کامیابی ایک ایسا راستہ ہے جو محنت سے ہو کر گزرتا ہے، یہ اسی کا مقدر بنتی ہے جو کبھی ہمت نہیں ہارتے۔محنت اور لگن سے ہی فیصلوں کو پایہ تکمیل تک پہنچایا جا سکتا ہے۔ اور ہمیشہ ایسے ہی پر عزم لوگوں کے قدم چومتی ہے، جنہیں اپنی منزل کو پانے، اپنے خوابوں کے شرمندہ تعبیر ہونے پر پورا یقین ہوتا ہے۔
کامیابی کی جستجو اور منزل پر قدم بہ قدم پہنچنے والوں میں ایک شخصیت محمد آصف خان کی بھی ہے جو ’’ہیپی پیلس گروپ آف اسکولز ‘‘کے بانی و چیئرمین ہیں،انہوں نے اپنی محنت اور کاوشوں سے تعلیم کی ترویج کو بہت تیزی سے آگے بڑھایا ان کی کا کر دگی پر صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے اس سال’’تیز ترین تعلیمی ترقی‘‘ کے ایوارڈ سے نوازا۔ اس کے علاوہ بھی وہ کئی ایوارڈز حاصل کر چکے ہیں۔ گذشتہ دنوں ہم نے ان سے ملاقات کی ۔ اس دوران ہونے والی گفتگو نذر قارئین ہے۔
س: آپ کو’’ تیز ترین تعلیمی ترقی‘‘، ایوارڈ ملا ہے، اس کے بارے میں بتائیں کہ تیز ترین سے کیا مراد ہے ؟
ج: مجھے تقریباً39سال ہو گئے ہیں تعلیم کے میدان میں کام کرتے ہوئے۔ ’ون اونر ‘کے حساب سے کراچی میں میرے اسکول کی28 برانچیں ہیں۔ میری تعلیم کے لیے کی گئی کاوشوں کی وجہ سے مجھے صدرِ مملکت نے اس ایوارڈ سے نوازا ہے، مجھے فخر ہے کہ میری علم سے محبت اور محنت کو سراہا گیا،میری خواہش ہے کہ میں تعلیم کو زیادہ سے زیادہ پھیلائوں، میں نے بہت کم عرصے میں تعلیم کو جس تیزی سے آگے بڑھایا ہے شاید ایسا کم ہی کسی نے کیا ہو۔
میری دعا ہے کہ آنے والے وقت میں ہمارے ملک کا ہر بچہ تعلیم سے بہرہ مند ہو۔ مجھے ملنے والا یہ پہلا ایوارڈ نہیں ہے، اس سے پہلے ’’لائف ٹائم اچیومنٹ ایوارڈ ‘‘بھی مل چکا ہے جو پیر مظہر الحق صاحب نے دیا تھا۔تعلیمی خدمات پر ہی نثار کھوڑو نے بھی ایوارڈ دیا تھا، پورے بلوچستان اور سندھ میں میرے اسکول کے بچوں کی دو مرتبہ میٹرک میں سیکنڈ پوزیشن آئی تھی۔ بہترین نتیجہ آنے پر وفاقی وزیرِ تعلیم شفقت محمود سے بھی ایوارڈحاصل کر چکا ہوں۔
س: آپ نے کن اداروں سے تعلیم حاصل کی ؟
ج: میرے والدین اپنے بچوں کی تعلیم کے لئے بہت زیادہ متفکر رہتے تھے۔ وہ ہمیں اعلیٰ تعلیم یافتہ اور اعلیٰ مقام پر فائز دیکھنا چاہتے تھے۔انہوں نے ہمیں اچھے تعلیمی اداروں میں داخل کرایا میں نے ناصرہ اسکول سے میٹرک کیا۔ ایس ایم سائنس کالج سے انٹر کیا۔ بی ایس سی پارٹ ون کا امتحان دے ہی رہا تھا کہ اچانک والد صاحب کا انتقال ہو گیا۔ اس کے بعد مجھ پر ذمہ داریاں زیادہ آ گئیں۔ کیونکہ میں بہن بھائیوں میں سب سے بڑا تھا ۔
