• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

میرے والد صاحب کی خالہ 1947میں ہندوستان سے ہجرت کرکے آئیں اور پنڈی میں ایک چھوٹے سے مکان میں رہائش اختیار کی۔ یہ مکان ان کو انڈیا میں چھوڑی ہوئی جائیداد کے عوض کلیم میں ملا تھا۔ کچھ ہی عرصہ بعد ان کی ایک اور بہن بھی اسی طرح ہجرت کرکے پاکستان آئیں۔ اُس وقت سب لوگ مہاجرین کی مدد کررہے تھے تو بہن کیوں نہ کرتی۔ اُسی چھوٹے سے گھر میں بہن کو بھی ایک حصہ دے دیا کہ کچھ عرصہ تک رہیں۔ یہ محبت ان کو بہت مہنگی پڑی کیونکہ مہمان بہن نے کورٹ میں اِسی مکان کے اوپر دعویٰ کر دیا اور اِس طرح یہ کیس 30سال تک عدالتوں میں چلتا رہا۔ مکان تو ایک طرف، خاندان کے خونی رشتے بھی جھگڑوں کی نذر ہو گئے، بدقسمتی سے اگر آپ کو کبھی کورٹ کچہری سے واسطہ پڑ جائے تو آپ کو ایک مقولہ تواتر سے سننے کو ملے گا کہ

"justice hurried is justice buried"یا"Justice delayed is justice denied"

وکلاء حضرات یہ اقوالِ زریں اپنے مؤکل کو مطمئن کرنے کیلئے سناتے ہیں لیکن حقیقت یہ ہےکہ عدالتوں میں زیرِ سماعت لاکھوں مقدمات مظلوم سائلین کا مذاق اُڑا رہے ہیں۔ افسوس یہ ہے کہ ہمارا پولیس اور عدالتی نظام اسی تاخیر کی وجہ سے بلا واسطہ مستفید ہو رہا ہے۔ میرا ایک دوست اس وقت حیران رہ گیا جب معزز جج کے آنے سے قبل کورٹ محرّر نے با آواز بلند اعلان کیا کہ جن وکلاء کو اگلی تاریخ چاہئے وہ آگے آجائیں، یکدم 50فیصد فاضل وکلاء نے اگلی تاریخ لی اور ہنسی خوشی روانہ ہو گئے۔ شاید بقیہ 50فیصد بھی ایسا ہی کرتے اگر ان کے ساتھ ان کے مؤکل نہ ہوتے۔ ہمارا عدالتی نظام محرومیوں اور تکلیفوں کی طویل داستان ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا اِس سسٹم کو اسی رفتار سے چلتے رہنے دینا چاہئے یا کسی متبادل کی تلاش کی جائے؟ تنازعات کے حل کا متبادل نظام "Alternate Dispute Resulation) ADR)"، شاید ہماری کچھ مدد کر سکے۔

افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ ہمارے ادارے سائلین کی شکایات کے ازالے کیلئے خاطر خواہ محنت نہیں کر رہے اور یوں عوام کے لئے ہمارا سسٹم ’’ہنوز دلی دور است‘‘ کے مترادف ہے۔ ہمارا فوجداری نظامِ انصاف (CJS)، پولیس، عدالت اور جیل کے درمیان باہمی رابطے اور موثر کارکردگی پر منحصر ہے مگر یہ تینوں محکمے ہی وسائل کی کمی کی شکایت کرتے نظر آئیں گے لیکن حقیقت یہ ہے کہ ان کو محنت، خلوص اور جذبے کے فقدان کی شکایت کرنی چاہئے۔ پاکستان میں تھانوں کی تعداد 1970ہے جہاں سال میں تقریباً 7لاکھ FIRsدرج ہوتی ہیں۔ بہت سے واقعات رپورٹ ہی نہیں کئے جاتے۔ ان کو بھی اگرشامل کر لیا جائے تو یہ تعداد 20لاکھ تک پہنچ سکتی ہے۔ کسی بھی کیس کو حل کرنا اور پھر کورٹ میں اس کو ثابت کرنا بھی کوئی آسان کام نہیں۔ اور یہی وجہ ہے کہ ملزمان کی سزا یابی کا تناسب صرف 18فیصد ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ وہ کیسز جو کہ منظر عام پر آئیں اور کسی وجہ سے مشہور ہو جائیں صرف وہاں نظام کام کرتا دکھائی دے گا۔

