وزیراعظم عمران خان نے دہشت گردی کیخلاف جنگ میں پاکستان کی بے مثال قربانیوں کو اجاگر کرتے ہوئے اس امر پر زور دیا ہے کہ پاکستان کو افغانستان کی جنگ کے نتائج پر مورد الزام نہیں ٹھہرانا چاہیے، الزام تراشی کا رویہ ترک کرکے افغانستان کے مستقبل کی طرف دیکھنا چاہیے ، درست اقدام یہ ہے کہ افغانستان میں امن و استحکام کیلئے نئی افغان حکومت کیساتھ تعاون کیا جائے، طالبان کی حکومت اور بین الاقوامی برادری کے درمیان رابطہ ہر ایک کیلئے مثبت مفادات کا حامل ہوگا، ماضی کی غلطیوں کو دہرایا تو بے چینی، بڑے پیمانے پرپناہ گزین اور دہشتگردی جیسے مسائل بڑھیں گے اور تمام فریق متاثر ہوں گے۔
وزیراعظم نے ان خیالات کا اظہار’’واشنگٹن پوسٹ ‘‘میں شائع اپنے ایک مضمون کیا۔
وزیراعظم نے کہا کہ افغانستان کے بارے میں امریکی کانگرس میں حالیہ بریفنگ کو دیکھ کر حیرت ہوئی کہ دو دہائیوں سے زیادہ عرصے تک دہشت گردی کے خلاف جنگ میں امریکی اتحادی کی حیثیت سے پاکستان کی قربانیوں کا کوئی ذکر نہیں کیا گیا بلکہ اس کی بجائے ہمیں امریکا کے نقصان کا ذمہ دار ٹھہرایا گیا،2001ءکے بعد میں بار بار خبردارکرتا آیا ہوں کہ افغان جنگ جیتی نہیں جاسکتی کیونکہ افغانوں نے کبھی بھی طویل غیر ملکی فوجی تسلط کو قبول نہیں کیا اور پاکستان سمیت باہر سے کوئی بھی اس حقیقت کو تبدیل نہیں کرسکتا۔
انہوں نے کہا کہ بدقسمتی سے نائن الیون کے بعد پاکستانی حکومتوں نے غلطی کی نشاندہی کرنے کے بجائے امریکہ کو خوش کرنے کی کوشش کی۔ اس وقت کے پاکستان کے فوجی حکمران پرویز مشرف نے نائن الیون کے بعد امریکا کے ہر مطالبے پر اتفاق کیا جس کی پاکستان اور امریکہ کو بہت زیادہ قیمت چکانا پڑی۔ امریکا نے پاکستان سے کہا کہ ان گروپوں کو نشانہ بنائیں جن کی سی آئی اے اور ہماری خفیہ ایجنسی آئی ایس آئی نے1980 کی دہائی میں افغانستان میں سوویت یونین کو شکست دےنے کیلئے مشترکہ طور پر تربیت کی تھی، اس وقت ان افغانوں کو آزادی پسند قرار دے کر سراہا گیا تھا، صدر رونالڈ ریگن نے وائٹ ہائوس میں مجاہدین کی میزبانی بھی کی تھی۔
وزیراعظم نے کہا کہ جب سوویت یونین کو شکست دی گئی تو امریکا نے افغانستان کو بے یارومددگار چھوڑدیا، پاکستان میں 40 لاکھ سے زائد افغان پناہ گزین اور افغانستان میں خانہ جنگی چھوڑی گئی، اسی سکیورٹی خلا کے دوران طالبان ابھر آئے جن میں سے کئی افغان پناہ گزین کیمپوں میں پیدا ہوئے اور انہوں نے پاکستان میں تعلیم حاصل کی۔
نائن الیون کے بعد امریکا کو ہماری دوبارہ ضرورت پیش آئی لیکن اس بار ان لوگوں کیخلاف جنکی ہم نے غیر ملکی قبضے سے لڑنے کیلئے ملکر حمایت کی تھی، پرویز مشرف نے امریکہ کو لاجسٹکس اور ہوائی اڈوں کی پیشکش کے علاوہ سی آئی اے کو پاکستان میں اپنے قدم جمانے کی اجازت دی، حتیٰ کی ہماری سرزمین پر پاکستانیوں پر بمباری کرنے والے امریکی ڈرونوں سے چشم پوشی اختیار کرلی گئی۔ پاک فوج پہلی بار پاک افغان سرحد پر نیم خودمختار قبائلی علاقوں میں داخل ہوئی او ر یہی علاقہ اس سے پہلے سوویت یونین کیخلاف جہاد میں استعمال ہوتا رہا، ان علاقوں کے آزاد پشتون قبائل کے طالبان اور دیگر عسکریت پسندوں سے گہرے نسلی تعلقات تھے۔
وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ ان لوگوں کیلئے افغانستان میں امریکا بھی سوویت یونین کی طرح ایک قابض ملک تھا جوایسے ہی سلوک کا مستحق تھا، اس وقت چونکہ پاکستان امریکا کا ساتھی تھا، اسلئے ہمیں قصوروار سمجھتے ہوئے ہم پر حملے کئے گئے۔ پاکستان کی سرزمین پر 450 سے زائد امریکی ڈرون حملے کئے گئے جس سے پاکستان تاریخ کا وہ واحد ملک بن گیا جس پر اتحادی نے ہی بمباری کی، ان حملوں سے شہریوں کی بڑے پیمانے پر ہلاکتیں ہوئیں ، جس سے امریکا مخالف اور پاکستانی فوج کے جذبات بڑھ گئے۔
وزیر اعظم نے کہا کہ پاکستان کے خلاف 2006 اور 2015 کے درمیان 50 عسکریت پسند گروہوں نے جہاد کا اعلان کیا اور ہم پر16 ہزار سے زائد دہشت گرد حملے کئے گئے، پاکستان کو80 ہزار سے زائد افراد کا جانی اور ملکی معیشت کو 150 ارب ڈالر سے زیادہ کا نقصان ہوا، اس تنازعے نے پاکستان کے 35 لاکھ شہریوں کو ان کے گھروں سے بے گھر کردیا۔
انہوں نے کہا کہ دہشت گردوں کیخلاف انسداد دہشت گردی کی کوششوں کے دوران فرار ہوکر افغانستان میں داخل ہونے والے عسکریت پسندوں نے بھارتی اور افغان انٹیلی جنس ایجنسیوں کی مدد اور مالی تعاون سے پاکستان کیخلاف مزید حملے شروع کئے۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان کو اپنی بقا کی جنگ لڑنا پڑی، کابل میں سی آئی اے کے ایک سابق اسٹیشن چیف نے 2009 میں لکھا تھا کہ امریکہ کے براہ راست سخت دبائوسے ملک میں دراڑیں پڑنا شروع ہو گئیں اور اسکے باوجود امریکا ہم سے افغانستان کی جنگ کیلئے ڈو مور مطالبہ کرتا رہا ۔
وزیرا عظم نے کہا کہ میں نے اس سے ایک سال قبل 2008 میں اس وقت کے سینیٹرز جو بائیڈن، جان ایف کیری، ہیری ایم ریڈ اور دیگر لوگوں سے ملاقاتیں کیں، میں نے اس خطرناک صورتحال کی جانب انکی توجہ مرکوز کرائی اور افغانستان میں جاری بے کار فوجی مہم کے بارے میں انہیں بتایا۔ وزیراعظم نے کہا کہ نائن الیون کے بعد کے تمام عرصے میں اسلام آباد میں سیاسی مفاد غالب رہا، صدر آصف زرداری جو بلاشبہ پاکستان کی قیادت کرنے والے سب سے کرپٹ شخص ہیں، نے امریکیوں سے کہا کہ وہ پاکستانیوں کو نشانہ بناتے رہیں کیونکہ ضمنی نقصان امریکیوں کو پریشان کرتا ہے اور اس سے مجھے کو پریشانی لاحق نہیں، ہمارے اگلے وزیراعظم نواز شریف بھی ان سے مختلف نہیں تھے۔ انہوں نے کہا کہ اگرچہ پاکستان نے2016 تک دہشت گردی کو شکست دی لیکن افغانستان میں حالات بدستور خراب ہوتے گئے، پاکستان کے پاس ایک ایسی منظم فوج اور انٹیلی جنسی ایجنسی تھی جسے عوامی تائید اورحمایت حاصل تھی جبکہ افغانستان میں طویل بیرونی جنگ کیلئے جواز کے فقدان کو ایک بدعنوان اور نااہل افغان حکومت نے گھمبیر بنا دیا جسےبالخصوص دیہی افغان عوام کی طرف سے ساکھ کے بغیر ایک کٹھ پتلی حکومت کے طور پر دیکھا گیا ۔
انہوں نے کہا کہ یہ بات افسوسناک ہے کہ اس حقیقت کا سامنا کرنے کی بجائے افغانستان کی حکومت اور مغربی حکومتوں نے پاکستان پر الزام لگا کر اسے قربانی کا بکرا بنانے کی کوشش کی، ہم پر الزام لگایا گیا کہ ہم نے طالبان کو محفوظ پناہ گاہیں فراہم اور سرحد کے آرپار اسے آزادانہ نقل و حرکت کی اجازت دی ہے۔