میری عمر اس وقت 21سال تھی، اس عمر میں نوجوان پڑھائی کرتے اور لائف انجوائے کر رہے ہوتے ہیں۔ لیکن والد کے انتقال کے بعدتفریح کا تصور میری زندگی میں نہ تھا۔ ہم بارہ بہن بھائی تھے۔ بڑا ہونے کے ناطے مجھے ہی سب کو دیکھنا تھا۔ اللہ کا شکر ہے کہ میں سرخرو ہوا۔اسکول کے قیام کےبعد صبح اسکول جاتا اور شام کو والد کا کاروبار دیکھتا ، اُن کاعبداللہ ہارون روڈ پرالیکٹرانک کےسامان کا شو روم تھا ۔ آج میری ترقی کے پیچھے میری ماں کی دعائیں اور میری محنت شامل ہے۔
س: اسکول کے قیام کا خیال کیسے آیا ،کس سن میں قائم ہوا، کتنی برانچیں ہیں؟
ج: فیڈرل بی ایریا بلاک 6میں ہمارا ایک ہزار گز کا گھر تھا ۔ اس گھر سے اسکول کی بنیاد رکھی ۔1982میں پانچ لاکھ روپے کی رقم سے اسکو ل شروع کیا۔ابتدا ءمونٹیسوری ، کے جی ون، کے جی ٹو کی جماعتوں سے کی، آہستہ آہستہ کلاسوں میں اضافہ کرتا رہا۔ دوسری منزل بناکر پانچویں جماعت تک اسکول کر دیا۔ بعد ازاں گھر کے پیچھے کا حصہ تعمیر کرا کے آٹھویں پھر میٹرک تک کر دیا۔ مرحلہ وار اسکول کا سیٹ اپ کرتا رہا، جب بچوں کی تعداد زیادہ ہوئی اور جگہ کم پڑگئی تو سیکنڈ شفٹ بھی شروع کر دی ۔ اس علاقے میں میرا پہلا کیمرج اسکول تھا ۔
ہمارے اسکول کے بہترین تعلیمی معیار کو دیکھتے ہوئے بچوں کی تعداد میں تیزی سے اضافہ ہوتا گیا تو مجھے دوسری عمارت کرائے پر لینی پڑی ، اس طرح بہ تدریج اسکول کی برانچوں میں اضافہ ہوتا گیا۔زیاد ہ تر برانچیں فیڈرل بی ایریا ( سینٹرل) میں ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ میں بچپن سے ہی یہاں رہتا تھا۔ بہت سی نامی گرامی شخصیات جن میں سائنس دان عبدالقدیر خان بھی شامل ہیں یہاں رہتے تھے۔
سو اپنے علاقے میں ہی اسکول کی برانچیں کھولیں۔ایک برانچ النور میں پندرہ ہزار گز پر ہے، یہ ایک بڑا اسکول ہے جس میں فٹ بال کامیدان ، ایک لائبریری اور سائنس لیب بھی ہے۔ ہر برانچ میں بچوں کو ہر طرح کی سہولیات فراہم کی جاتی ہیں۔ اعلیٰ تعلیم یافتہ اساتذہ ہیں۔ میں نے ہمیشہ تعلیمی معیار کو ترجیح دی۔ اسکول کی فیس گورنمنٹ کی مقرر کردہ معیار سے بھی کم رکھی تاکہ ہر طبقے کے لوگ اپنے بچوں کو اس اسکول میں داخلہ کرا سکیں۔
س: کس نظریے کو لے کر تعلیم کو آگے بڑھایا؟
ج: ہمارے ملک میں تعلیم کی شرح بہت کم ہے، ہم دوسرے ممالک سے تاحال بہت پیچھے ہیں۔ میں چاہتا تھا کہ تعلیم کے میدان میں ہمارا ملک بھی ترقی کی طرف گامزن ہو۔ میرا مقصد کم فیس میں بہترین تعلیم دینا ہے۔ وہی ممالک ترقی کرتے ہیں، جہاں تعلیم کی شرح بلند ہوتی ہے۔ سو میں نے بھی اپنا حصہ ڈال کر چراغ روشن کیے۔اللہ کرے وہ وقت آئے جب ہمارے ملک میں بھی تعلیم کی شرح بلند ہو جائے۔
س: اسکول کے قیام میں آپ اکیلے تھے یا اور لوگوں کو بھی شامل کیا ؟
ج: میرے ایک دوست برکت اللہ غوری تھے۔ ہم دونوں تعلیم کے حوالے سےمنصوبہ بندی کرتے رہتے تھے۔ مشاورت سے ہم دونوں نے اپنے اپنے اسکول کی داغ بیل ڈالی۔ اسکول کے قیام کے بعد میں نے اکیلے جدوجہد کی۔رات کو علاقے کے ہر گھر میں خود پمفلٹ ڈالتا، بینر لگاتا تھا، جب اسکول میں بچوں کی تعداد کم تھی تو وین میں ڈرائیور کے ساتھ بیٹھ کر بچوں کو پک کرنے بھی جاتا تھا تاکہ والدین کو اعتماد ہو ۔ والدین کی طرف سے بہت پذیرائی ملی، جس سے مجھے کافی حوصلہ ملا۔اپنی تعلیم کے ساتھ اسکول میں بھی پڑھاتا تھا ، پھر میں نےاساتذہ کا تقرر کیا اور خوداسکول کی نگرانی کرتا۔
س:اسکول کا نام ’’ہیپی پیلس‘‘ کیوں رکھا ؟
ج: 1987:میں جب ہمارا گھر بنا تو دیکھنے میں بالکل محل کی طرح تھا ،آتے جاتے دیکھنے والے لوگ اکثر اسے ’’پیلس‘‘ محل کہنے لگے،1982میں جب اسکول کی بنیاد رکھ رہا تھا تو اس زمانے میں ہیپی ہوم، ہیپی چائلڈ، وغیرہ یعنی ہیپی نام رکھنے کا رجحان تھا، لہٰذا میں نے بھی اپنے اسکول کا نام ’’ہیپی پیلس ‘‘ رکھ لیا۔
س: درس و تدریس سے وابستہ ہونےکی کوئی خاص وجہ،کسی استاد سے متاثر تھے یا پڑھانے کا شوق تھا؟
ج: جس زمانے میں تعلیم حاصل کر رہا تھا، اس وقت اساتذہ اپنے طلباء سے بہت مخلص تھے ۔بہت محنت سے پڑھاتےتھے۔ استاد کا احترام کیا جاتا تھا، یہ بات میرے ذہن میں بیٹھ گئی کہ اس شعبے سے زیادہ معتبر کوئی شعبہ نہیں۔ اس میں خدمت بھی ہے اور عبادت بھی۔ پیسہ تو مختلف شعبوں سے کمایا جا سکتا ہے، لیکن عزت کے ساتھ کمانابڑی بات ہے۔ یہ بہت باعزت شعبہ ہے ، اسی لیے میں نے اس شعبے کو اپنالیا۔ میں اپنے اسکول میں تعلیم کے معیار سے کوئی سمجھوتہ نہیں کرتا، یہی وجہ ہے کہ چراغ سے چراغ روشن کرتا جارہا ہوں اور مجھے بہت عزت ملی۔ جتنا بھی اللہ کا شکرادا کروں کم ہے۔
س: کل اور آج کے تعلیمی معیار کا موازنہ کیسے کریں گے؟
ج: پہلے تعلیم پروفیشنل نہیں تھی۔ اساتذہ بھی اپنے شعبے سے بھرپور انصاف کرتے تھے۔ والدین اپنے بچوں کو استاد کے حوالے کر کے بے فکر ہو جاتےتھے وہ جانتےتھے کہ بچہ ضرور اچھا انسان بن کر نکلے گا۔ استاد کی بہت عزت تھی، اب بھی ہے لیکن پہلے جیسی نظر نہیں آتی ۔ معیار تعلیم بھی بری طرح متاثر ہواہے،ویسے بھی تعلیم پر بجٹ ہی کتنا رکھا جاتا ہے جو معیار تعلیم بلند ہوگا، اور پرائیوٹ تعلیمی اداروں کو حکومت کی طرف سے کوئی سب سڈی نہیں ملتی۔ نہ اُن کی کوئی حوصلہ افزائی کی جاتی ہے۔ لیکن کم از کم پرائیوٹ اسکول ملک میں تعلیم تو پھیلا رہے ہیں، گورنمنٹ اسکولوں کا توکوئی پرسان حال ہی نہیں۔
س: اگر سندھ میں یکساں نصاب رائج ہوا تو کیا آپ اسے اپنے اسکول میں نافذ کریں گے؟
ج : پرائیوٹ اسکولز ایسوسی ایشن نے صوبائی وزیِر تعلیم سے بات کی تھی، انہوں نے کہا ہے کہ سندھ کی ثقافت الگ ہے ۔ہم ایسا نہیں کر سکتے، پھر والدین بھی نہیں چاہتے کہ یکساں نصاب ہو۔ ہم جو تعلیم دے رہے ہیں وہ جدید تقاضوں کے متقاضی ہے۔ پہلے سرکاری اسکولوں کو بہتر بنانے کی ضرورت ہے۔
میں یہ نہیں کہتا کہ شروع سے ہی ان کی حالت ناگفتبہ تھی ۔پہلے یکساں نصاب سرکاری اسکولوں میں رائج کریں وہاں کامیاب ہوجائیں تو پھر پرائیوٹ اسکولوں پر لاگو کریں لیکن اس کے لیے ضروری ہے کہ انٹرنیشنل لیول پر کتابیں ہوں، تب ہم یکساں نصاب رائج کرنے پر راضی ہوں گے۔
اکثرچین کی مثال دی جاتی ہے، اس کے لیے ہماری سوچ ، مقاصد،عمل اور ادارے بھی تو ویسے ہونے چاہیے۔ اگر حکام واقعی مخلص ہیں تو پہلےان سرکاری اسکولوں کو سدھاریں ،جہاں گدھے اور بھینسیں بندھی ہیں۔ بجٹ میں ایک بچے پر21 ہزار خرچ کا تخمینہ لگایا گیاہے۔ کیا یہ بچے پر خرچ ہورہا ہے ، پیسہ کہاں جارہا ہے یہ سوچنے کی بات ہے۔ہم جو اچھی تعلیم، بہترین رزلٹ دے رہے ہیں، ان ہی کو مانیٹر کیا جاتا ہے۔ جو کام کرنا چاہتے ہیں،اُن کے ساتھ ہی رویہ مناسب نہیں۔
گورنمنٹ کو تو شکریہ ادا کرناچاہیے، اگر پرائیوٹ اسکول نہیں ہوتے تو اعلیٰ عہدیدران کے بچے کہاں پڑھتے کیا یہ منسٹر اور اعلیٰ عہدیدران اپنے بچوں کو یکساں نصاب پڑھائیں گے؟ ہمارے ملک میں ایسے لوگوں کو آگے آنا ہوگا جو اپنے آپ کو وقف کردیں۔ باتیں کرنے اور عمل کرنے میں بڑا فرق ہے ۔
س: چھوٹے چھوٹے پرائیوٹ اسکول گلی گلی محلے محلے میں قائم ہیں۔اس بارے میں آپ کا کیا خیال ہے؟
ج: 80گز اور120گز پر بنے اسکولوں میں اکثر دیکھنے میں آیا ہے کہ نیچے کارخانہ یا مکینک کی دکان ہے اور اوپر اسکول ہے، اس میں وہ والدین جن کی ماہانہ آمدنی کم ہے،اپنے بچوں کو پڑھارہے ہیں، مانا کہ اسکول چھوٹے ہیں، فیس کم ہے، اساتذہ بھی اعلیٰ تعلیم یافتہ نہیں لیکن اس سے بہتر ہے کہ بچے گلی میں مارے مارے پھریں ،کچھ نہ کچھ تو یہاں سے تعلیم حاصل کر ہی رہے ہیں، اعلیٰ معیار نہ سہی تعلیم کی ترویج تو ہورہی ہے۔ والدین استطاعت نہیں رکھتے لیکن خوش آئند بات ہے کہ وہ اپنے بچوں کو پڑھانے کا جذبہ تورکھتے ہیں۔ا پنی اولاد کو آگے بڑھتا ترقی کرتا دیکھنا توچاہتے ہیں۔
س: کورونا نے پوری دنیا کو متاثر کیا ، آپ کی نظر میں ہمارے ملک میں تعلیم پر اس کے کیا اثرات مرتب ہوئے؟
ج: ہمارا ملک کیا پوری دنیا میں اس وباء سے تعلیم بہت متاثر ہوئی ہے لیکن ہمارے ملک میں کچھ زیادہ ہی متاثر ہوئی۔ یہاں سب سے پہلے تعلیمی ادارے بند کردیئے جاتے ہیں۔ ہر کام ہورہا ہوتا ہے لیکن تعلیم پر قفل لگادیا جاتا ہے ۔بچوں کی تعلیم سے دوری بڑھ گئی۔ وہ کھیل کود کی طرف زیادہ مائل ہوگئے ہیں۔ ہم نے آن لائن تعلیم جاری رکھی لیکن ہر کوئی ایسا نہیں کرسکا ۔تعلیم کا بہت زیادہ نقصان ہوا ہے۔ اگلی جماعت میں تو ترقی دے دی گئی لیکن بچےقابلیت میں پیچھےرہ گئے ہیں۔