جھوٹے مقدمات اور جھوٹی گواہی والے سرعام گھومتے پھرتے نظر آتے ہیں۔ اور اس طرح جھوٹی شکایات اور دعوئوں میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ سوال یہ ہے کہ اگر بہت سے معاملات، جرگہ، پنچایت، پولیس اسٹیشن یا وکیل کے دفتر میں طے ہو سکتے ہیں یعنی اگر ADRچھوٹے پیمانے پر ممکن ہے تو اس کو ہمارے کرمنل جسٹس سسٹم کا کیوں نہ باقاعدہ حصہ بنا دیا جائے۔ میں UNمشن پر بھی رہا ہوں اور وہاں بھی بات چیت کو معاملات کو حل کرنے کیلئے بہترین ذریعہ سمجھا جاتا ہے۔ آئین کے آرٹیکل 37کے مطابق پاکستان کےعوام سستے اور فوری انصاف کے حقدار ہیں لیکن غریب عوام سستے اور منصفانہ انصاف کو ڈھونڈ رہے ہیں۔ ہماری عدالتیں کوشش کر رہی ہیں کہ فیصلہ کرتے وقت انصاف کے تقاضے پورے ہوں اور پولیس جہاں سب سے پہلے لوگ جاتے ہیں، وہ بھی تفتیش اور قانونی تقاضوں کو مدِنظر رکھتی ہے۔ طریقہ کار اگرچہ آسان لیکن منظورِ نظر لوگوں کو نوازتا نظر آئے گا۔ کچھ عرصہ قبل ایک پولیس ریفارمز کمیٹی (PRC)تشکیل دی گئی جس نے پورے پاکستان میں SPsکی زیر نگرانی شکایتی سیل قائم کئے۔ اس سے 22اے اور 22بی کے تحت عدالتوں میں دائر کی جانے والی درخواستوں میں 27فیصد تک کمی آئی اور یوں بہت سارے کیسز پہلے مرحلے میں ہی حل ہو گئے۔ یہ خوش آئند قدم ہے۔

ADRایک ایسا سستا، آسان اور قابل عمل طریقہ کار ہے کہ ہم تنازعات کو متبادل نظام یعنی ثالثی، بات چیت، ماہرین کی رائے یا محتسب کے ذریعے حل کر سکتے ہیں۔ یہ سسٹم بظاہر آسان لگتا ہے لیکن اس میں بھی مشکلات آسکتی ہیں۔ مثلاً ہو سکتا ہے ایک فریق مسئلہ حل کرنا ہی نہ چاہتا ہو۔ اور ایسا بھی ہو سکتا ہے کہ فیصلہ دینے والے کسی طاقتور سے مرعوب ہو جائیں یا سوچے سمجھے بغیر فیصلہ صادر کردیں۔ جن ممالک میں ADRسسٹم رائج ہے انہوں نے انہی مشکلات کا مقابلہ کرتے ہوئے بالآخر ایسے طریقے وضع کر لئے ہیں کہ سسٹم کامیابی کی طرف گامزن ہو گیا۔

ADRایکٹ 2017سول و کرمنل اور کمرشل تنازعات کیلئے بھی کارآمد ہے۔ صوبائی حکومتوں نے بھی اس ضمن میں قوانین بنائے ہیں۔ مثلاً پنجاب نے 2019میں اس سلسلہ میں قانون بنایا۔ سندھ میں 2018میں اور کے پی میں 2020میں ایسا قانون بنا جبکہ بلوچستان میں 2010میں ہی اس کی بنیاد رکھ دی گئی تھی۔ پنجاب میں اس طریقہ کار کے ذریعے تنازعات کے حل کا تناسب 56فیصد رہا جبکہ کے پی میں تقریباً 35ہزار مقدمات راضی نامے کے ذریعہ حل ہوئے۔ کیا اب وقت نہیں آگیا کہ ہم ADRسسٹم کو مضبوط کریں اور ہر شخص بشمول وکلاء، جج، پولیس حتیٰ کہ جیل اسٹاف کو تربیت دی جائے کہ وہ کورٹ کچہری جانے کےبجائے مسائل کو بات چیت اور ثالثی وغیرہ کے ذریعہ حل کریں۔

کڑوا سچ تو یہ ہے کہ اس وقت انصاف صرف اُمراء کیلئے ہے۔ ضرورت ہے کہ اس تلخ حقیقت کو تبدیل کیا جائے تاکہ جن لوگوں کے مقدمات تھانوں اور عدالتوں میں سالہا سال سے لٹک رہے ہیں ان کا فوری مداوا ہو سکے۔

تازہ ترین