وزیراعظم نے سوال کیا کہ اگر ایسا ہوتا تو کیا امریکا 450 سے زیادہ ڈرون حملوں میں سے کچھ کا استعمال ان مبینہ پناہ گاہوں کو نشانہ بنانے کیلئے نہیں کرتا؟
انہوں نے کہا کہ اسکے باوجود پاکستان نے دیگر اقدامات کے علاوہ افغانستان کو مطمئن کرنے کیلئے ”جوائنٹ بارڈر ویزبیلٹی میکانزم“ کی پیشکش، بائیومیٹرک بارڈر کنٹرول کی تجویز اور سرحد پر باڑ لگانے کی تجاویز دیں جو ہم نے بڑی حد تک خود کی ہے لیکن پاکستان کے ہر تجویز کو مسترد کیا گیا، افغان حکومت نے اسکی بجائے پاکستان پر الزام تراشی کا سلسلہ تیز کیا جس میں اسے بھارت کے جعلی نیوز نیٹ ورکس کی مدد حاصل رہی جو سینکڑوں پروپیگنڈا آئوٹ لیٹس کئی ممالک میں چلارہا ہے۔
وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ زیادہ حقیقت پسندانہ طریقہ یہ تھا کہ طالبان سے بہت پہلے بات چیت کی جاتی تاکہ افغان فوج اور اشرف غنی کی حکومت خاتمے کی خفت سے بچ جاتی۔
ا نہوں نے کہا کہ یقیناً اس امر پر پاکستان کو الزام نہیں دینا چاہیے کہ تین لاکھ سے زیادہ تربیت یافتہ اور ہتھیاروں سے لیس افغان سکیورٹی فورسز کم مسلح طالبان سے لڑنے سے کیوں قاصر رہی؟ بنیادی مسئلہ افغان حکومت کے ڈھانچے کا تھا جو عام افغان کی نظر وں میں قانونی حیثیت نہیں رکھتاتھا ۔
ا نہوں نے کہا کہ آج افغانستان ایک اور دوراہے پر کھڑا ہے اور ہمیں ماضی کی الزام تراشی کو جاری رکھنے کی بجائے افغانستان میں تشدد کو روکنے کیلئے مستقبل کی طرف دیکھنا چاہیے۔
انہوں نے کہا کہ مجھے یقین ہے کہ اب دنیا کیلئے یہ درست اقدام ہوگا کہ افغانستان میں امن و استحکام کو یقینی بنانے کیلئے نئی افغان حکومت کے ساتھ رابطہ رکھے ، عالمی برادری افغانستان کی حکومت میں بڑے نسلی گروہوں کی شمولیت، افغانوں کے حقوق کا احترام اور طالبان کے اس وعدے کو دیکھنا چاہے گی کہ افغانستان کی سرزمین کو دوبارہ کبھی کسی ملک کے خلاف دہشت گردی کیلئے استعمال نہیں کیا جائے گا۔
وزیر اعظم نے کہا کہ اگر طالبان رہنما ئوں کو یقین دہانی کرائی جائے کہ انہیں حکومت چلانے کیلئے مسلسل انسانی اور ترقیاتی مدد دی جاتی ہے تو ان کے پاس اپنے وعدوں پر قائم رہنے کی بڑی وجہ اور صلاحیت ہوگی۔
انہوں نے کہا کہ ایسی مراعات دینے سے بیرونی دنیا کو یہ فائدہ ہوگا کہ وہ طالبان کو اپنے وعدوں کا احترام کرنے پر آمادہ کرتی رہے گی ، اگر ہم ایسا درست اقدام اٹھاتے ہیں تو ہم و ہ حاصل کرسکتے ہیں جو دوحہ امن عمل کا مقصد تھا، ایک ایسا افغانستان جو اب دنیا کیلئے خطرہ نہ ہو، جہاں افغان چار دہائیوں کے تنازع کے بعد بالآخر امن کا خواب دیکھ سکیں ، اس کے برعکس افغانستان کو چھوڑ دینا ، پہلے بھی آزمایا جاچکا ہے، 1990 کی دہائی کی طرح یہ عمل بہت زیادہ نقصان کا باعث بنے گا۔
وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ افراتفری ، بڑے پیمانے پر نقل مکانی اور بین الاقوامی دہشت گردی کا دوبارہ رونما ہونے کا خطرہ فطری نتائج ہوں گے اور اس سے بچنا یقینی طور پر ہماری ایک عالمی ضرورت ہے۔(بشکریہ، واشنگٹن پوسٹ)