اس باب میں اب تک کئی ہمہ جہت چیلنج دنیا کے سامنے آئے جن میں پوری دنیا کی معیشت اور طرز زندگی کو زیر و زبر کرنے والی کورونا وبا اور موسمیاتی تبدیلی کے بڑھتے ہوئے خطرناک اثرات سامنے ہیں جبکہ ایک اور وبا کی پیش گوئی بھی کی گئی ہے، ان کے سلسلے میں تمام بڑے ممالک کو سرجوڑ کر بیٹھنا اور عالمی سطح پر ایسا لائحہ عمل بنانا ہوگا جس کے ذریعے انسانی زندگی کو لاحق خطرات دورکرنا اور دنیا کو زیادہ محفوظ، پُرسکون اور خوبصورت بنانا ممکن ہو۔ اس کے لئے خصوصاً بڑی طاقتوں کو اپنے انفرادی مفادات کے خول سے باہر آکر پوری انسانیت اور کرہ ارض کے تحفظ کو مطمح نظر بنانا ہوگا جہاں تک افغانستان کا تعلق ہے۔ بیرونی افواج کا انخلا مکمل ہونے کے بعد اس بات کو سراہا جانا چاہئے کہ پورے ملک پر مکمل کنٹرول حاصل کرنے کے بعد افغان طالبان عالمی برادری کی توقعات پر پورے اترنے کیلئے وسیع البنیاد و جامع کابینہ کی تشکیل دینے سمیت مختلف اقدامات بروئے کار لا رہے ہیں اور طالبان ترجمان کے مطابق جلد ہی کابینہ میں خواتین بھی شامل کر لی جائیں گی۔ وزیراعظم عمران خان کی برطانوی میڈیا سے انٹرویو میں کہی گئی اس بات میں وزن ہے کہ کئی معاملات میں 20سال جنگ کے بعد اقتدار میں آنے والے طالبان سے اتنی جلد توقعات رکھنا درست نہیں۔ بہادر افغان خواتین اپنے حقوق خود حاصل کریں گی۔ وزیراعظم عمران خان کے بیان سے یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ پاکستان اور دیگر پڑوسی ممالک افغانستان میں ہونے والی پیش رفتوں کا جائزہ لے کر ہی موجودہ افغان حکومت کے جواز سے متعلق کوئی متفقہ فیصلہ کریں گے۔ ان حالات میں وزیر خارجہ پاکستان شاہ محمود قریشی کی یہ بات قابل توجہ ہے کہ عالمی برادری کو موجودہ مشکل صورت حال میں طالبان کو تنہا نہیں چھوڑنا چاہئے اور ان کے منجمد اثاثے بحال کرنے چاہئیں تاکہ خوراک کی کمی اور معاشی مشکلات کے شکار ملک کو انسانی المیے سے بچایا جا سکے۔ یہ بات پورے خطے کے استحکام اور عالمی امن کیلئے بھی ضروری ہے۔

تازہ ترین