• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

واہگہ سے گوادر تک نظر دوڑاتا ہوں۔ لگتا نہیں ہے کہ ہم اپنی آزادی کے 75ویں یعنی ڈائمنڈ جوبلی سال سے گزر رہے ہیں۔ 

میں تو دو سال سے یاد دلارہا ہوں۔ اس احساس کے ساتھ کہ ہم نے ان 74برسوں میں بہت غلطیاں کی ہیں۔ بہت المیے برپا ہوئے ہیں۔ 75واں سال ان کا جائزہ اور اسباب جاننے کے لئے بھی ضروری ہے۔ یونیورسٹیاں تحقیق کریں۔ سرکاری محکمے اپنے اپنے اعمال کا احتساب کریں۔ 

عدلیہ اپنے فیصلوں پر نظر ڈالے۔ کہاں آئین اور قانون کے مطابق حکم جاری ہوا۔ کہاں آمروں کی خوشنودی پیش نظررہی؟ ہمیں ہمیشہ مایوسی سے لطف اندوز تو نہیں ہونا۔ نہ ہی ملامت کا لحاف اوڑھے رکھنا ہے۔ آنے والی نسلوں کا خیال کرنا ہے۔ انہوں نے تو کوئی گناہ نہیں کیا۔ 

سوائے اس کے کہ وہ ہمارے خاندانوں میں پیدا ہونے والی ہیں۔ ہم اپنی خطائوں، لغزشوں کا اعتراف کرکے ان کے راستوں سے کانٹے، ناکے، چیکنگ ہٹوادیں۔

وزیر اعظم کے دفتر اسلام آباد سے یہ نوید سنائی گئی تھی کہ ہمیں 4½بجے پہنچنا ہے۔ وزیر اعظم ایک روز کے لئے کراچی آرہے ہیں۔ ہم گھر سے بہت پہلے نکلے۔ بارش بھی تھی۔ ٹریفک کا کچھ پتہ نہیں ہوتا۔ لیکن ہوا وہی کہ کمند وہاں ٹوٹی جب بام دوچار ہاتھ رہ گیا تھا۔ 

گورنر ہائوس کے بالکل قریب پہنچے تو اسلامی جمعیت طلبہ کے جوان عزم ہم وطنوں کا دھرنا تھا۔ پولیس نے گورنر ہائوس جانے والا راستہ بند کردیا تھا۔ کسی طرف سے بھی نہیں جاسکتے تھے۔ وزیر اعظم کے پروٹوکول اسٹاف سے کوئی رابطہ کرکے نہیں بتارہا تھا کہ کونسا روٹ اختیار کیا جائے۔ 

مجھ سے زیادہ با خبر ہمارا ڈرائیور نکلا۔ اس نے گورنر ہائوس کے گیٹ 4سے کوشش کا مشورہ دیا۔ کامیاب رہے۔ گورنر ہائوس میں پی ٹی آئی کے ارکان اسمبلی کا اژدھام تھا۔ کچھ نئے کچھ پرانے۔ اندرون سندھ کے وہ چہرے دکھائی دے رہے تھے جو 2008 سے پہلے خبروں میں نمایاں ہوتے تھے۔ سندھ میں پی پی پی کے متبادل کی تلاش جاری ہے۔

پاکستان کے سب سے بڑے شہر کراچی کا دل جیتنے کے اسلام آبادی منصوبے تو ان دنوں سے جاری ہیں جب سے دارُالحکومت کراچی سے اسلام آباد گیا۔ اسلام آباد الگ کوششیں کرتا ہے۔ پنڈی والے الگ۔ اندرون سندھ والے دل جیتنے کی تو نہیں الیکشن جیتنے کی حکمت عملی بناتے ہیں۔ 

اس میں تو کامیاب ہوجاتے ہیں لیکن دل جیتنے میں نہیں۔ حالانکہ ان کے اکابرین پیر الٰہی بخش، میر رسول بخش تالپور، حکیم احسن، میر علی تالپور، پیر علی محمد راشدی، پیرحسام الدین راشدی، شیخ ایاز،جام صادق علی، مخدوم طالب المولیٰ ہمیشہ کراچی والوں کے دلوں میں بستے رہے ہیں۔

پی ٹی آئی کو کراچی میں قومی اسمبلی کی چودہ سیٹیں مل گئیں۔ نہ یہ پتہ چلا کہ کیسے مل گئیں اور نہ بعد میں یہ ارکان اسمبلی کہیں کراچی کی چورنگیوں میں، گلی کوچوں میں، کسی کے دکھ درد میں نظر آئے۔

یہ شہر اب بھی اسی بے وفا کا لگتا ہے

بات شروع ہی کراچی سےہوئی۔ وزیر اعظم کی آنکھوں میں کراچی کے لئے ایک درد نظر آرہا ہے۔ کیمرے نہ ٹی وی چینلوں کے ہیں نہ ہی پرنٹ کے۔ گفتگو ساری آپس کی ہے۔ پانچ سینئر اخبار نویس ہیں۔ 

