• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

سچ ہمیشہ کڑوا اور ماچس ہاتھ میں لئے آگ لگانے کیلئے تیار ہوتا ہے جبکہ جھوٹ، فکشن اور اساطیر ہر دور میں انسانوں کیلئے تفریح طبع کا ذریعہ رہی ہیں۔ چنانچہ فطرتاً لوگ جھوٹ کی میٹھی گولی کو سچ کے کڑوے گھونٹ پر ترجیح دیتے ہیں کیونکہ جھوٹ اپنی تمام تر حشر سامانیوں کیساتھ اپنے دامن میں ایک رومان اور ڈرامائی رنگ لئے لوگوں کو وقتی طور پر محظوظ کرتا ہے لیکن حقیقت تو یہ ہے کہ سچ پھر بھی اٹل ہوتا ہے۔ آج جب حکومتِ پاکستان بظاہر فیک نیوز کے خاتمہ کیلئے ’’پی ایم ڈی اے‘‘ جیسا کالا قانون نافذ کرنا چاہتی ہے تو اسے چند حقائق زیر نظر رکھنا ہوں گے۔ مثلاً، کیا ماضی کے وہ سارے نعرے، وعدے اور اپوزیشن پر لعن طعن فیک نیوز نہیں تھی؟ ابھی زیادہ عرصہ نہیں ہوا جب وزیراعظم بننے سے پہلے عمران خان بڑے وثوق سے کہا کرتے تھے کہ 2013کے انتخابات میں دھاندلی ہوئی ہے، انہوں نے بعد ازاں نگران وزیراعلیٰ پنجاب نجم سیٹھی کو اس میں ملوث قرار دے دیا اور ان پر 35حلقوں میں دھاندلی کا الزام لگایا جسے عمران خان نے ’’35پنکچرز‘‘ کا نام دیا اور متعدد بار میڈیا پر اِس الزام کو دہراتے رہے۔ بات جب بہت بڑھی اور کورٹ کچہری اور ثبوت فراہم کرنے تک پہنچی تو موجودہ صدر عارف علوی اور عمران خان نے اپنی اس فیک نیوز پر معافی مانگ لی اور کہا یقیناً ہمیں افواہوں کی تصدیق کرنا چاہئے تھی۔ پھر عمران خان پکار پکار کر کہتے رہے کہ ڈالر مہنگا ہو گیا، پٹرول کی قیمت بڑھ گئی اور ایسا کر کے نواز شریف نے پاکستان کی معیشت تباہ کر دی اور ایک روپیہ پٹرول کی قیمت بڑھے تو عوام کی جیبوں سے اربوں روپے نکل کر حکمرانوں کی جیب میں چلے جاتے ہیں تو کیا یہ فیک نیوز نہیں تھی؟

یہ 2019تھا جب یورپی یونین میں فیک نیوز کے حوالے سے کام کرنے والے ایک تحقیقی ادارے ’’ای یو ڈس انفولیب‘‘ کی جانب سے ایک رپورٹ جاری کی گئی جس میں ایسی تنظیموں کی نشاندہی کی گئی جو ایک منظم طریقے سے ہر سال اقوامِ متحدہ میں انسانی حقوق کے اجلاس کے دوران پاکستان مخالف مہم چلاتی ہیں، تحقیقات کے مطابق ان تنظیموں کے تانے بانے بھارت کے ایک غیر معروف کاروباری ادارے ’سری واستوا گروپ‘‘ سے ملتے تھے۔ رپورٹ کے مطابق اس پورے نیٹ ورک میں غیر سرکاری تنظیمیں (این جی اوز) انڈین بیانیے کو تقویت دیتی ہیں اور پاکستان پر تنقید کر رہی ہیں۔ مذکورہ تحقیقاتی ادارے کے ایگزیکٹو نے بتایا کہ اس پورے نیٹ ورک کی سب سے زیادہ پریشان کن بات یہ ہے کہ جعلی این جی اوز اور جعلی ویب سائٹس ایسی فیک نیوز اور بیانیہ پیش کرتی ہیں کہ محسوس ہوتا ہے اُن کے موقف کو بڑے پیمانے پر عام لوگوں کی حمایت حاصل ہے اور یہی وہ چیز ہے جس سے ڈس انفارمیشن یا فیک نیوز ثابت ہوتی ہے۔ نومبر 2019میں ہی ’’ای یو ڈس انفو لیب‘‘ نے انکشاف کیا تھا کہ دنیا کے 65سے زیادہ ملکوں میں 260سے زیادہ ایسی فیک نیوز ویب سائٹس ہیں جو بھارت کے مفاد میں یورپی یونین اور اقوامِ متحدہ پر اثر انداز ہونے کیلئے بنائی گئی ہیں جو بار ہا پاکستان پر تنقید کرتی ہیں۔

یہ تو وہ حقائق تھے جو ایک غیر ملکی تحقیقاتی ادارے نے تلاش کئے اور پاکستان کیخلاف کام کرنے والی ویب سائٹس کو بےنقاب کیا لیکن پاکستان کے اندر ہی ایک دوسرے کیخلاف جو فیک نیوز کی فیکٹریاں سوشل میڈیا اور شخصیات کی صورت میں قائم ہیں، ان کی زبان بندی کیسے ہو گی؟ کیا ’’ پی ٹی آئی‘‘ حکومت نے اس کے سدِ باب کیلئے بھی کوئی پیش بندی کی ہے؟ اور یہ ’’پی ایم ڈی اے‘‘ کی صورت جو آرڈیننس لانے کی کوشش کی جا رہی ہے یہ تو صرف اپنے مفاد کیلئے میڈیا کی مُشکیں کسنے کی ایک کوشش ہے کہ ملک کے ہر ادارے بلکہ فیک نیوز کے ذریعے عوام کے جذبات و احساسات کو بھی کنٹرول کیا جائے۔ کیا حکومت بتا سکتی ہے کہ سچ بولنے اور آئینہ دکھانے والے ٹیلی ویژن اینکرز کی ملازمتیں کیوں چھینی گئیں، انہیں ہراساں کیوں کیا گیا اور انہیں فیک نیوز بنانے اور بولنے کیلئے مجبور کیوں اور کس نے کیا؟ اس سوال کا کوئی جواب ہے کہ نہیں؟ تو آپ کے خیال میں آپ کی منشا کے عین مطابق صرف آپ کے مفادات کو Glorifyکرنے والا ادارہ ہی فیک نیوز نہیں دیتا اور باقی سب ’فیک نیوز کی فیکٹریاں‘ ہیں؟ کیا چور ڈاکو کی آوازوں کو ہی آپ درست نیوز سمجھتے ہیں۔ یہ بھی بتائیں کہ بیگم کلثوم نواز کی علالت کے موقع پر جو وزیر و مشیر کاغذ لہرا لہرا کر مرحومہ کی علالت کو ’ڈرامہ‘ قرار دیتے رہے تو کیا مرحومہ کی موت نے مہر ثبت نہیں کر دی کہ یہ وزیر و مشیر فیک نیوز پھیلا رہے تھے؟ شاہد خاقان عباسی کے حوالے سے ’ایل این جی‘ کے سودوں پر پروپیگنڈا، رانا ثنا اللہ پر منشیات کیس، خواجہ سعد رفیق کی پیرا گون ہاؤسنگ سوسائٹی کیس میں گرفتاری، نواز شریف اور ان کے اہلِ خانہ کی کرپشن کہانی، احد چیمہ، فواد حسن فواد کے مقدمات اور آصف علی زرداری، فریال تالپور اور دیگر اپوزیشن رہنماؤں پر الزامات کیا یکے بعد دیگرے فیک نیوز ثابت نہیں ہو رہے؟

احسن اقبال کے نارووال اسپورٹس پروجیکٹ کا پروپیگنڈا، 90دن میں کرپشن ختم کرنے کا پروپیگنڈا، وزیراعظم اور کابینہ ایماندار ہونے، 15سے 20لوگوں سے زیادہ کابینہ نہ ہونے، روڈ انفراسٹرکچر و انڈر پاس نہ بنانے، میٹرو بس نہ بنانے، سی پیک کے منصوبے کو قرض کہنا، دھرنے کی وجہ سے چین کے صدر کا طے شدہ دورہ پاکستان سے انکار کو مسلم لیگ کی حکومت کا جھوٹ قرار دینا، سکھر ملتان موٹر وے پر کک بیکس کا الزام، عوام کی طاقت سے حکومت میں آنے، غیرممالک سے قرضے نہ لینے کی باتیں، پولیس اور دیگر اداروں کو آزاد کرنے اور اصلاحات کی باتیں، ایک آزاد وزیراعظم ہونے کے دعوے، انصاف ہر ایک کیلئے کے بلند بانگ نعرے ،وعدے و قسمیں کیا یہ سب فیک نیوز ثابت نہیں ہوئیں؟

تحریک انصاف کی حکومت دھیان میں رکھے کہ فیک نیوز کا یہ رجحان ریاست کی بنیادی اساس کیلئے انتہائی خطرناک ہے کیونکہ ڈس انفارمیشن کے جال کو پھیلانا جتنا آسان ہے اسے پکڑنا اسی قدر مشکل، لہٰذا اپنے بیانیے کی اس ’’جنگ‘‘ کو پھیلانے میں احتیاط سے کام لیں، ایسا نہ ہو کر صیاد بنتے بنتے خود شکار ہو جائے اور آخری گزارش یہ ہے کہ کیا یہ فیک نیوز نہیں کہ پاکستان میں جمہوریت ہے اور یہاں لکھنے اور بات کرنے کی مکمل آزادی ہے؟

تازہ ترین