اسلام آباد (نمائندہ جنگ)عدالت عظمیٰ نے ملک میں پارلیمانی جمہوری نظام کی بجائے ’صدارتی نظام کے نفاذ‘ کیلئے ریفرنڈم کروانے کے حکم کے اجراء کیلئے دائر کی گئی آئینی درخواستوں کی سماعت کے دوران رجسٹرار آفس کے اعتراضات کو برقرار رکھتے ہوئے تمام درخواستیں ناقابل سماعت قرار دیدی ہیں۔عدالت نے قرار دیا ہے کہ آئین وقانون سے درخواستیں سننے کی کوئی رہنمائی نہیں ملی ہے ۔
عدالت نے آبزرویشن دی کہ سپریم کورٹ کے پاس سیاسی نظام تبدیل کرنے کا کوئی اختیار نہیں ہے۔جسٹس عمر عطا بندیال نے ریما رکس دیئے کہ ہمارے پاس ایک سیاسی نظام کو ختم کرکے، دوسرا لانے کا کوئی اختیار نہیں ہے ،یہ اختیار سیاسی مقتدرہ کا ہے،امید ہے پارلیمانی نظام چلے گا تو بہتری آئیگی۔ جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیئے کہ ملک میں ریفرنڈم اور صدارتی نظام کا نتیجہ اچھا نہیں نکلا،فیلڈ مارشل ایوب خان نے بغاوت کرکے اقتدار غصب کیا اورریفرنڈم کراکر صدارتی نظام دیا لیکن صدارتی نظام کا اختتام ملک کے دو ٹکڑے ہونے پر ہوا۔
دوران سماعت جسٹس منصور علی شاہ نے سوال اٹھایاہے کہ نظام کی تبدیلی ایک سیاسی معاملہ ہے اورسیاسی معاملات میں عدالت کیا کرسکتی ہے؟فاضل جج کا کہنا تھا کہ ہمارا کام تنازعات کو حل کرنا ہے جبکہ سیاسی نظام کی تبدیلی تنازعہ نہیں ہے۔
جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس منیب اختر پر مشتمل تین رکنی بینچ نے آئینی درخواستوں پر رجسٹرار آفس کے اعتراضات کے خلاف اپیلو ں کی سماعت کی تو درخواست گزار احمد رضا قصوری اورصادق علی نے ذاتی حیثیت میں دلائل پیش کئے جبکہ درخواست گزار حفیظ الرحمن کی جانب سے ان کے وکیل نے دلائل دیئے۔
احمد رضا قصوری نے دلائل کا آغاز کیا توجسٹس عمر عطا بندیال نے درخواست گزار کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ اس میں دو رائے نہیں کہ آئین کے مطابق وزیر اعظم کسی بھی معاملے پر ریفرنڈم کا کہہ سکتے ہیں لیکن رجسٹرار آفس کا اعتراض یہ ہے کہ آپ اس معاملے کے متاثرہ فریق نہیں ہیں،پہلے آپ اپنی جانب سے مقدمہ کرنے کا حق(لوکس سٹینڈائی ) ثابت کریں۔ درخواست گزار کا موقف تھا کہ وہ واحد زندہ شخص ہے جس نے یہ آئین بنایا ہے۔ ملک پستی کی جانب جارہا ہے ،معاشی نظام بیٹھ گیا ہے اور مروجہ نظام کے بارے میں ایک بحث جاری ہے۔
جسٹس بندیال نے ریمارکس دیئے کہ جب بھی ملک میں صدارتی نظام آیا اس کا نقصان ہی ہواہے،درخواست گزاروں نے تحریک چلانی ہے تو سیاسی تحریک چلائیں، ایک نظام کو ختم کرکے دوسرا نظام لانے یا سیاسی نظام بدلنے کا ہمارے پاس کوئی ا ختیار نہیں ہے۔
جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ خلفائے راشدین کی طرح کے حکمرانوں کا ہونا ایک خوبصورت خواہش ہے،لیکن اب خلفائے راشدین جیسی قیادت ملنا ممکن نہیں ہے۔
جس پر درخواست گزار نے کہا پالیسی صاحب الرائے افراد کے ہاتھ میں تو دی جاسکتی ہےجس پر جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا آپ ٹیکنوکریسی کی بات کرتے ہیں، لیکن یہ معاملہ عدالتی اختیار سے باہر ہے۔
درخواست گزار حفیظ الرحمن کے وکیل نے دلائل دیتے ہوئے موقف اختیار کیا کہ مروجہ نظام سو فیصد جمہوری نہیں ہے،پارلیمنٹ میں تیس فیصد نمائندے غیر منتخب ہوتے ہیں،جسٹس بندیال نے کہا آپ مخصوص نشستوں کی بات کررہے ہیں ،لیکن ملک میں جماعتی جمہوریت ہے اور مخصوص نشستوں پر منتخب ہونے والے پارٹی پالیسی کے پابند ہوتے ہیں۔