باقی وزراء۔ فواد حسین چوہدری، اسد عمر، علی زیدی، ایک شمیم نقوی۔ اپنے خالص تہذیبی لباس میں۔ پائجامہ، کرتا، واسکٹ اور قراقلی ٹوپی۔ پورے سفید پوش۔ کراچی کے لئے سر کلر ریلوے کا سنگِ بنیاد رکھا گیا۔ پانی کی فراہمی کے لئے کے فور منصوبہ بھی جلد شروع ہورہا ہے۔ 

گرین بسیں آگئی ہیں۔ مزید آئیں گی۔ لگتا ہے کہ وزیر اعظم کراچی کی ترقی کے لئے بین الاقوامی میگا شہروں کا مطالعہ کررہے ہیں۔ تہران کتنا کماتا ہے۔ اپنے اخراجات خود پورے کررہا ہے۔ 

ممبئی کی کتنی آمدنی ہے۔ کراچی کی اپنی آمدنی بہت کم ہے۔ اخراجات کے لئے وفاق کی طرف دیکھتا ہے۔ اچھا لگ رہا ہے کہ اسلام آباد والوں کو کراچی کی فکر ہے لیکن سندھ حکومت کی طرف سے عدم تعاون کی شکایت رہتی ہے۔

وزیر اعظم بنڈل جزیروں کو آباد و شاد دیکھنا چاہتے ہیں۔ اعتماد سے کہہ رہے ہیں کہ باہر کے بڑے سرمایہ کار سب بے تاب ہیں یہاں مختلف منصوبے شروع کرنے کے لئے۔ دنیا بھر میں جزیروں پر اسی طرح سرمایہ کاری ہوئی ہے۔ تو نہ صرف وہاں کے لوگ بلکہ قریبی شہروں کے لوگ بھی خوشحال ہوئے ہیں۔

 حکومت سندھ نے پہلے تو این او سی جاری کردیا تھا پھر واپس لے لیا۔ اس منصوبے سے بھی کراچی شہر کو سب سے زیادہ فائدہ ہوگا۔ کراچی والوں کو بڑی تعداد میں ملازمتیں ملیں گی۔ اسد عمر پُر امید ہیں۔ وہ جن منصوبوں پر کام کررہے ہیں اس میں حکومت سندھ نے تعاون کیا ہے۔ کام آگے بڑھ ہی نہیں سکتا تھا۔ اگر وزیر اعلیٰ سندھ کی طرف سے اشتراک نہ ہوتا۔

وقت کم تھا۔ میں نے ڈائمنڈ جوبلی کی تقریبات کی طرف وزیر اعظم کی توجہ دلائی۔ ہماری عمران خان سے بنی گالا میں ایک دو ملاقاتیں ہوئی تھیں جب وہ اپوزیشن میں تھے۔ ابھی دھرنے شروع نہیں ہوئے تھے۔ 

ہمارے بہت سے خیر خواہ، رشتے دار بزرگ خواتین کو پہلے بھی اور اب بھی عمران خان سے ہی امیدیں ہیں۔ وہ روایتی جاگیردار، سرمایہ دار، سیاستدانوں سے بیزار ہیںمگر روز بڑھتی مہنگائی سے یہ خواتین بھی تنگ ہیں۔ ہم نے وزیر اعظم سے پہلے بھی تحریری طور پر گزارش کی تھی کہ قوم میں ایک ولولۂ تازہ پیدا کرنے کے لئے اگست 2021 سے اگست 2022تک ڈائمنڈ جوبلی تقریبات کا اعلان کریں۔ 

ایک کمیٹی بنادیں جس میں وفاقی وزراء ہوں۔ یونیورسٹیوں کے وائس چانسلرز۔ تحریک پاکستان کے شرکا اور اسکالرز، اپنی 74 سالہ کامیابیوں، ناکامیوں کا جائزہ بھی لیں، درسگاہوں، کالجوں میں مباحثے تقریری مقابلے ہوں، 1947کے شہدا کو یاد کیا جائے۔ 

1971- 1965-1948کی جنگوں کے شہداء کو بھی۔ 74سال کی تاریخ مرتب کی جائے۔ ان 74 سال میں مشرقی پاکستان بھی ہمارے ساتھ تھا۔ اسے فراموش نہ کیا جائے۔ جمہوری تحریکوں کا بھی تفصیلی ذکر کیا جائے۔ وزیر اعظم نے وعدہ تو کیا ہے۔ 

دیکھیں یہ اعلان کب ہوتا ہے۔اکادمی ادبیات پاکستان نے تو پہلے سے ہی ڈائمنڈ جوبلی کے حوالے سے سیمینار شروع کردیے۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین