• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

یہ شان سندھ کی ہی ہے کہ باب الاسلام کے طور پر مشہورہے،اس کی وجہ یہ ہے کہ جب راجا داہر سندھ کے حکمران تھے اس وقت محمد بن قاسم کی قیادت میں مسلمانوں کی فوج سمندر کے کنارے سے سندھ میں داخل ہوئی اور راجا داہر کی افواج کو جنگ کے دوران پسپا کرتے ہوئے آخر کار سندھ کا وسیع علاقہ اسلام کے دائرہ میں لے آئے۔ سندھ کے باب الاسلام بننے کی بات گزشتہ کالم میں، میں نے ممتاز اسلامی محقق ڈاکٹر اسرار احمد کے حوالے سے کی تھی جبکہ سندھ کے کئی ممتاز علماء کے حوالے سے یہ بات بھی لکھی کہ سندھ پر اسلامی فوج کی فتح سے بہت پہلے خود کئی سندھی مدینہ شریف پہنچے تھےاور مسجد نبوی میں داخل ہوکر حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ کے مبارک ہاتھوں پر بیعت کرکے مسلمان ہوئے،ان میں سے اکثر مدینے پاک میں رہنے لگے اور اصحاب کہلائے۔ کچھ عرصے بعد حضور پُرنور ﷺ نے ان سندھی صحابیوں میں سے کچھ کو ہدایات دیکر سندھ روانہ کیا تاکہ وہ وہاں جاکر اسلام کی تبلیغ کریں،اس کے بعد سندھ اور اسلام کا مسلسل قریبی تعلق رہا ،اس کا ایک ثبوت یہ ہے کہ قرآن شریف کا اگر سب سے پہلے کسی زبان میں ترجمہ ہوا ہے تو وہ سندھی زبان ہے۔ ترجمہ کرنے والے حافظ آخوند قاضی عبدالعزیز تھے جن کا تعلق میرے شہر مٹیاری سے تھا جبکہ تقسیم سے پہلے ہندوستان میں اسلام کے حوالے سے جو بھی تحریکیں چلیں ان کا مرکز سندھ رہا۔ اس سلسلے میں ایک تو ریشمی رومال تحریک چلی جس کا مرکز ٹھٹھہ ضلع تھا، اس کے علاوہ سارے ہندوستان میں خلافت تحریک چلی جس کی قیادت مولانا محمد علی جوہر اور مولانا شوکت علی نے کی مگر اس تحریک کا اصل مرکز سندھ میں تھا لہٰذا مولانا محمد علی جوہر اور مولانا شوکت علی اس تحریک کی قیادت کرنے کے لئے زیادہ ترسندھ میں متحرک رہے ،انگریز حکومت نے مولانا محمد علی جوہر اور مولانا شوکت علی کو نہ صرف سندھ سے گرفتارکرکے ان کو کراچی کی جیل میں رکھا بلکہ ان پر کراچی میں مقدمہ بھی چلایا گیا، جب مولانا محمد علی جوہر اور مولانا شوکت علی گرفتار ہوئے تو ان کی والدہ میدان میں آئیں اور اس تحریک کی قیادت کرنے لگیں کیونکہ اس تحریک کا زور بدستور سندھ میں تھا ، مختلف شہروں ، گائوں میں انہوں نے اس تحریک کے سلسلے میں نکالے جانے والے جلوسوں اور مظاہروں کی قیادت کی۔ وہ مٹیاری بھی آئیں ، مٹیاری کے لوگوں نے اس دن اپنے گھروں سے باہر آکر مولانا محمد علی جوہر کی والدہ کا استقبال کیا اور نعرے لگائے۔انگریز حکومت سے یہ سب کچھ برداشت نہ ہوا اور حکومت کی ہدایات کے تحت پولیس نے ان اجتماعات پر فائرنگ کروا دی۔ ایک اور دلچسپ حقیقت بھی یہاں ریکارڈ پر لاتا چلوں کہ مولانا محمد علی جوہر اور مولانا شوکت علی کا ہندوستان اور خاص طور پر سندھ سے تعلق رکھنے والے اسلام کے کئی متوالوں نے اس تحریک میں ساتھ دیا جس کے نتیجے میں پولیس نے ان کو گرفتار کیا اور ان پر بھی مولانا برادران کی طرح مقدمہ دائر کیا، ان میں ایک شخص پیر غلام مجدد سرہندی بھی تھے جن کا تعلق بھی میرے گائوں مٹیاری سے تھا،ایک دن جیسے ہی مقدمہ کی کارروائی شروع ہوئی تو پیر غلام مجدد سرہندی کھڑے ہوگئے اور زور دار انداز میں عدالت کے جج کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ہمیں مارنے کی دھمکی کیوں دیتے ہو،ہم اسلام کی خاطراپنی جان دینے کے لئے ہر وقت تیار ہیں؟ انہوں نے عدالت کو بتایا کہ کل انگریز حکومت کے سولجرز نے انہیں جیل سے باہر نکال کر ہیلی کاپٹر میں بٹھایا جب ہیلی کاپٹر اوپر پہنچا تو مجھے سیٹ سے اٹھایا اور کہنے لگے کہ اس کیس سے الگ ہوجائو ورنہ اسی وقت ہیلی کاپٹر سے تمہیں باہر پھینک دینگے ، میں کھڑ ا ہوگیا اور کہا کہ ڈراتے کس کو ہو ؟ اسلام کے لئے ایک تو کیا کئی جانیں قربان، مجھے دھمکی مت دو ابھی باہر پھینک دو۔اس کے بعد انہوں نے عدالت کے جج کو کہا کہ بند کرو یہ حرکتیں، ہم ان حرکتوں سے نہیں ڈرتے۔

ا ب میں اصل موضوع حر تحریک کے حوالے سے کچھ حقائق سامنے رکھتا چاہتا ہوں۔ مجھے حر تحریک کے بارے میں دو اہم کتابیں ملنی ہیں،جب یہ کتابیں ملیں گی تو میں ان کے اقتباس آئندہ کالم میں پیش کروں گا۔ فی الحال حر تحریک کے کچھ محققوں سے جو معلومات حاصل ہوئی ہیں ان کے مطابق سندھ میں حراستی کیمپوں کی تعداد کم سے کم 12تھی جبکہ سندھ سے باہر ہندوستان کے دیگر علاقوں میں قائم کئےگئے حراستی کیمپوں کی تعداد 8 تھی۔ انہوں نے بتایا کہ اوسطاً ہر حراستی کیمپ میں کم سے کم 5ہزار افراد قید تھے جن میں بچے اور بوڑھے بھی تھے، ان میں سے ایک ہمارے صحافی دوست جو صحافتی تحریک کا بھی حصہ رہے ہیں، ان کا نام بچل لغاری ہے، ان کی ولادت ایک حر کیمپ میں ہوئی تھی۔ (جاری ہے)

تازہ ترین