کرکٹ کو کبھی انگریزوں اور احمقوں کا کھیل قراردیا جاتا تھا جسے دوپہر کو تپتے ہوئے سورج کے نیچے کھیلا جاتا لیکن درحقیقت اسے بہت سنجیدہ اور دانش مند لوگ کھیلتے تھے ۔ اسے شریف آدمیوں کا کھیل بھی کہا جاتا تھا۔ افسوس اب ایسا نہیں ۔ کرکٹ کی سب سے بڑی خرابی اس کا سیاست دانوں کے ہاتھوں میں ایک حربہ بن جانا ہے اورسیاست دان صرف تباہی اور انتشار پھیلانا ہی جانتے ہیں۔ اب یہ بدعنوانوں اور لفنگو ں کا کھیل ہے ۔
نیوزی لینڈ نے ایسا ثابت کردیا ۔ اسپورٹس مین سپرٹ کہا ں گئی؟ جب آخری لمحے پر، کھیل شروع ہونے سے پہلے ، تماشائیوں کی ایک بڑی تعداد منتظر تھی تو اُنہوں نے ’’سکیورٹی کی سنگین وجوہ‘‘ کا بہانہ بناتے ہوئے پاکستان کا دورہ ملتوی کرنے کا یک طرفہ فیصلہ کرلیا۔ کیا مذاق ہے! گویا سکیورٹی کی دھمکی کا صرف نیوزی لینڈ کو علم ہوانہ کہ پاکستان کو، حالاں کہ پاکستان دنیا کی سب سے بڑی اور مستند اینٹی ٹیررسٹ فورس رکھتا ہے ۔ نیوزی لینڈ کی دورے سے اچانک دستبرداری نے نہ صرف شائقین کرکٹ کو مایوس کیا، اس نے کھیل اور سیاست کوبھی ایک صفحے پر لا کھڑا کیا۔ اب سکیورٹی کی بجائے سیاست اور بھارت کے کردار پر گفتگوہورہی ہے ۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ بھارت کی اپنی کرکٹ ٹیم بہت اچھی ہے لیکن ہنگامہ ابھی تھما نہیں ۔ چند دنوں بعد انگلینڈ نے بھی پاکستان کا دورہ منسوخ کردیا ۔ اُنہوں نے اس کی وجہ سکیورٹی کی بجائے کھلاڑیوں کی ذہنی حالت بتائی ۔ ہم سب جانتے ہیں کہ انگریز تو پتا کھڑکے تو ڈر جاتے ہیں ، جیسا کہ اُنہوںنے کلکتہ میں ٹیم کی دھنائی کی وجہ آلودگی بتائی تھی ۔ ذرا سوچیں، یہ انگلینڈ ہی ہے جس نے یہ کھیل ایجاد کیا۔ اس کا یہ رویہ انتہائی افسوس ناک ہے لیکن موجودہ صورت حال قومی رقابت سے کہیں زیادہ پیچیدہ ہے ۔ اس سے مجھے وہ بات یاد آتی ہے جو میں نے گزشتہ مضمون میں بیان کی تھی کہ مغرب ’’سیاسی اسلام ‘‘ کو زک پہنچانے کی کوشش کررہا ہے ۔ افغانستان میں امریکہ کی شکست اور طالبان کی فتح مغرب کے لیے ایک شدید جھٹکا اور سیاسی اسلام کے لیے ایک حوصلہ افزا بات ہے۔ اس لیے اُنہیں فوراً نقصان پہنچانے کی ضرورت ہے۔ ہماری اپنی جغرافیائی پوزیشن، شان دار مسلح افواج اور جوہری صلاحیت کے ساتھ پاکستان سیاسی اسلام کا ساتھ دینے والی سب سے طاقت ور ریاست ہے ۔ پاکستان ہمیشہ سے مغرب کا ہدف تھا لیکن اب اسے جوہری ہتھیاروں سے محروم کرنے کا منصوبہ بن چکا ۔
وہ پاکستان کا اس سے زیادہ کیا نقصان کرسکتے ہیں کہ اسے دنیا کے خطرناک ترین ممالک کی فہرست میں شامل کردیں ۔ وہ ممالک جن سے گریز کیا جاتا ہے ۔ یہ ہماری سیاحت کی صنعت، غیر ملکی سرمایہ کاری اور پاکستان کی دنیا میں مجموعی پوزیشن کے لیے بہت بڑا خطرہ ہے ۔ حکومت پاکستان نے بہت معقول ردعمل کا اظہار کیا ہے ۔ اس نے بے معنی الزام تراشی سے گریز کیا ہے ۔ اس کے ساتھ ساتھ یہ اُن کے بچھائے ہوئے جال میں بھی نہیں پھنسی ۔ مجھے یقین ہے کہ حکومت محتاط رویہ اپنائے رکھے گی ۔ پاکستان کو اس وقت اضافی فائدہ یہ ہے کہ اس کا وزیر اعظم دنیائے کرکٹ کا سابق سپراسٹار ہے جس نے عالمی کپ جیتنے والی پاکستانی ٹیم کی قیادت کی تھی ۔ لیکن نیوزی لینڈ اور انگلینڈ نے بھارت کی شہ پر کرکٹ کو لفنگوں اور بدمعاشوں کے کھیل میں تبدیل کردیا ہے ۔ اگلے چند دنوں میں آسٹریلیا کو بھی پاکستان کا دورہ کرنے یا نہ کرنے کا فیصلہ کرنا ہے ۔تاثر ہے کہ ہاتھی کے پائوں میں ہی سب کا پائوں ہوگا۔ درحقیقت یہ آسٹریلیا کے لیے بہت بڑا موقع ہے کہ وہ دغابازوں کی صف میں شامل ہونے کی بجائے درست فیصلہ کرتے ہوئے جنٹل مین ہونے کا ثبوت دے ۔
اب واپس امریکی اور مغربی حکمت عملی کی بات کرلیتے ہیں جسے امریکن انٹرپرائز انسٹی ٹیوٹ نے وضع کیا ہے ۔ اس کا ہدف سیاسی اسلام کا خاتمہ ہے ۔ اس کا آغاز برطانیہ نے خلافتِ عثمانیہ کا خاتمہ کرتے ہوئے کیا تھا ۔ اب جیسا کہ میں نے کہا، افغانستان میں شرم ناک شکست کے بعد اُنہوں نے اپنی توپوں کا رخ پاکستان کی طرف کرلیا ہے ۔ ترکی اور ایران بھی اُن کے اہداف ہیں ۔ وہ ہر ملک کے خلاف جھوٹا اورمنفی تاثر پھیلاکر اس کی ساکھ خراب کرنے کی کوشش کریں گے ،اور ضرورت پیش آئی تو جنگ چھیڑنے سے بھی گریز نہیں کریں گے۔لیکن یہ امریکہ کی بہت بڑی غلطی ہوگی ۔ وہ بھی ممکنہ طور پر پتھر کے دور میں چلا جائے گا۔ رواں سال امریکی پتھر کے دور میں جاتے دکھائی بھی دیے جب دائیں بازو کے سفید فام انتہا پسندوں نے دارالحکومت پر ہلہ بول دیا ۔ اس واقعے کے اثرات ابھی باقی ہیں ،ا ور امریکہ ان پر قابو پانے کی کوشش میں ہے ۔ بوب ووڈ کی ایک نئی کتاب کے مطابق ’’امریکہ خطرے میں ‘‘ ہے ۔ سچی بات یہ ہے کہ دنیا خطرے میں ہے ۔ کوئی ملک بھی پاکستان سے زیادہ خطرے میں نہیں۔ پاکستان کو بہت زیادہ بالغ النظری سے اس کا تدارک کرنا ہے ، جیسا کہ وہ اب تک کرتا آیا ہے ۔ ہمیں اپنے جوہری اثاثوں کی بہت زیادہ چوکس رہتے ہوئے حفا ظت کرنی ہے اور اپنے درمیان موجود غداروں سے محتاط رہنا ہے کیوں کہ یہ وہ لوگ ہیں جو دشمن کو آپ پر قابوپانے کے قابل بناتے ہیں ۔ یہ عمران خان کی پہلے سے کہیں بڑی آزمائش ہے ، اور وہ اس خطرے سے نمٹنے کی صلاحیت، عزم اور قوتِ ارادی رکھتے ہیں ۔
امریکہ خود بھی بہت بڑے خطرے سے دوچار ہے ۔ ڈونلڈ ٹرمپ اور اُن کے ساتھی چھ جنوری کو ایک مرتبہ پھر شورش پھیلانے جارہے ہیں ۔ پاکستان کو اپنی طرز کے خطرے کا سامنا ہے جو گمراہ، بھٹکے ہوئے اور احمق لبرلز کی صورت موجود ہے ۔ انہیں لبرل ازم کی ابجد کا بھی علم نہیں ، وہ صرف خود کو برائے فروخت رکھتے ہوئےاپنے دام کھرے کرتے ہیں ۔ آپ کو ان سے خبردار کیا جاچکا ہے ۔