س: آن لائن تعلیم سے کیا تمام طلباء مستفید ہوئے؟ طلباء اور اساتذہ کو کیا مشکلات درپیش آئیں؟
ج: جس ملک میں خاص کرکراچی میں بجلی آنکھ مچولی ہو وہاں آن لائن کی تعلیم ایک مشکل اور کٹھن مرحلہ ہے۔ ایک گھر کے تین بچے پڑھتے ہیں تو کیا ہرایک کو لیپ، ٹاپ یا اینو رائیڈ موبائل لے کر دیں گے ،ہر والدین اس کے متحمل نہیں تھے ۔ تمام اساتذہ اور طلبا ءکو اس میں مہارت بھی نہیں تھی، جس کو سمجھنے میں ٹائم لگا۔ تحقیق سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ صرف15 فی صد طلبا ءنے آن لائن سے فائدہ اٹھایا ہے۔ باقی85فی صد خانہ پری ہوئی ہے،عمل کچھ نہیں صرف باتیں ہی باتیں ہوں تو کیا فائدہ ہوسکتا ہے۔
س: ہر بچے کی صلاحتیں مختلف ہوتی ہیں ان کو کیسے پروان چڑھاتے ہیں؟
ج: ہم بچوں کے رزلٹ سے ان کی صلاحیتوں کو جانچ لیتے ہیں، اس کے بعد ہم ان کے والدین سے میٹنگ کرتے ہیں، کونسلنگ کرتے ہیں، انہیں سمجھاتے ہیں کہ بچے کے لیے کیا بہتر رہے گا۔میٹرک کے بعد کونسلنگ کرتے ہیں جو بچے اے لیول پاس کرلیتے ہیں اور ملک سے باہر تعلیم حاصل کرنے جاناچاہتے ہیں ان کی بھی کونسلنگ کرتے ہیں کہ کہاں کہاں یونی ورسٹیاں ہیں کہاں داخلہ لینا چاہیے۔
س: آپ کے اسکولز میں کھیلوں کی سرگرمیاں کیسی ہے؟
ج: ہفتے میں دودن ایک گھنٹے کا پریڈ کھیل کا ہوتا ہے بچوں کے لیے غیر نصابی سرگرمیاں بہت ضروری ہیں ۔ ہم مختلف کھیلوں کے مقابلے کراتے ہیں ۔ اور انعامات بھی تقسیم کرتے ہیں۔
س: بچوں کی صحت کے حوالے سے کیا کچھ کرتے ہیں؟
ج: رپورٹ کارڈ کے ساتھ بچوں کا میڈیکل چارٹ جاتا ہے۔ ان کا قد، وزن،آئی سائیڈ وغیرہ سب درج ہوتی ہے، ماہانہ بچوں کا چیک اپ ہوتا ہے۔ ان کے فیملی ڈاکٹرز سے بھی رابطے میں رہتے ہیں۔
س: ان چراغوں کے بارے میں سوچا جو پڑھنا چاہتے ہیں لیکن ان کےوسائل نہیں ہیں؟
ج: ویسے تو یہ حکومت کی ذمہ داریاں ہے لیکن تمام پرائیوٹ اسکول بھی مل کر ان بچوں کے لیے بہت کچھ کرسکتے ہیں۔ حکومت تعاون کرے اورسہولت دے تو ہم یہ کام کرسکیں گے۔
س: نئی نسل کو تعلیمی میدان میں آگے بڑھنے کے لیے کیا مشورہ دیں گے؟
ج: نئی نسل وقت بہت ضائع کررہی ہے، اُنہیں وقت کی قدر نہیں ، ان کو میرا پیغام ہے کہ کتابوں سے محبت کریں اور موبائل پر سرچ کریں کہ دنیا کہاں جارہی ہے۔ نیٹ پر ہی بہت سی معلومات حاصل ہو جاتی ہیں ،میسج کرنے دوستیاں بڑھانے کے بجائے علم میں وسعت دیں۔
ان میں صلاحیت کی کمی نہیں ہے بس ضرورت ہے ان کے شعور کو بیدار کرنے کی ،ان کو صحیح سمت میں لانے کی ہے۔ ٹیکنالوجی کا مثبت استعمال کریں، آگے بڑھیں ملک کی باگ دوڑ سنبھالنے کے لیے اپنے آپ کو کسی قابل بنائیں۔